Urdu Short Story Rog By M.Mubin

افسانہ) روگ از ایم مبین

رپورٹ کے آتے ہی گھر میں ایک قیامت آگئی ۔گھر کا ہر فرد ایک دہکتا ہوا آتش فشاں بن گیا ۔اور وہ پھٹ کر اس پر اپنا تپتا ہو ا لاوا برساکر اس کے وجود کے خاتمے کی فکر کرنے لگا۔گھر والوں کے چہروں کے تاثرات اچانک بدل گئے ۔کہاں پہلے اس کے لیے ان چہرے پر ہمدردی کے تاثرات ہوتے تھے آنکھوں سے اس کے لیے پیار امڈتاتھا لیکن اب ان کی جگہ چہر ہ پر غیض و غضب کے تاثرات نے ڈیر جما لیا ۔آنکھوں سے اس کے لیے نفرت کی گنگا جمنا بہنے لگیں ۔وہ غصہ اور نفرت ہر کسی کے ہونٹوں سے ابل پڑتا۔’’میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچاتھا کہ میری بیٹی ایسی نکلے گی ۔’’پتا جی کے لہجے میں تاسف تھا ۔‘‘میر دے وست احباب ،رشتہ دار مجھے سمجھاتے تھے للت بیٹی کو اتنی چھوٹ مت دو۔زمانہ بدل گیا ہے ۔وہ زمانہ گیا جب ساری دنیا کی لڑکیوں سے زیادہ آزادی ہم اپنی بیٹیوں کے دیتے تھے لیکن پھر بھی وہ ہماری اس آزادی کا کبھی غلط استعمال نہیں کر تی تھیں ہماری عزت وناموس پر حرف نہیں آنے نہیں دیتی تھیں ۔آجکل لڑکیوں کے قدم ڈگمگانے میں دیر نہیں لگتی۔اگر کوئی غلط قدم پڑ گیا تو اس کی شادی میں مشکلیں کھڑی ہو جائیں گی اور تمھارے لیے وہ زندگی بھر کا روگ بن جائے گی لیکن میں ان سے کہتا تھا مجھے اپنی بیٹی پر بھروسہ ہے کنتل کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی جس سے ہماری عزت وناموس پر حرف آئے نہ کبھی کنتل کے قدم لڑ کھڑا سکتے ہیں ۔لیکن آج جو با ت سامنے آئی ہے ۔ہم لاکھ چاہ کر بھی اسے ا پنے تک محدود نہیں رکھ سکتے۔کل تک یہ بات سارے رشتہ داروں کو معلوم ہوجائے گی ۔پرسوں ساری برادری جان لے گی اور کچھ دنوں میں سارا شہر ،اف ،بھگوان مہاویر تم نے یہ کونسے گناہ کی سزا مجھے دی ہے۔اس بے عزتی سے اچھا تھا تم مجھے اس وقت اپنے پاس بلالیتے جب مجھ پر دوسر ادل کا دورہ پڑا تھا ۔’’تو کلنکنی نکلے گی ہم نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سو چاتھا ‘‘ ماں نے رورو کر اپنا برا حال کر لیا تھا۔،مانا! جوانی میں لڑکیوں سے نا دانیاں ہوتی ہیں۔جوانی کی رو میں وہ بھٹک جاتی ہیں۔ ان کے قدم لڑ کھڑا جاتے ہیں ۔لیکن وہ کبھی ایسا قدم نہیں اٹھا تیں جس سے ان خاندان پر کوئی انگلی اٹھائے یا جو قدم ان کی آنے والی زندگی کے لیے نرک بن جائے۔لیکن نادان لڑکی!تو نے تو ایسا قدم اٹھا یا ہے جس کی وجہ سے تونے ہمیں تو کہیں کا نہیں رکھا۔خود کو بھی موت کے دروازے پر لاکر کھڑاکر دیا ہے۔ارے جوانی کے جوش میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ تو دیکھنا تھا جس کے ساتھ تو اپنی جوانی کے آگ ٹھنڈی کر رہی ہے وہ لڑکا کیسا ہے؟ کہیں وہ تمھیںتمھاری جوانی کی آگ بجھانے کے ساتھ ساتھ موت کا روگ تو نہیں دے رہا ہے ؟ آخر اتنا گرنے کی ضروت ہی کیا تھی ۔ایسے لڑکے ،لڑکیوں کے ساتھ ۔۔۔ جو موت کا روگ دے چھی چھی۔۔۔۔۔۔‘‘ممی!مجھے اس پر بہت بھروسہ تھا ۔منیش بولا۔اور سچ کہتاہوں مجھے اس بات پر فخر تھا۔میرے سارے دوستوں کے کی بہنوں کے افیروسننے میں آتے تھے ۔لیکن اس کے بارے میں کبھی کوئی بات مجھے سننے میں نہیںآتی تھی میں فخر سے اپنے دوستوں میں اعلان کر تا تھا اگرمیری بہن کا کوئی ایک افیروبتا دے تو اسے جو چاہے وہ انعام دوں گا۔اور سچ مچ میرے دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے بارے میں کوئی اڑتی اڑتی خبر بھی لانے میں کامیاب نہیں رہا تھا۔لیکن یہ تو چھپی رستم نکلی اس نے ہمارے ،ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا۔۔اور لائی بھی تو اتنی بڑی خبر جس کی وجہ سے ہم کہیں کے نہیں رہے۔ارے کوئی معاملہ ہوتا تو ہم اسے جھٹلا سکتے تھے کہہ سکتے تھے افواہیںہیں صفائی پیش کر سکتے تھے کہ ہماری بہن ایسی نہیں ہے اسے بد نام کر کے لیے یہ سازش رچی گئی ہے۔ لیکن اس نے تو کوئی راستہ باقی ہی نہیں رکھا ۔ایک ایسا روگ اپنی بد چلنی کی وجہ سے پال لیا ہے جس کے بعد اس کی پاک دامنی کی بات کر نے سے بڑی بے وقوفی ہو ہی نہیں سکتی ۔ہر کوئی ہماری باتوں کا مذاق اڑائے گا ہم پر انگلیاں اٹھائے گا۔بڑی بہن اسے سمجھانے لگی۔’’کنتی! میں جانتی ہوں جوانی میں لڑکیوں سے غلطیاں ہوتی ہیں ۔تم میرے سارے افیروجانتی ہو۔لیکن کیا کبھی کسی معاملے کے بارے میں ہمارے گھر والوں یا کسی کو پتہ چلا؟ آج بھی میرے شوہر کو مجھ پر ناز ہے ۔لیکن تم نے یہ کیا بیوقوفی کی ۔جس بات کا راز رکھنا چاہئے اس بات کی وجہ سے ایک ایسا روگ مول لے لیا ۔جس کی وجہ سے اب ساری دنیا میں تیری بد چلنی کی تشہیر ہو گی۔’’نہیں نہیں ‘‘میںبھگوان مہاویر کی قسم کھاکر کہتی ہوں ۔میں بدچلن نہیں ہوں ۔میں۔ ۔ ۔ کے دن ساری دنیا کیسامنے مندر میں حلف لے سکتی ہوں کہ میں ’’پوتر‘‘ ہوں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔آپ لوگ میرے’’پوترتا ‘‘پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں مجھے آوارہ بدچلن کہہ رہے ہیں ۔لیکن میں آپ لوگوں کس طرح بتاؤں میں نے ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھا یا ہے جس کی وجہ سے سماج میں آپ کو شرمندہ ہونا پڑے۔ارے بد چلنی آوارگی کی بات تو دور ہے ۔سچائی تو یہ ہے کہ کسی لڑکے نے آج تک میرے جسم کو چھوا بھی نہیں ہے ۔میں نے کسی لڑکے اپنے جسم کو چھونے کی اجازت بھی نہیں دی ہے۔اس کے باوجود مجھ پر اتنے گھناؤنے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ان الزامات کا سامنا کرنے سے پہلے مجھے موت کیوں نہیں آگئی ۔ان الزامات کو لگانے سے بہتر تھا کہ آپ لوگ مجھے میرا گلا دبا کر مار ڈالتے۔تو میں اپنا خون آپ لوگوں معاف کر یتی ۔و ہ دہاڑیں مار مار کر رورہی تھی۔’’چوری اور سینہ زوری‘‘ منیش غصے سے بولا‘‘۔ایسی بے شرم لڑکی تو شاید ہی دنیا میں کوئی ہوتی ۔ ارے ہم کیا تجھ پر الزام لگائیں گے۔ ڈاکٹری رپورٹ تیرے سارے گناہوں کا ثبوت ہے ۔تیرے گناہوں کی کہانی سناتا ہوں ۔’’بیٹی!اگر ساری دنیا آکر مجھ سے کہتی تیری لڑکی آوارہ ہے بد چلن ہے تو میںان پر بھروسہ نہیں کرتاان سے کہتا تم لوگ چاہو کچھ بھی کہو ۔مجھے میری بیٹی پر بھروسہ ہے۔میری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی۔لیکن ڈاکٹری رپورٹ کو کون جھٹلا سکتا ہے۔تمھاری ڈاکٹری رپورٹ میں صاف طور پر لکھا تھا۔’’ایچ آئی وی ۔پازیٹو ‘‘ایک کنواری لڑکی کو ’’ایچ آئی وی پازیٹو ‘‘اسے اس کے بعد کسی کو کیااس کی کہانی بتانے کی ضرورت ہے؟ یہ سننے کے بعد ہر کوئی اندازہ لگالے گا کہ اسے ایچ آئے وی کس طرح ہو اہوگا۔اور لڑکی کا کردار کس طرح کا ہوگا۔لیکن وہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور صاف کہہ رہی تھی اس پر اتنا بڑا الزام لگانے سے بہتر ہے اس کا گلا دباکر اسے ختم کر دیا جائے ۔اگر یہ سچائی بھی ہے ۔تو یہ قصہ یہاں پر ختم کر دیا جائے۔جس بدنامی سے وہ ڈر رہے ہیں ۔وہ ڈر جاتا رہے گا ۔کسی کو معلوم نہیں ہو گا۔گھر کی بات گھر تک رہیگی۔لیکن بھلا یہ کیا ممکن ہے؟جوماں باپ جس اولا د کو جنم دیتے ہیں ۔جسے وہ لاکھ مصیبتوں جتن سے پالتے ہیں ۔اس کی کسی بہت بڑی غلطی پر بھی کیا وہ بھی اس کی جان لے سکتے ہیں؟نہیں ۔۔ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔وہ سب بے بس تھے۔جوان بیٹی کی نہ توجان لے سکتے تھے نہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر نے کے لیے اس پر ہاتھ اٹھا سکتے تھے۔نہ اس کی بات پر یقین کر سکتے تھے۔ویسے بھی وہ سارے گھر کی لاڈلی تھی۔اس کے ایک اشارے پر ماں باپ چاند ستارے لاکر اس کے قدموں میں ڈال سکتے تھے۔تو بھلاوہ اس پر ہاتھ اٹھا ئے یہ ہوہی نہیں سکتا تھا۔سارے گھر والوں نے اسے اتنی باتیں سنادیں یہی بڑی بات تھی ۔وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔اور مسلسل اس بات سے انکار کر رہی تھی کہ اس نے کوئی غلطی کی ہے اس پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں جھوٹ ہیں ۔اس کے باوجود وہ اس کی بات نہیں مان رہے تھے اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور سزا تو ہو ہی نہیں سکتی تھی۔اس کی آنکھوں میں اگر آنسو آجائے تو سارا گھر تڑپ اٹھتاتھا۔اور سب اسے چاروں طرف سے گھیر لیتے تھے۔’’بیٹی! تمھارے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرے کلیجے پر چھریاں چلنے لگتی ہیں۔بتا تجھے کیادکھ ہے۔لیکن وہ آج مسلسل آنسو بہائے جارہی تھی۔لیکن اس کے آنسوؤں کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر سب چلے گئے۔وہ اپنے کمرے میں آکر پلنگ پر لیٹ کر آنسو بہاتی رہی۔کسی نے بھی آکر جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔اس نے کھانا کھایا یا نہیں۔وہ کھانا کھانا چاہتی ہے یا نہیںگھر کے ممبران تو دور گھر کے کسی نوکر نے بھی آکر نہیں پوچھا۔وہ رات بھر نہیں سو سکی ۔روتے روتے اس کی آنکھیں سوجھ گئیں ۔گلا رندھ گیا۔کمزوری کی وجہ سے اسے چکر آنے لگے رات بھر طرح طرح کے وسوسے اسے گھیرے رہے۔طرح طرح کے خیالات اس کے اندر ایک ادھم مچاتے رہے۔بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی خیال آرہا تھا۔’’وہ خود کشی کرلے۔‘‘ اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اپنے غموں سے نجات حاصل کر لے اور اپنے گھر والو ں کو ممکنہ بد نامی سے بچالے۔وہ غور کرنے لگی تو اسے محسوس ہونے لگا گھر والوں کوکا غصہ حق بجانب ہے ۔ایسی حالت میں ہر گھر والے اپنی لڑکی کے ساتھ یہی بر تاؤ کر سکتے تھے بلکہ اس کو محسوس ہوا یہ گھر والوں کا لاڈ پیار ہے۔معاملہ باتون پر ختم ہوگیا۔اگر وہ کسی اور گھر میں ہوتی تو ابھی تک اس کا جسم نیلا پیلا ہوگیا ہوتاکوئی بھی گھر والے کیا دنیا سے اس بدنامی کے بر داشت کر سکتے ہیں کہ دنیا والے ان پر انگلی اٹھاکر کہے وہ اس کنواری لڑکی کے ماںباپ ہیں جسے اس کی بد چلنی کی وجہ سے ایڈ س کا موذی روگ لگ گیا۔اگر یہ سچائی تھی تو سچائی یہ بھی تھی کہ اسنے کبھی ایسا قدم نہیں اٹھایا تھا جس کی وجہ سے اسے ایڈس کا مرض لاحق ہو۔لیکن وہ اپنی اس سچائی کس طرح ثبوت دے اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ڈاکٹر کی رپورٹ میں صا ف لکھا تھا۔ایچ آئی وی۔پازیٹو۔ڈاکٹری رپورٹ کی بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔بیماریاں کبھی کافی طویل ہوتی تھی تو کبھی مختصرسی۔بیماریوں کا باقاعدگی سے علاج ہو تاتھا ۔اس کی بیماریوں کے علاج میں غفلت نہیں کی جاتی تھی ۔کیونکہ وہ سارے گھر کی لاڈلی تھی ۔اورگھر میں پیسوں کی ریل پیل کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔گھر کا فیملی ڈاکٹر تھا۔لیکن جہاںوہ کسی بیماری کے بارے میں کسی دوسرے ڈاکٹر سے علاج کر وانے کا مشورہ دیتا فوراً اس سے رجوع کیا جاتا تھا۔کئی سالوں سے اس طرح زندگی گذر رہی تھی۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا ۔وہ بہت کمزور ہے۔اس لیے چھوٹی چھوٹی بیماری بھی اس پر بہت جلد حاوی ہو جاتی ہیں ۔کئی سالوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔اچانک ڈاکٹر کے پتہ نہیں کیا بات ذہن میں آئی اس نے ۔’ایچ آئی وی‘ ٹسٹ کا مشورہ دیا۔اس پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔سمجھا یہ ڈاکٹر کا کوئی فارمل ٹسٹ ہے۔ڈاکٹر لوگ تو اپنے مفاد کے لیے اس طرح کے عجیب وغریب ٹسٹ کراتے رہتے ہیں ۔اب ان کے کسی ٹسٹ کی مخالفت بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔اس لیے اس ٹسٹ کو بھی سیریس نہ لیتے ہو ئے اس نے اپنا ایچ آئی وی ٹسٹ کروالیا۔اور ٹسٹ کی رپورٹ آتے ہی گھر میں یہ قیامت چھا گئی۔دوتین دن اسی طرح گذرے۔اس نے اپنے کمرے سے باہر قدم نہیں نکالا ۔ایک دن تک تو کسی نے بھی اسے کھانے پینے کے لیے نہیں پوچھا۔لیکن پھر ماں کی ممتا جاگی۔اور وہی اسکے کمرے میں آئی اور اس کی منت سماجت کر کے اسے کھانا کھانے کیلئے مجبور کر نے لگی۔ماں کی منت سماجت سے مجبو ر ہوکر اس نے کسی طرح کھانا زہرما رکر کیا۔ایک ہفتہ بعد گھر والوں نے سوچا رپورٹ پر تو انھوں نے طے کر لیا کہ کنتل کو ایڈس جیسا بدنام روگ ہے ۔لیکن انھوں نے ابھی تک رپورٹ ڈاکٹر کو بتائی نہیں نہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ طلب کیا ۔تو انھوں نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا طے کیا۔وہ ضد کرنے لگی کہ وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیگی لیکن اسے زبر دستی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔رپورٹ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے وہی کہا جس کے بارے میں انھوں نے اندازہ لگایا تھا ۔لیکن جب ماں نے پوچھا۔’’ڈاکٹر صاحب! کنتل کو یہ روگ کس طرح ہو ا ۔‘‘’’ممکن ہے کنتل کے کسی ایسے لڑکے سے جسمانی تعلقات قائم ہوئے ہوں گے جو اس موذی مرض کا مریض رہاہوگا ۔اس کی وجہ سے کنتل کو یہ روگ ہو اہوگا۔‘‘تو وہ احتجاج کرنے لگی کہ جسمانی تعلقات تو دور کی بات آ ج تک کسی لڑکے نے اس کے جسم کو چھوا بھی نہیں ہے ۔پھر یہ روگ اسے کس طرح لگ گیا۔اس کے احتجاج پر ڈاکٹر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔پھر بولا۔’’ایڈس صرف جسمانی تعلقات کی وجہ ہی سے نہیں ہوتا ہے ۔کسی ایڈس کے مریض کا خون چڑھانے سے بھی ہو سکتا ہے۔اور کسی ایڈس کے مریض کو لگائے گئے انجکشن سے بھی اگر کسی صحت مند آدمی کو انجکشن لگایا جائے توبھی اسے ایڈس ہو سکتا ہے۔ کنتل کئی سالوں سے بیمار ہے ۔اس کا علاج کئی ڈاکٹروں کے پاس ہو اہے۔کسی ڈاکٹر نے لاپر واہی سے اسے کبھی کسی ایسی سوئی سے انجکشن لگا دیا ہوگا جو کسی ایڈس کے مریض کو دی گئی ہو۔اس کی وجہ سے بھی کنتل کو ایڈس ہو گیا ہوگا۔ڈاکٹر کی بات سن کر وہ خوشی سے اچھل پڑی۔اسے ایسا لگا جیسے اس کے سارے گناہوں کے الزامات سے بری کر دیا گیا ہے اس نے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھا ۔ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور چہرے سے مسرت جھلک رہی تھی۔مسرت اس بات کی تھی کہ انھیں اس بات کا احسا س ہوگیا تھا ان کی بیٹی آوارہ بد چلن نہیں ہے۔اب وہ سماج میں سر اٹھا کر چل سکتے ہیں ۔انھیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسے اور اس کے گھر والوں کو اس بات کی کوئی پر واہ نہیں ہے۔کہ اس کی بیماری لاعلاج ہے۔وہ ہنستے ہنستے موت کو گلے لگا سکتی تھی ۔کیونکہ اسے اس بات کی خوشی تھی اس کے گھر والے اس کی موت پر آنسو بہائیں گے۔ان کے دل میں اس کے لیے کوئی نفرت نہیں ہے۔زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔اوپر والے سے ہر کوئی زندگی چاہتا ہے ۔کبھی موت کی دعا نہیں کر تا۔موت کب آئے گی کسی کو علم نہیں ہوتاہے۔لیکن کسی کو علم ہو جائے کہ وہ مر نے والا ہے تو اس کی زندگی کتنی کر بناک بن جاتی ہے ۔ ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ابھی موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ۔اور وہ اس دنیا سے چل دیا۔اس کی زندگی کو لاحق روگ کی وجہ سے کچھ اس راہ پر چل نکلی تھی ۔لیکن کم سے کم اسے اس بات کا احساس اور خوشی تو تھی کہ اس کے گھر والے اس کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ (غیر مطبوعہ)٭٭٭ طبع زاد
ایم مبین۳۰۳
،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ۳۰۲ ۴۲۱ضلع تھانہ
( مہاراشٹر)موبائل:۔ 932233
M.Mubin
303 Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI- 421 302
Dist. Thane (Maharashtra)
Mobile:-09322338918Email:- mmubin123@gmail.com
Website:- http://www.adabnama.com

Urdu Short Story Black Out By M.Mubin


(افسانہ) بلیک آوٹ از ایم مبین
۲۴ گھنٹوں سے زائد ہوگئے تھے بجلی نہیں آئی تھی اور دن بھر جو اطلا عات ملتی رہی تھیں ان سے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی اور شاید۲۴ گھنٹے بجلی نہ آئے۔۲۴ گھنٹے کس طرح گذریں گے سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتاتھا ۔ ۲۴ گھنٹے تو گذر گئے لیکن کس طرح گذرے اس کی روداد جیسے صدیوں پر محیط تھی۔شام چھ بجے جب اندھیر ادھیرے دھیرے چاروں طرف پھیلنے لگا تھا اچانک بجلی چلی گئی تو کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ کسی بھی وقت چلاجانااور کسی بھی وقت وارد ہونا بجلی کا معمول تھا۔ اس لئے بجلی کے چلے جانے پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔سب کو اطمینان تھا ایک دو گھنٹے میں آجائے گی کیونکہ لوشیڈنگ کا نام پر محکمہ دن میں سات گھنٹے بجلی بند رکھ کر اپنا کوٹا پورا کر چکا تھا۔وہ صرف یہی دعا مانگ رہی تھی کہ بجلی آٹھ بجے آجائے تو بہتر ہے آٹھ بجے پانی آتا ہے۔ ٹانکی پوری خالی ہے ۔اگر آٹھ بجے کے بعد آئی تو پانی نہیں ملے گا اور ۲۴ گھنٹے پانی کی پریشانی جھیلنی پڑے گی۔لیکن ۸ تو بجامگر جب ۱۰ بھی بج گئے تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور چہروں پر پریشانیوں نے ایک جال بننا شروع کردیا۔اب تو پانی ملنے سے رہا۔گھر میں پانی نہیں ہے ۔ اگر اس وقت بجلی آبھی گئی تو سویرے ۷ بجے جب پانی آتاہے پھر چلی جائے گی اور سویرے بھی پانی نہیں مل سکے گا۔ اس طرح بن پانی کے سارا دن کس طرح گذرے گا؟ایک سوال پریشان کرنے لگا۔راجو کے دسویں کے امتحانات چل رہے تھے ۔ وہ آٹھ بجے کے قریب ٹیوشن سے واپس آیا تھا اس کا ارادہ تھا کھانا کھانے کے بعد وہ دو تین گھنٹہ اسے لیکر بیٹھے گی اور اس کے پورشن کا ایک بار پھر اعادہ کرادے گی۔دو دنوں سے یہ معمول چل رہا تھا۔راجو ایک بار پورا پورشن ختم کرلیتا تو اس کے دل کو بھی اطمینان ہوجا اور راجو بھی خوش ہوجاتا اس سے اس کو کافی فائدہ پہونچ رہا تھا وہ اچھی طرح امتحان میں جوابات لکھ رہا تھا۔ٹیوشن میں بھی یہی ہوتا ہے لیکن اسے ٹیو شن پر اطمینان نہیں تھا۔جب تک راجو اس کے سامنے ممکنہ سوالات کے اچھی طرح جوابات نہیں دے دیتا تھا اسے اطمینان نہیں ہوتا تھا۔اس طرح سے ایک طرح سے راجو کا امتحان بھی ہو جاتاتھا کہ اس پرچے میں وہ کتنا پانی میں ہے اور کس طرح پرچہ لکھ کر کتنے مارکس حاصل کر پائے گا۔لیکن بجلی کے چلے جانے سے سب کچھ گڑ بڑاگیا تھا۔منی کرکر کررہی تھی۔’’ممی مجھے ہو م ورک کرنا ہے ! پاور کب آئے گی؟میں نے ہوم ورک نہیں کیا تو ٹیچر مارے گی۔’’پاور آجانے کے بعد ہوم ورک کرلینا ۔ اس نے منی کو سمجھایا سنتوش آٹھ بجے کے قریب آیا تو پسینے میں شرابور تھا۔’’پوئے شہر میں کہیں بھی پاور نہیں ہے ۔ ایک ساتھ پورے شہر کی پاور مشکل سے جاتی ہے ۔ لگتا ہے کوئی بہت بڑا فالٹ ہواہے۔ پاور جلدی نہیں آئے گی۔‘‘سنتوش کی بات پر اس نے کلیجہ تھام لیاتھا۔’ایسا مت کہو۔۔ راجو کے امتحانات ہے ۔ گھر میں پانی کا ایک قطرہ نہیں ہے ۔گرمی کا موسم ہے۔ سخت گرمی پڑرہی ہے۔مچھروں کی بہتات ہے ۔ اگر پاور رات بھر نہیں آئی تو ہم کس طرح رہ پائیں گے۔؟‘‘’میں سچ کہہ رہا ہوں یا جھوٹ معلوم ہوجائے گا ۔‘‘سنتوش مسکراکر بولا۔راجو اور سنتوش کے آنے کے بعد اس نے طے کیا بنا پاور کے آنے کی راہ دیکھے رات کے کھانے سے فارغ ہوجانا چاہیے۔اس نے سب کو حکم دیا ۔ہاتھ منہ دھوکر کچن میں آئیں ۔رات کا کھانا کھا لیتے ہیں ۔بتی کی روشنی میں انھوں نے کھانا کھایا۔بچے ڈرائنگ روم میں باپ کے ساتھ باتوں میں لگ گئے وہ جھوٹے برتن دھونے لگی۔ان سے فارغ ہوئی تو ساڑھے نو بج گئے تھے۔’’ممی پاور کب آئے گی؟مجھے ہوم ورک کر نا ہے۔اسے ڈرائینگ روم میں آتے دیکھ کرمنی پھر سے کہہ اٹھی۔’’پاور آجائے تو ہوم ورک کر لینا ورنہ چپ چاپ سوجا نا میں سویرے جلدی اٹھا دوں گی۔جلدی اٹھ کر ہوم ورک کر لینا اور اسکول چلی جانا‘‘ا سنے منی کو سمجھایا تو اس کی سمجھ میں آگیا۔’آج ورلڈ کپ کا بہت اہم میچ تھا۔پاور نہیں اآئے گا تو میچ کس طرح دیکھ سکوں گا۔ ’’سنتوش بڑ بڑایا۔‘‘تمہیں تو صرف کرکٹ کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے ۔ وہ سنتوش پر بھڑک اٹھی‘اس بات کا بھی ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ بچے کے دسویں کے امتحانات چل رہے ہیں۔۔‘‘’کوئی بات نہیں کم سے کم اسکور تو معلوم کر لیتا ہوں۔‘کہتے ور اپنے ایک دوسرے شہر کے دوست کو موبائل لگانے لگا۔’اجے۔یار ہمارے شہر میںبجلی نہیں ہے ۔اسکو ر کیا ہوا بتاؤگے؟‘‘ممی!آج ریوزن نہیں کرنا ہے ؟راجو نے اسے ٹوکا۔’’کرنا ہے۔‘‘’’لیکن موم بتی میں۔’اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔اس نے کہا تو راجو بادل ناخواستہ موم بتی کی روشنی میںپڑھنے بیٹھ گیا۔لیکن وہ آدھے سے بھی کم پورشن مکمل کر سکے ۔’ممی!موم بتی کی روشنی میں پڑھا نہیں جارہا ہے۔آنکھیں درد کر رہی ہیں ۔’’وہ کیا کر سکتی تھی۔بے بسی سے راجو کو دیکھنے لگی پھر بولی۔‘‘’جاؤ سو جاؤ۔بجلی آئے گی تو میں جگادوں گی ۔ اور ہم پورشن مکمل کرلیں گے۔’’دن بھر کے تھکے ماندے راجو کو شاید اسی بات کا انتظار تھا۔‘‘فوراً بستر کی طرف دوڑا۔تھوڑی دیر بعد راجو اور منی گہری نیند میں کھو گئے۔ایک دو بار وہ جاکر بلڈنگ کی ٹیرس سے شہر کا نظارہ کر آئی۔یوں تو ان کے فلیٹ سے بھی سڑک کا نظارہ صاف دکھائی دیتا تھا۔لیکن ٹیرس سے شہر کا ایک بڑا حصہ دیکھا جا سکتا تھا۔سارا شہر اندھرے میں ڈوبا تھا۔مکمل بلیک آؤٹ۔جن گھروں اور دکانوں میں انور ٹریا جنریٹر کا انتظام تھا۔ ان سے روشنی پھوٹ کر تاریکی کے کچھ حصے کے راج کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ پورے شہر کی بجلی ایک ساتھ چلی جائے۔ایک آدھ حصے کی بجلی جاتی تھی تو باقی حصہ روشن رہتا تھا بلڈنگ کی ٹیرس سے صاف دکھائی دیتا تھا کس شہر کے کن حصے میں بجلی ہے اور کس حصے میں نہیں۔لیکن مکمل بلیک آؤٹ کے حالات بہت کم پیدا ہوتے تھے۔اس نے اپنے ماں باپ سے سنا تھا کہ جنگ کے زمانے میں کس طرح بلیک آؤٹ کیا جاتا تھا۔شہرکی سڑکوں کی تمام بتیاں گل کر دی جاتی تھیں ۔شہر والوں کو ہدایت دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں کی کھڑکیا ں اور دروازے بند رکھیں۔روشنی کی ایک کرن بھی باہر نہ آنے پائے ۔ بلیک آؤٹ کی وجہ سے سارا شہر تاریکی میں ڈوب کر اس کا ایک حصہ بن جائے۔تاکہ دشمن کے ہوائی جہاز اگر حملہ کرنے کے لئے آئے بھی تو انھیں اندازہ لگانا مشکل ہواجائے کہ شہر کہاں ہے اور وہ شہر پر حملہ نہ کر سکیں ۔لیکن یہ امن کے زمانے کا بلیک آؤٹ تھا۔نیچے آئی تو سنتوش موبائل پر اپنے دوست سے میچ کا اسکور معلوم کر رہا تھا۔’اب چپ چاپ سوجاؤ ۔اسکور معلوم کرکے پیسے برباد مت کرو۔صبح نتیجہ معلوم ہوجائے گا ۔وہ جھنجھلا کربولی۔‘اس اندھیرے اور گرمی میں نیند کہاں سے آئے گی۔’جب بچے سوگئے تو تمھیں کیوں نیند نہیں آئے گی؟‘‘اس کے زور دینے پر سنتوش پلنگ پر لیٹ گیا تھا لیکن گرمی کی وجہ سے کافی دیر تک سو نہیں سکا تھا۔اسے بھی بہت دیر تک نیند نہیں آئی پھر پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی ۔آنکھ کھلی تو صبح ہو گئی تھی اور ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔اس نے بچوں کو جگایا۔بجلی نہیں آئی تھی ۔اس کا مطلب تھا رات بھر پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا رہا۔اسنے منی کو ہوم ورک کرنے بٹھادیا ۔اورراجو کو اعادہ کرنے۔سنتوش سوتارہا۔وہ بچوں اور سنتوش کے لئے ناشتہ تیا ر کرکے اس نے اسے اسکول بھیج دیا۔راجو کا ریویزن مکمل ہوگیا تو اس نے امتحان گا ہ میں جاکر وہاں پر مطالعہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اسنے اسے بھی ناشتہ کراکے رخصت کر دیا۔تھوڑی دیر بعد سنتوش بھی جاگ گیا تھا۔ وہ بھی تیار ہوگیا اور ناشتہ کرکے ٹفن لیکر آفس چلا گیا۔وہ گھر میں اکیلی رہ گئی تھی سینکڑوں مسائل کا سامنا کرنے کے لئے۔گھر میں پانی کی ایک بوند نہیں تھی۔سامنے جھوٹے برتنوںکا ڈھیر تھا۔اور کپڑوں کابھی۔گھر کی صفائی باقی تھی ۔کپڑے تو خیر دوسرے دن پر بھی اٹھا کر رکھے جاسکتے تھے ۔لیکن جھوٹے برتن کپڑے ایک دو گھنٹے میں ان سے بدبو آنے لگی گی لیکن ان کو دھونے کے لئے پانی کہاں سے آئے؟پتہ چلا کہ نیچے بلڈنگ کی ٹانکی کھولی گئی ہے۔ ضرورت مند اس سے پانی لے رہے ہیں ۔چار منزل اتر کر بلڈنگ کی ٹانکی سے پانی لانے کے تصور سے ہی اس کی جان فنا ہونے لگتی تھی۔لیکن مجبوری ایسی تھی کہ پانی لانا بہت ضرورت تھا۔مجبوراًوہ ایک ہنڈا لیکر چار منزلہ سیڑھیوںسے نیچے اتری۔لیکن دو ہنڈوںسے زیادہ پانی نہیں بھر سکی۔۱۵،۲۰ لیٹر پانی کا ہنڈالیکرچار منزلہ عمارت کی سیڑھیاں طے کرنا ۔دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔سانسیں دھونکنی کی طرح چلنے لگتیں اور جسم پسینہ پسینہ ہو جاتا تھا۔اس نے جو پانی تھا اسی پر قناعت کر نا ضروری سمجھا۔کم سے کم پینے کے لے پانی تو مل گیا۔بڑی کفایت شعاری سے ضروری جھوٹے برتن دھوئے۔فریج بند تھا اس میں بہت سا سامان تھا ۔سبزیاں ،گوشت،مچھلی،بچاہو اپکا ہو اکھانا۔وہ ہفتے بھر کے لئے ضروری سبزیاں ،مچھلی گوشت لاکر فریج میں رکھ دیتی تھی تاکہ بار بار مارکیٹ نہ جانا پڑے۔لیکن فریج بند ہو جانے کی وجہ سے انکی حالت دیکھ کر پسینے چھوٹنے لگے تھے۔اگر پاور نہیں آئی تو ساری سبزیاں ،مچھلی گوشت خراب ہوجائیں گے۔اتنے پیسے حرام میں جائیں گے۔دوپہر تک یہ آس تھی کہ پاور آجائیگی تو ان مسائل سے بجات مل جائے گی لیکن دوپہر کے وقت ایک ایسی خبر آئی جس کو سن کر سارا شہر دہل گیا۔پتہ چلا کہ شہر کو بجلی سپلائی کرنے والے پاوراسٹیشن میں سر کٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی ہے جس کی وجہ سے سب اسٹیشن کا بہت نقصان ہوا ہے۔اور ممکن ہے کہ کئی دنوں تک شہر کو بجلی کی سپلائی بحال نہ ہو سکے۔اس خبر سے شہر کی عورتیں فکر مند ہو گئیں۔بلڈنگ کی عورتیں کچھ زیادہ ہی پریشان تھیں ۔’بجلی نہیں آئے گی تو پانی کس طرح ملے گا؟پانی نہیں ملے گا تو سارے کام کاج کس طرح چلیں گے؟‘‘’’بچوںکے امتحانات ہیں ۔بجلی نہیں ہوگی تو وہ کس طرح اسٹیڈی کر پائیں گے؟پڑھائی نہیں ہوگی تو امتحانات میںانھیں اچھے نمبر نہیں ملے گے۔ان کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔وغیرہ وغیرہ سینکڑوں باتیں ہوتیں۔’شہر کو شنگھائی بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔بجلی کی سپلائی بحال کر نے کے انتظامات نہیں ہیں شہر شنگھائی کہاں سے بن پائے گا۔دوپہر میں راجو امتحان دیکر لوٹا تو کچھ اداس تھا۔’’کیا بات ہے راجو پرچہ تو ٹھیک گیا نا؟‘‘اس نے راجو کی صورت دیکھ کر اپنا دل تھا م لیا تھا۔’’مشکل گیا ہے ممی!اسٹیڈی نہیں ہوسکی نا۔‘‘راجو نے سر جھکا کر جواب دیااس کی آنکھوںکے سامنے اندھیرا چھانے لگا اسے لگا جیسے اس کی سال بھر کی محنت پانی میں گئی ۔راجو کا کیریئرتباہی کے دہانے پر ہے۔آج بھی بجلی نہیں رہے گی۔ممکن ہے کل بھی نہ رہے۔۔اس طرح راجو کے اور دو پرچے خراب جاسکتے ہیں۔اس کے بعد اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔؟موبائل کی بیٹریاں بھی ڈاؤن ہوگئی تھیں ۔انھیں چارج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ریلائنس اور ٹا ٹا کے نیٹ ورک نے کام کر نا بند کر دیا تھا۔کیونکہ ان کے نیٹ ورلس میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بیٹریاں ڈاؤن ہو چکی تھیں۔موبائل کا رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔سڑکوں پر بھیڑ نظر آنے لگی تھی۔اس بھیڑ میں زیادہ تعداد ان مزدوروں کی تھی جو کا خانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ فیکٹریاں اور کار خانے بند تھے وہ بیکار تھے ۔وقت گذارنے کے لئے وہ سڑکوں پر آوارہ گردی کرکے وقت گذار رہے تھے۔شام ہوتے ہوتے پھر ایک سیاہ ،گھنا تاریک اندھیرا چاروں طرف پھیل کر شہر کو اپنی شیطانی گرفت میں لینے کی کوشس کر نے لگا۔رات ہوتے ہوتے شہر تاریکی کی اندھیری گپھا میں کھو گیا۔کل تو بھی سڑکوں پر کچھ روشنیاںچھن کر آرہی تھیں ۔لیکن انور ٹر کی بیٹریاں ڈاؤن ہوجانے کی وجہ اب وہاں پر بھی تاریکی پھیلی ہوئی تھی جن دوکانوں میں جنریٹر تھے صرف وہاں ہلکی ہلکی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔جو اس جگہ کو منور کر رہی تھی۔باقی ایک مکمل بلیک آؤٹ سارے شہر کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔کب بجلی آئے گی کسی کو پتہ نہیں تھا۔کوئی اڑتی اڑتی خبر بھی اس بارے میں نہیں آتی تھی نہ کوئی افواہ پھیلتی تھی ۔صرف کبھی کبھی خبر آجاتی تھی کہ سب اسٹیشن میں رپیرنگ کا کام چل رہا ہے۔مرمت کا کام کتنا ہو اہے ۔کتنا باقی ہے کام کب ختم ہوگا اس سلسلے میں کوئی خبر نہیں تھی۔اس دن راجو چھ بجے ہی ٹیوشن سے واپس آگیا۔’’یوں راجو اتنی جلدی ٹیوشن سے کیوں آگئے۔’ٹیوشن کلاس میں بیٹری ڈاؤن ہوگئی ہے کوئی دوسرا انتظام نہیں ہے اس لئے سر نے چھٹی دے دی ہے اور کہا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اسٹیڈی کریں۔؟لیکن گھر تو اندھیرے میںڈوبے تھے۔موم بتی کی روشنی میں کہاں سے پڑھائی ہو سکتی تھی ۔؟۸۔ ۱۰ بجے تک باہر بھٹکنے والا سنتوش بھی چھ بجے گھر آگیا تھا۔’کیوں !کیا با ت ہے۔آج جلدی گھر واپس آگئے‘‘ اس نے اسکا مذاق اڑانے والے انداز میں پوچھاتھا۔’سارا شہر تاریکی میں ڈوباہے چاروں طرف اندھیرے کا راج ہے ۔سڑک پر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتاہے صرف سواریوں کی ہیڈ لائٹ سے جو روشنیاں ہوجاتی تھیں انہی کی روشنی میں لوگ آجارہے ہیں۔تو پھر بھلامیں اور میرے دوست اندھیرے میں کہا بھٹکے؟سب نے فیصلہ کیا چپ چاپ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اسی میں ہماری بھلائی ہے۔۔‘‘اس رات انھوں نے سات بجے ہی کھانا کھالیا۔کیونکہ دیر کر نے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔اندھیرا بڑھتا ہی جارہا تھا۔کھانا کھانے کے بعد موم بتی کی روشنی میں باتیں کر تے بیٹھے رہے۔راجو بے چین تھا۔’’ممی !مجھے بہت اسٹیڈی کرنی ہے۔‘‘’موم بتی کی روشنی میں پڑھائی کر پاؤ گے؟’نہیں ممی! پاور کب آئے گی؟’’یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا۔‘‘گرمی اس کمرے میں بھر نے لگی۔ مچھر کانوں کے پاس گنگنانے لگے۔اور بدن میں اپنے ڈنک چبھونے لگے۔جسم سے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔جیسے جیسے رات گذر رہی تھی اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔بلیک آؤٹایک گہرا مکمل بلیک آؤٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شدہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭٭پتہ:۔ایم مبین۳۰۳،کلاسک پلازہ،تین بتیبھیونڈی ۳۰۲ ۴۲۱ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)موبائل:۔ 9322338918


About this blog

Followers