Urdu Short Stories By M.Mubin Part Five


 

افسانہ

نقب

از:۔ ایم مبین

مضبوط بنیاد کےبنا اونچی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔
جس عمارت کی بنیاد جتنی زیادہ مضبوط ہوگی اس کی اونچائی اتنی زیادہ ممکن ہے۔ سلیب کےلئےلوہےکی سلاخیں بہت ضروری ہیں ۔
اچھےعمدہ مال کا استعمال ایک اینٹ کی دیوار کو بھی پختگی دےدیتا ہے۔ کالم کی مضبوطی پر عمارت کی مضبوطی منحصر ہوتی ہے۔
دلدلی علاقوں میں تعمیر ہونےوالی عمارتوں کی بنیادیں کافی گہری ہونی چاہیئے۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےفن تعمیرات کےیہ سارےاصول آپ میں خلط ملط ہو کر نئےضابطےمرتب کررہےہیں ۔
کمزور بنیادوں پر بھی اونچی عمارتیں تعمیر کی جاسکتی ہیں ۔
ضروری نہیں کہ عمارت کی تعمیر میں عمدہ سامان استعمال کیا جائے۔ عمارت تعمیر کرنےسےمطلب ہو تو اس عمارت کی حفاظت کی ذمہ داری عمارت کےمکینوں پر عائد ہوتی ہے۔
وہ سر پکڑےبیٹھا اپنےسامنےپھیلےکاغذ کو گھور رہا تھا ۔ جس پر اس نےایک نئی عمارت کا نقشہ بنایا تھا ۔
نقشہ بڑا خوبصورت تھا ۔ نیچےکےحصےمیں دکانیں تھیں ۔ ٠٢ ، ٥٢ دوکانیں ۔ شہر کےجس حصےمیں وہ عمارت بنائی جانےوالی تھی اس حصےمیں جو دکانوں کی قیمت رائج تھی اس کےحساب سےایک ایک دوکان چار چار ، پانچ پانچ لاکھ سےکم میں فروخت نہیں ہوگی ۔
ان دوکانوں کےاوپر تین منزلوں پر رہائشی فلیٹوں کی تعمیر کا منصوبہ تھا ۔ ان فلیٹوں کی قیمتیں بھی دو سےتین لاکھ تک آسانی سےجائےگی ۔
دوکانیں تو بڑےبڑےبزنس مین خرید لیں گے۔ ان میں بہت سےایسےتاجر شامل ہوں گےجن کی شہر کےمختلف حصوں میں اور بھی دکانیں ہوں گی ۔
ان لوگوں کےلئےاس علاقےمیں نئی دوکان شروع کرنےکےلئےچار پانچ لاکھ روپوں کی سرمایہ کاری کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا ۔
کچھ ایسےہوں گےجو پہلی بار کوئی دھندہ شروع کررہےہوں گےاور ان دوکانوں کی خرید کےلئےانہوں نےاپنی زندگی کی ساری کمائی اور بچت صرف کی ہوگی ۔ کچھ لوگ ایسےہوں گےجنہوں نےکئی جگہوں سےقرض لےکر ان دوکانوں کی قیمت ادا کی ہوگی ۔
ان دوکانوں کےاوپر جو فلیٹ بنائےجائیں گےان کو خریدنےاور ان کےمکینوں کی بھی اپنی الگ الگ کہانیاں ہوں گی ۔
کچھ لوگ انہیں صرف ایکجوئےکےطور پر خریدیں گے۔ جس قیمت پر آج وہ فلیٹ خرید رہےہیں اگر کل اس سےزیادہ قیمت آئےگی تو فروخت کر کےنفع کمائیں گے۔
کچھ لوگ دور دراز کےعلاقوں سےاپنی گندی تنگ سی کھولیاں فروخت کرکےاس جگہ آبسیں گے۔ ان فلیٹوں میں کچھ نوکری پیشہ افراد بھی آبسیں گےجو اپنی ساری زندگی کی بچت اور اونچی سود کی دروں پر قرض لےکر ان کمروں کی قیمت ادا کریں گےاور پھر اس میں آکر آباد ہونےکےبعد آدھی زندگی تک پیٹ کاٹ کاٹ کر اس قرض کی قسطیں اور سود ادا کریں گے۔
اگر اس عمارت کےتعمیر ہونےکےبعد اسےبھی کسی قانونی پیچیدگی کا سہارا لےکر مسمار کردیا گیا تو ؟ یا زیر تعمیر عمارت کسی تضاد کا شکار ہوکر ادھوری رہ گئی تو؟ اسےلگا پھر ایک بار اس عمارت میں دوکانیں اور فلیٹ لینےوالےآکر اس کےسامنےکھڑےہوجائیں گے۔
روِش بھائی ! اس عمارت کا پلان آپ کا تھا ۔ ہم نےتو صرف آپ کےپلان اور آپ کا نام ہونےکی وجہ سےاس عمارت میں مکان اور دوکانیں خریدی تھیں ۔ کیا آپ کو اس عمارت کا پلان بناتےوقت ان باتوں کا پتہ نہیں تھا ‘ کیا آپ نےدانستہ ان باتوں کو نظر انداز کیا اور ہماری زندگی کی کمائی پر ڈاکہ زنی میں نمایاں رول ادا کیا ؟ “ اس کا دل چاہا کہ اس کاغذ کو مروڑ کر پرزےپرزےکردےمگر وہ ایسا نہیں کرسکا ۔ اور کرسی سےپشت لگا کر بیٹھ گیا ۔
آج کم سےکم دس افراد اس سےمل کر گئےتھے۔ ان دسوں افراد کی اپنی اپنی الگ کہانی تھی۔ ان کہانیوں کو سن کی وہ دہل اٹھا تھا ۔ اس کی آنکھوں کےسامنےان کےمسکین چہرےاور کانوں میں درد بھری فریادیں گونج رہی تھیں ۔
روِش بھائی ! میرا لڑکا تین سال سےگلف میں ہے۔ وہ آئندہ سال ملک واپس آرہا ہےاس کا ارادہ دوبارہ واپس جانےکا نہیں ہے۔ اس کا ارادہ یہاں پر کوئی چھوٹی موٹی دوکان کھول کر بس جانےکا تھا ۔ اس مقصد کےلئےمیں نےبسیرا میں ایک دوکان بک کرائی تھی ۔ اب تک اس نےجتنےپیسےروانہ کئےتھےسب اس دوکان کی خرید پر لگا دئے۔ دوکان کی پوری قیمت ادا کرنےکےلئےکچھ لوگوں سےقرض بھی لیا ۔ یہ سوچ کر کہ بیٹا پیسہ روانہ کرےگا تو ان کا قرض ادا کردوں گا ۔ لیکن اب نہ تو بسیرا ہےاور نہ ہی وہ دوکان۔ میرےبیٹےکی تین سال کی محنت اور خون پسینےکی کمائی برباد ہوگئی ۔ اب اس کا کیا ہوگا ؟ چار سال بعد وہ واپس ملک آئےگا تو پہلےکی طرح قلاش اور بےکار ہوگا ۔
روِش صاحب ! میں ایک نوکری پیشہ شخص ہوں ۔ “ اس کی آنکھوں کےسامنےایک دوسرےفرد کا مسکین چہرہ ابھرا ۔ ” بسیرا میں ‘ میں نےفلیٹ بک کیا تھا ۔ گدشتہ بیس سالوں کی ملازمت کےدوران جو بچت کرپایا تھا ۔ سب اس فلیٹ کی قیمت ادا کرنےمیں لگا دی پھر بھی قیمت پوری طرح سےادا نہیں کرسکا تو ایک دو مقامی بینکوں اور کریڈٹ سوسائٹیوں سےقرض لےکر فلیٹ کی پوری قیمت ادا کردی ۔ یہ سوچ کر کہ بیس سال سےایک تنگ کھولی میں اپنےخاندان کےساتھ گزارہ کر رہا ہوں ۔ اس فلیٹ میں آنےکےبعد اس تنگ کوٹھری سےتو نجات ملےگی ۔ لیکن بسیرا مسمار کردی گئی۔ اب بھی مقدر میں وہی کوٹھری ہےاور قرضوں کا بوجھ اس کےعلاوہ ۔ ساری زندگی کی کمائی تو لٹ ہی چکی ہے۔
ہر آدمی کی اپنی ایک الگ کہانی تھی ۔
وہ ان لوگوں کی آنکھوں میں ان کی بےبسی اور ان کےخوابوں کےاجڑنےکا کرب بخوبی دیکھ سکتا تھا ۔ وہ صرف فریاد کررہےتھےاور اپنےاجڑنےکی کہانی سنا رہےتھے۔ اپنی بربادی پر آنسو بہانےکےعلاوہ شاید ان کےپاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا ۔
کوئی بھی جوش میں بھرا اس کےپاس نہیں آیا تھا ۔ برباد ہونےکےبعد دوسرےکو برباد کرنےکا عہد کرنےوالا کوئی نہیں تھا ۔ کسی کی آنکھوں میں انتقام کا شعلہ نہیں تھا ۔ صرف بےبسی اور بےچارگی تھی ۔ اور ان کی بےبسی اور بیچارگی کو دیکھ کر وہ دہل اٹھا تھا اور بار بار اسےاحساس ہورہا تھا کہ ان لوگوں کو صرف بابو بھائی نےبرباد نہیں کیا ہے۔ ان کی بربادی میں اس کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ کچھ لوگوں نےصرف دبی آواز میں اس پر الزام لگایا تھا ۔
روِش بھائی ! آپ شہر کےمانےہوئےآرکٹیکٹ ہیں ۔ آپ کا نام ہی معیاری کام ‘ ایمانداری کی ضمانت ہے۔ بسیرا کا نقشہ آپ نےبنایا تھا ۔ اس کی تعمیر میں آپ کا پلان ‘ آپ کےمشورےاور آپ کی رہنمائی شامل تھی۔ ظاہر سی بات ہےپلان بناتےوقت آپ نےاس عمارت کی تعمیر کےتمام قانونی پہلوو

¿

۔ اس عمارت کی تعمیر میں اب کوئی بھی غیر قانونی پہلو شامل نہیں ہوگا ۔ جس کی وجہ سےہم کسی مشکل میں پھنس جائیں ۔ آپ کےنام نےہمیں اس بات کی ضمانت دی تھی لیکن افسوس ہم دھوکہ کھا گئے۔ آپ نےثابت کردیا ۔ پیسہ کےلئےآپ کچھ بھی کرسکتےہیں ۔ آپ کو ان باتوں سےکوئی لینا دینا نہیں ہےکہ آپ جس عمارت کی تعمیر کےلئےنقشہ بنا رہےہیں ‘ جس عمارت کی تعمیر میں رہنمائی کررہےہیں وہ قانونی ہےیا غیر قانونی ۔ آپ کو اپنےمعاوضےسےمطلب ۔ بن جانےکےبعد وہ غیر قانونی ثابت ہو کر ڈھا دی گئی تو آپ کو اس سےکیا لینا دینا ہے۔ آپ کو تو اپنا معاوضہ مل چکا ہے۔ اس عمارت کےڈھائےجانےکےساتھ کتنی زندگیوں سےکھلواڑ کیا گیا ہےاس سےآپ کو کیا لینا دینا ہے۔ بےوقوف تو وہ لوگ ہیں جو آپ کےنام کو معتبر سمجھ کر اعتبار کرتےہیں اور دھوکہ فریب کھا کر اپنی ساری زندگی کی کمائی لٹا دیتےہیں ۔
ان لوگوں کی بات بالکل سچ تھی ۔ اس عمارت کا نقشہ بناتےوقت اور اس کی تعمیر کےدوران رہنمائی کرتےوقت اس عمارت کےقانونی یا غیر قانونی ہونےکےبارےمیں اس نےبالکل غور نہیں کیا تھا ۔ صرف ایک نقطہ پر وہ ایک بار اڑا تھا ۔
بابو بھائی ٠٠٠١ میٹر کےپلاٹ پر ٠٠٨ میٹر کی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا ۔ یہ ناممکن ہے۔ ایک ہزار مربع میٹر زمین پر آٹھ سو مربع میٹر زمین کا پلان پاس ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اتنےکم ایف ۔ ایس ۔ آئی پر عمارت کی تعمیر کی منظوری مل ہی نہیں سکتی ۔
انجنیئر صاحب ! آپ کا کام نقشہ بنانا ہےاور ضرورت پڑےتو عمارت کی تعمیر کےدوران رہنمائی کرنا ہے۔ پلان کس طرح پاس ہوگا اور کون پاس کرےگا یہ دیکھنا ہمارا کام ہے۔ آپ کو جس طرح کا پلان بنانےکےلئےکہا جارہا ہےاسی طرح کا پلان بنائیےاور اپنا معاوضہ لیجئے۔
بابو بھائی نےاسےاپنےروایتی اکھڑ لہجےمیں کہا تھا ۔ اسےنہ تو بابو بھائی کی بات پسند آئی تھی نہ لہجہ لیکن اس بار بھی اس کا وہ دوست آڑےآیا تھا جو بابو بھائی کو اس کےپاس لایا تھا ۔
روِش ! تم ان باتوں کےپیچھےکیوں اپنا وقت ضائع کر رہےہو ۔ بابو بھائی کہہ تو رہےہیں۔ وہ خود میونسپلٹی سےاس پلان کو منظور کرالیں گےتمہیں پلان منظور کروانےکےلئےدوڑنا نہیں پڑےگا کہ اگر غلط پلان بن جائےتو پلان منظور نہیں ہوگا بار بار اس میں تبدیلی کرنی پڑےگی ۔
ٹھیک ہے! آپ لوگ چاہتےہیں تو میں آپ کی بتائی جگہ میں پلان بنادوں گا“ بابو بھائی کو وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ ایک زمانےمیں وہ شہر کا مشہور غنڈہ اور بدمعاش تھا ۔ بعد میں وہ سیاست میں پڑ کر مقامی میونسپلٹی کا کونسلر بن گیا اور پھر سفید پوش بن کر بلڈر بن گیا ۔ وہ بسیرا کےنام سےایک عمارت بنانا چاہتا تھا جس میں دوکانیں اور مکان ہوں گے۔ اس عمارت کےپلان کےلئےوہ اس کےدوست کی معرفت اس کےپاس آیا تھا ۔
اگر بابو بھائی اکیلا آتا تو شاید وہ بابو بھائی کےرویّےاور اس قانونی نقطہ کی بنیاد پر کام کرنےسےانکار کردیتا ۔ لیکن اپنےاس دوست کی دوستی کا لحاظ رکھتےہوئےجس کی معرفت بابو بھائی اس کےپاس آیا تھا ‘ اس نےوہ کام کرنا منظور کرلیا تھا ۔
اسےپتہ تھا بابو بھائی یا کوئی بھی جس طرح کا پلان منظور کرانےکےلئےمیونسپلٹی میں جائےگا تو دنیا کی کوئی بھی میونسپلٹی اس پلان کو منظور نہیں کرسکتی ہے۔
اسےپلان بنانےکا معاوضہ تو مل ہی جائےگا پھر پلان منظور ہو یا نہ ہو اسےاس بات سےکیا لینا دینا ہے۔
زیادہ سےزیادہ اسےصرف ایک کام نہیں ملےگا وہ کام عمارت کی تعمیر کےلئےرہنمائی کرنےکا ۔ اگر وہ کام اسےنہ بھی ملےتو اس کی صحت پر کوئی اثر پڑنےوالا نہیں تھا ۔ ویسےبھی اس کےپاس اتنا کام تھا کہ وہ اور کام لےکر ذہن کا سکون اور چین کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئےاس نےبابو بائی کےکہنےکےمطابق بسیرا کا پلان بنا کر اس کےحوالےکردیا۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسےپتہ چلا کہ بسیرا کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا اور تعمیر کا کام شروع ہوگیا اور بابو بھائی نےاس تعمیر میں رہنمائی کےلئےاسےہی پسند کیا ہے۔ وہ پلان کس طرح منظور ہوا ؟ اسےاس بات پر حیرت ہورہی تھی ۔ اس نےمیونسپلٹی سےمنظور شدہ پلان کی ایک کاپی بابو بھائی سےمانگی تو بابو بھائی نےاس سےصاف کہہ دیا ۔
روِش بھائی ! تم کو اس بات سےکیا لینا دینا ‘ تم تعمیر کےلئےرہنمائی کرو ۔ “ ویسےبھی وہ بابو بھائی سےالجھنا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ بابو بھائی کو اچھی طرح جانتا تھا اور اس کےدوست نےبھی اسےسمجھایا کہ وہ بابو بھائی سےکبھی نہ الجھے‘ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ خاص طور پر اپنےساتھ الجھنےوالوں کو کبھی نہیں بخشتا ہے۔ اس لئےاس نےبابو بھائی سےالجھنا چھوڑ کر اپنا کام شروع کردیا ۔
وہ روزانہ جس جگہ بسیرا تعمیر ہورہا تھا وہاں جا کر معماروں کو مختلف ہدایتیں دیتا ۔ کبھی اس کی ہدایتوں پر عمل کیا جاتا تو کبھی اس کی ہدایتوں کو نظر انداز کرکےاپنی مرضی سےکام کیا جاتا ۔ وہ جب بھی اس طرح کا کوئی کام دیکھتا اپنا سر جھٹک دیتا اور یہ سوچتا ۔
اگر عمارت میں کوئی خامی رہ گئی تو اسےمیونسپلٹی کا انجنیئر پاس ہی نہیں کرےگا ۔ میں اس وقت بابو بھائی کو بتا و

¿مانی تھی ۔
بابو بھائی نےقریب ہی بابو کنسٹرکشن کےنام سےایک آفس کھول لیا تھا ۔ اس آفس میں بسیرا میں دوکانیں اور مکانات خریدنےوالوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ کام تیزی سےہورہا تھا اور بابو بھائی تیزی سےدوکانوں اور مکانوں کا پیسہ بھی وصول کررہا تھا ۔ اگر کسی کی قسط دو تین دن بھی لیٹ ہوجاتی تو وہ اسےاس دوکان یا مکان سےبےدخل کردینےکی دھمکی دیتا ۔ اس سےڈر کر بعد میں وہ آدمی اور دوسرےلوگ وقت پر قسطیں ادا کرتے۔
بسیرا کی تعمیر کچھ مقاموں پر بہت اچھی اس کی ہدایت کےمطابق ہورہی تھی تو اور جگہوں پر نہیں اس کی وجہ سےاسےیقین ہوگیا تھا کہ عمارت پختہ نہیں بنےگی ۔ جہاں خرچ زیادہ ہونےکا اندیشہ تھا وہاں خراب کام کرکےخرچ بچایا جا رہا تھا ۔
جہاں کم خرچ میں اچھا کام ہوسکتا تھا وہاں اچھا کام کیا جارہا تھا ۔ عمارت کےجو فلیٹ اور دوکانیں تعمیر ہوگئیں تھیں ان کی پوری قیمت وصول کرکےبابو بھائی نےفراخدلی کا ثبوت دیتےہوئےوہ دوکانیں اور مکان ان کےمالکوں کےحوالےکردئےتھے۔ یہ کہتےہوئےکہ وہ لوگوں کا نقصان نہیں چاہتا ہے۔ کام تو چلتا رہےگا ۔ ضرورت مند یہاں آکر رہ سکتےہیں یا اپنا بزنس شروع کرسکتےہیں ۔ اس وجہ سےبہت سےلوگ آکر وہاں رہنےبھی لگےتھے۔ او رکئی لوگوں نےاپنی دوکانیں بھی شروع کردی تھیں ۔
جس شخص کی زمین پر بسیرا تعمیر ہوئی تھی بابو بھائی نےنہ تو اس شخص سےوہ زمین خریدی تھی نہ اس سےاس زمین پر عمارت بنانےکےلئےکوئی معاہدہ کیا تھا ۔ بابو بھائی نےجو معاہدےکی نقل لوگوں کو بتائی تھی جس کی رو سےاس نےاس زمین پر تعمیر کا کام شروع کیا سراسر جھوٹا تھا ۔ اس کا بنایا پلان نہ تومیونسپلٹی میں داخل کیا گیا تھا نہ اس پلان کی منظوری لی گئی تھی ۔ نہ عمارت کی تعمیر کےلئےمیونسپلٹی سےقانونی طور پر منظوری لی گئی تھی ۔ اپنےرسوخ اور پیسہ کی طاقت پر بابو بھائی نےمتعلقہ محکمہ کےافسران کو خرید کر اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ جب تک وہ عمارت پوری تعمیر نہیں ہوجاتی اور وہ اس عمارت کےخریداروں سےپوری قیمت وصول نہیں کرلیتا وہ آنکھ بند کئےبیٹھےرہیں گے۔ وہ بابو بھائی کی پوری رقم کی وصولی کےبعد جو چاہےوہ کاروائی کرسکتےہیں ۔
اور انہوں نےکاروائی کی ۔ عمارت کو غیر قانونی تعمیر قرار دےکر ڈھا دیا ۔ کل جہاں پر ایک بہت بڑی عمارت زیر تعمیر تھی ۔ میونسپلٹی کی کاروائی کےبعد وہ جگہ ملبےکا ڈھیر بن گئی ۔
میونسپلٹی کےغیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنےوالےدستےنےبسیرا کو منہدم ہوجانےکےبعد فرض شناسی کےلئےواہ واہی لوٹی ۔ بسیرا منہدم ہوجانےکےبعد بھی بابو بھائی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ وہ تو سارےپیسےوصول کر کرےکروڑوں کما چکا تھا ۔
برباد تو وہ لوگ ہوئےجنہوں نےبسیرا میں مکان اور دوکانیں خریدی تھیں ۔ وہ لوگ کس کےپاس فریاد لےکر جائیں کہ ان کےساتھ کتنا بڑا دھوکہ ہوا ہے‘ نقب زنی ہوئی ہےاور کس طرح دیدہ دلیری سےان کی زندگی بھر کی گاڑھےپسینےکی کمائی کو لُوٹا گیا ہے۔ انہیں لُوٹنےوالےڈاکوو

¿زمین پر اتنےدنوں تک اتنی بڑی عمارت تعمیر ہوتی رہی اور وہ چپ چاپ تماشائی بنا رہا ۔
میونسپلٹی اور میونسپلٹی کا وہ عملہ بھی شامل ہےجو ایک غیر قانونی عمارت کو تعمیر ہوتےدیکھتا رہا ۔ اور اس کےساتھ وہ بھی شامل ہے۔ جس نےایک غیر قانونی پلان بنایا اور پلان بنانےسےپہلےاس بات کی تصدیق نہیں کی کہ زمین مالک اور بلڈر کےدرمیان عمارت کی تعمیر کےلئےکوئی معاہدہ یا خرید و فروخت ہوئی یا نہیں ۔ تمام اصولوں کو مدِّنظر رکھ کر پلان نہیں بنایا ۔ ایک غیر قانونی عمارت کا پلان بنا ۔
اور اپنےنام کی وجہ سےکئی لوگوں کو دھوکہ دےکر برباد کردیا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Visal By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Urdu, Visal

افسانہ

وصال

از:۔ ایم مبین

دن بھر ایک کربناک ماحول گھر پر چھایا رہا ۔ اس کرب کو یا تو وہ محسوس کررہےتھےیا پھر یاسمین ۔ ممکن ہےجو پڑوسی ان کےکافی قریب رہےہوں وہ بھی اس کرب کو محسوس کررہےہوں لیکن وہ اس بات کا اظہار نہیں کرپارہےتھے۔
اپنےکرب کا اظہار نہ تو وہ کرپارہےتھےاور نہ یاسمین ۔ اپنےاس کرب کا اظہار اگر وہ کرتےبھی تو کس پر کرتے؟ اس کرب کا اظہار وہ صرف یاسمین پر کر سکتےتھےلیکن کیونکہ یاسمین خود اس کرب کا شکار تھی اس لئےوہ اس خوف سےاس پر اظہار نہیں کرپارہےتھےکہ کہیں ان کی بات سن کر یاسمین پھٹ نہ پڑےاور انہیں اسےسنبھالنا مشکل نہ ہوجائے۔
یاسمین خود اس کرب کا شکار تھی یاسمین کا درد کچھ ان سےزیادہ تھا یاسمین کو خود کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا ۔ وہ بھی ان کےدکھوں کو سمجھ رہی تھی اس لئےان پر اپنےدکھ کا اظہار نہیں کرپارہی تھی ۔ ان کی طرح اسےبھی ڈر تھا کہ اگر اس نےاپنےدرد کا اظہار ان پر کردیا تو ان کی برداشت کی قوت جواب دےدےگی اور وہ بےقابو ہوجائیں گے۔ اور اس کےبعد ان کو قابو میں لانا مشکل ہوجائےگا ۔ دونوں چور نظروں سےبار بار عادل کےچہرےکو دیکھتےتھے۔ کاش ایک لمحہ کےلےاس کےچہرےپر کرب ابھر آئےجس میں وہ دونوں گرفتار تھے۔
اگر ایک لمحےکےلئےبھی عادل کےچہرےپر اس کرب کا تاثر ابھرتا تو وہ سمجھتےان کی زندگی بھر کی محبت ، شفقت اور ممتا رنگ لائی ہے۔ عادل نےاپنےنام کی طرح ان کےساتھ انصاف کرتےہوئےان کی محبت شفقت ،ممتا اور اپنائیت کا اقرار کرلیا ہے۔ لیکن دن بھر میں ایک بار بھی ایک لمحہ کےلئےبھی عادل کےچہرےپر ایسا کوئی تاثر نہیں ابھرا تھا ۔ اس بات کا احساس ان کےکرب کو اور زیادہ بڑھا رہا تھا ۔ عادل کےاس رویّہ کےبعد یہ کہہ کر دل کو بہلانا پڑرہا تھا ۔
جب اپنا ہی خون سفید ہوگیا ہے۔ اس کےدل میں اتنےجتن سےاس کی پرورش کرنےوالےبوڑھےماں باپ کےلئےکوئی ہمدردی کا جذبہ نہیں ہےتو پھر لبنیٰ سےکیا شکایت کریں ۔ وہ تو پرائی ہےاس نےوہی راستہ چنا جو ہر کوئی اپنےسکھ کےلئےچنتا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہےکہ لبنیٰ کےمنتخب راستےپر چلنےکےلئےعادل تیار ہوگیا تھا ۔ لبنیٰ اپنےساتھ آئےآدمیوں کو ایک ایک چیز بتا کر اسےلےجا کر نیچےکھڑےٹرک میں رکھنےکا حکم دےرہی تھی ۔ وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی نوکر اس چیز کو اس کی دی ہوئی ہدایتوں کےمطابق اٹھا کر نیچےرکھ آتے۔ جب کوئی چیز ان کےگھر سےنکل کر نیچےکھڑےٹرک میں پہونچائی جاتی تو ان کےدل کو ایک ٹھیس لگتی ۔
چاہےپھر وہ لبنیٰ کی چیز ہو ۔ یا پھر ان کی اپنی ۔ لبنیٰ اگر ان کی کسی بھی چیز کی طرف اشارہ کرکےنوکروں کو نیچےٹرک میں رکھ آنےکےلئےکہتی بھی تو بھی وہ اس کےخلاف احتجاج نہیں کرسکتےتھے۔ عادل کےصرف ایک جملےنےان کےاحتجاج کا حق بھی چھین لیا تھا ۔
امی ، ابا ! اگر ہم آپ کی کوئی چیز بھی لےجا رہےہیں تو خدا کےلئےاس پر اعتراض کرکےکوئی تضاد نہ بڑھائیے۔ ہماری نئی نئی گرہستی ہےہمارےپاس گرہستی کےلئےضروری چیزیں نہیں ہیں اس لئےجن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہےایسی تمام چیزیں لےجا رہےہیں جب وہ چیزیں ہمارےپاس آجائیں گی یا ہم خرید لیں گےتو ہم وہ چیزیں آپ کو لوٹا دیں گے۔
بیٹے! تم اپنی اور ہماری چیزوں کی بات کررہےہو ۔ یہ گھر ‘ اس گھر کی ہر چیز تمہاری ہے۔ ہمارا کیا ہے؟ ہماری زندگی ہی کتنےدنوں کی ہے؟ ہمارےمرنےکےبعد تو یہ سب تمہارا ہی ہونےوالا ہے۔ اگر زندگی میں تمہارا ہو گیا تو کون سی بری بات ہے۔ ہمارےپاس دو وقت کی روٹی بنانےکےلئےدو برتن بھی رہ گئےتو ہمارےلئےوہی کافی ہے۔ “ انہوں نےکہا تو سہی لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو آگئےلیکن ان کےان آنسوو

¿ں کا نہ تو عادل پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی لبنیٰ پر ۔ گھر کی ایک ایک چیز جاتی رہی ۔ ہر چیز جانےکےبعد وہ یاسمین کےچہرےکا جائزہ لیتے۔ انہیں یاسمین کےچہرےپر دکھ کےبادل چھائےنظر آتےتو کبھی انہیں یاسمین کی آنکھوں میں ایک احتجاج دکھائی دیتا ۔
دیکھو وہ میری امی کا دیا گلدان لئےجارہی ہےاور وہ تسبیح میرےابا میرےلئےحج سےلائےتھے‘ وہ پاندان میری بہن میرےلئےمراد آباد سےلائی تھی ‘ وہ تو پان نہیں کھاتی ماڈرن زمانےکی لڑکی جو ہے۔ اسےپاندان کی کیا ضرورت ؟ پھر وہ پاندان کیوں لئےجارہی ہے؟ اسےپارٹیوں ، شاپنگ اور سہیلیوں کےگھر جانےسےہی فرصت نہیں ملتی کہ کبھی ایک وقت کی نماز پرھ لے۔ پھر وہ تسبیح کیوں لےجارہی ہے؟ اس کےپاس ایک سےبڑھ کر ایک قیمتی آرائش کی چیزیں ہیں پھر وہ میرا گلدان کیوں لئےجارہی ہے؟ لیکن ان کی آنکھوں میں دیکھتےہی یاسمین کو جیسےحکم مل جاتا تھا کہ وہ احتجاج نہ کرے۔ اور یاسمین چاہ کر بھی احتجاج نہیں کرپارہی تھی ۔ رات میں عادل نےاپنا فیصلہ انہیں اور یاسمین کو سنایا تھا ۔
ابا ! آپ کو معلوم تو ہو ہی گیا ہوگا میں نےاپنےلئےالگ گھر لےلیا ہے۔ لبنیٰ اور امی کی رات دن کی ناچاقی کسی دن کوئی بڑا حادثہ نہ بن جائےاس خوف سےمجھےیہ قدم اٹھانا پڑا ۔ گذشتہ دنوں کےواقعات میں ہمارےتعلقات تو کچھ کشیدہ ہوہی گئےہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ کشیدگی اور بڑھے۔ اور ہمارےدرمیان تلخیاں بڑھتی جائیں ۔ اس لئےمیں نےیہ قدم اٹھایا ہے۔ اور یہ درست ہےمجھےبھی گھر کی ذمہ داری سمجھنےدیجئےلبنیٰ پر بھی گرہستی کا بوجھ آنےدیجئے۔ ہم ایک دوسرےسےدور رہیں گےتو ہمارےدرمیان محبت قائم رہےگی ۔ جب بھی ایک دوسرےکا دل چاہےگا ہم ایک دوسرےسےملنےآجایا کریں گے۔ آپ کو میرےگھر آنےسےکوئی نہیں روکےگا امید ہےہمارےیہاں سےجانےکےبعد بھی آپ ہمیں یہاں آنےسےنہیں روکیں گے۔
تُو ہم کو چھوڑ کر جارہا ہے‘ ہم کو ؟ اپنےماں باپ کو ؟ ان ماں اپ کو جنھوں نےتجھےپیدا کیا ۔ پالا ، پوسا ، پڑھایا ، لکھایا اور اس قابل بنایا کہ دنیا میں آج تیرا ایک مقام ہے۔ ہر کوئی تیرا نام ادب سےلیتا ہےتُو آج اپنی بیوی کےلئےان ماں باپ کو چھوڑ کر جانےکی بات کررہا ہے؟
امی ! میری بات کو سمجھنےکی کوشش کیوں نہیں کرتیں ۔ میں آپ کو اپنی جان سےزیادہ چاہتا ہوں اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ میری یا لبنیٰ کی وجہ سےآپ کو کچھ ہوجائے۔ اس لئےامی ! آپ میرےجذبات کوسمجھنےکی کوشش کیجئے۔ میں نےجو قدم اٹھایا ہےکوئی غلط قدم نہیں ہے۔
ماں باپ ، اپنےگھر کو چھوڑ کر جارہا ہےاور کہہ رہا ہےکوئی غلط قدم نہیں ہی؟ یہ سب کس کےلئےکررہا ہے‘ اپنی بیوی کےلئےناں ؟ اپنی بیوی کےکہنےپر تُو آج ٥٢ سالوں کا رشتہ توڑنےکےلئےتیار ہوگیا ؟ اس بیوی کےلئےجس نےابھی تیرےساتھ ٹھیک سےچھ مہینےبھی نہیں گذارےہیں اگر تجھےماں باپ سےاتنی ہی محبت ہےجتنی محبت تو اس وقت ہم سےجتا رہا ہےتو اس محبت کا ثبوت بھی دے۔
یاسمین کی بات سن کر عادل کےچہرےپر زلزلےکےتاثرات ابھرے۔
یاسمین ! تم چپ رہو ۔ “ انہوں نےیاسمین کو چپ کرایا ۔
ٹھیک ہےبیٹے! اگر تمہیں اسی میں اپنی بھلائی محسوس ہوتی ہےتو ہم تمہاری خوشیوں کےدرمیان نہیں آئیں گے۔ “ ان کی بات سن کر عادل تو اپنےکمرےمیں چلا گیا لیکن آدھی رات تک ان کےاور یاسمین کےدرمیان حجت و تکرار چلتی رہی ۔
آپ نےاسےاتنی آسانی سےگھر چھوڑ کر چلےجانےکی اجازت دےدی ‘ آپ نےاس کا انجام سوچا ہے‘ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ سب اُس کی لگائی آگ ہےہماری موجودگی میں اُس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے۔ اسےآزادی نہیں ملتی ہے۔ وہ جو چاہتی ہےہماری وجہ سےکر نہیں پاتی ۔ جب ہم ہی نہ ہوں گےتو اسےہر طرح کی آزادی مل جائےگی ۔ وہ عادل کو برباد کرکےرکھ دےگی ۔ ایسی ایسی حرکتیں کرےگی جن کو سن کر ہمارا سر شرم سےجھک جائےگا ۔ اپنےکرتوتوں سےوہ ہمارےخاندان کےنام پر دھبہ لگا دےگی ‘ وہ عادل کو برباد کردےگی ۔
جب وہ ہمارےگھر میں نہیں رہےگی تو پھر اس کی حرکتوں سےہمیں کیا لینا دینا ؟ اور عادل کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہے۔ اسےاچھےبرےکی تمیز ہے۔ غلط باتوں پر وہ اسےروکےگا ۔
ارےوہ کیا اسےروکےگا ‘ اگر اسےاتنی ہی تمیز ہوتی تو وہ اس کےکہنےپر گھر چھوڑنےکی بات نہیں کرتا ۔
اگر وہ آج کوئی غلطی کررہا ہےتو جب اسےاپنی اس غلطی کا احساس ہوگا تو اپنی اس غلطی پر نادم بھی ہوگا ۔
اپنی غلطی پر ندامت پتہ نہیں کب اسےمحسوس ہو ؟ لیکن آج تو وہ اپنی زندگی تباہ کررہا ہے۔
ہم نےزندگی بھر اسےانگلیاں پکڑ کر چلنا سکھایا لیکن آج وہ اتنا بڑا ہوگیا ہےکہ اسےہماری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئےاس نےجو راستہ چنا ہوگا ٹھیک ہی ہوگا ۔ “ بظاہر وہ عادل کےفیصلےکو درست ثابت کرنےکی کوشش کررہےتھےلیکن عادل کےاس فیصلےنےایک بارود کا کام کرتےہوئےان کےوجود کی دھجیاں اڑا دی تھیں ۔ ان کا وہ بیٹا ان سےالگ ہورہا تھا ۔ جسےایک لمحہ کےلئےبھی وہ اپنی نظروں سےدور نہیں کرتےتھے۔ لیکن وہ کیا کرسکتےتھے؟ وہ اپنےآپ کو بڑا لاچار اور بےبس محسوس کررہےتھے۔ اگر وہ عادل کےاس فیصلےکی مخالفت کرتےتو یاسمین کو شہ مل جاتی یاسمین عادل کےالگ ہونےکےحق میں نہیں تھی ۔ اور ایک تضاد کھڑا ہوجاتا ۔
لبنیٰ اور عادل کسی بھی صورت میں ان کےساتھ رہنےکےلئےتیار نہیں ہوتےاور وہ اس کےلئےتیار نہیں ہوتےتو تضاد بڑھتا ۔ حاصل یہی ہوتا کہ فتح عادل اور لبنیٰ کی ہوتی انہیں اور یاسمین کو حزیمت اٹھانی پڑتی ۔ اور لوگوں کو ایک تماشہ دیکھنےکا موقع مل جاتا ۔ اس لئےاپنےدل پر پتھر رکھتےہوئےانہوں نےعادل کےفیصلےکو قبول کیا تھا ۔
رات نہ وہ سو سکےاور نہ ہی یاسمین سو سکی ۔ دیر رات تک عادل کےکمرےسےاس کی اور لبنیٰ کی کھسر پسر کی آوازیں آتی رہیں ۔ پلنگ پر وہ چپ چاپ چت لیٹےچھت کو تاکتےرہے۔ یاسمین دوسری طرف کروٹ لئےدیوار تاکتی رہی ۔ دونوں کےذہن میں ایک طوفان اٹھا رہا ۔ ان کی آنکھوں کےسامنےعادل کی پیدائش سےتادم تک ایک ایک لمحہ ‘ ایک ایک واقعہ کسی فلم کی طرح چکراتا رہا ۔
کتنی منتوں ، مرادوں ، مشکلوں اور مصیبتوں کےبعد عادل کی پیدائش ہوئی تھی۔ شادی کےپانچ سالوں کےبعد بھی جب ان کےگھر کوئی اولاد نہیں ہوئی تو وہ اولاد کی خوشی سےمایوس ہوگئےتھے۔ دونوں نےاپنا اپنا چیک اپ کرایا تھا ڈاکٹروں نےبتایا تھا کہ ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اولاد کےسکھ سےمحروم تھے۔ اس کو ان کی تقدیر کی کم نصیبی سمجھا جائےیا قدرت کا مذاق یا کوئی مصیبت ۔ ہزاروں علاج ، منتوں اور مرادوں کےبعد ان کےباپ بننےکی خوش خبری ملی تھی ۔ اس خبر کو سن کر ان کی حالت پاگلوں سی ہوگئی تھی ۔ یاسمین سےاس کی خوشی سنبھالےنہیں سنبھل رہی تھی ۔ ان کےقریبی رشتہ دار اور کرم فرماو

¿ں میں بھی اس خبر کو سن کر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ۔ انہوں نےسب سےپہلےیہ خبر انہیں سنائی تھی ۔ کیونکہ ان کی باتیں پانچ سالوں تک ان کےلئےیاسمین کےلئےبڑی ادیت کا باعث بنی تھیں ۔ لوگ ہزاروں طرح کی باتیں بناتےتھے۔ کبھی کہتےیاسمین میں کوئی کمی ہے، کبھی ان میں کسی کمی کا الزام لگاتے۔ کبھی کہتےوہ دونوں خود ابھی بچہ نہیں چاہ رہےہیں کچھ دن اور عیاشی کرنا چاہتےہیں ۔ کبھی انہیں مشورہ دیتےیاسمین انہیں اولاد کا سکھ نہیں دےسکتی ۔ اولاد کےلئےوہ دوسری شادی کرلیں ۔
کبھی یاسمین کو سمجھاتےان سےاسےاولاد نہیں ہوسکتی اس لئےان کےپیچھےوہ کیوں اپنی زندگی تباہ کررہی

ہے۔ ابھی سےسنبھل جائےاور ہوش سےکام لےاس کی اچھی خاصی نوکری ہےوہ خود کفیل ہے۔ چاہےتو ان سےطلاق لےکر کسی ایسےمرد سےشادی کرسکتی ہےجو اسےاولاد کا سکھ دے۔ کبھی اڑاتےکہ دونوں نوکری پیشہ ہیں ۔ گھر میں کوئی ایسا نہیں ہےجو ان کےبعد بچہ کی دیکھ ریکھ کریں اس لئےاس ذمہ داری سےگھبرا کر چاہتےہیں کہ انہیں اولاد نہ ہو ۔
جب بھی وہ کسی کی بات سنتےان کےدل کو ایک چوٹ سی لگتی ۔ یاسمین کی آنکھوں سےٹپ ٹپ آنسو گرنےلگتےاور وہ دہاڑیں مار مار کر رونےلگتی اور انہیں یاسمین کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ۔ وہ بھرّائی آواز میں کہہ اٹھتی ۔
مجھ میں ہی کوئی کمی ہے۔ میں آپ کو اولاد کا سکھ نہیں دےسکتی آپ میرےپیچھےاپنی زندگی برباد نہ کریں اور کسی دوسری لڑکی سےشادی کرلیں ۔ تاکہ وہ آپ کو اولاد کا سکھ دےسکے۔ “ یاسمین کو لاجواب کرنےکےلئےوہ یاسمین کےالفاظ اسےلوٹا دیتےتو یاسمین تڑپ اٹھتی۔
خدا کےلئےایسی باتیں منہ سےنہ نکالئے۔ میں ایک لمحہ کےلئےبھی آپ سےالگ ہونےکا تصور نہیں کرسکتی ۔ “ اتنےبرسوں سےبعد انہیں اولاد کی خوشخبری ملی تھی ۔
عادل کی ولادت بھی ایک امتحان سےکم نہیں تھی ۔ ایک آگ کا دریا تھا جسےدونوں کو پار کرنا تھا ۔ عادل کی ولادت کےبعد ایسےحالات پیدا ہوگئےکہ یاسمین کی زندگی خطرےمیں پڑ گئی ۔
آخر آپریشن کےبعد ڈاکٹروں نےیاسمین اور عادل دونوں کو بچالیا لیکن اس قیمت پر کہ یاسمین اب کبھی ماں نہیں بن پائےگی ۔
عادل کو پاکر انہوں نےخوشی خوشی یہ قیمت بھی ادا کردی ۔ عادل کو پاکر انہیں لگا جیسےانہیں دنیا کی سب سےبڑی نعمت مل گئی ۔ اس کےبعد ان کےدل میں خدا کی کسی اور نعمت کی تمنا ہی نہیں ہے۔ تین مہینوں تک یاسمین گھر میں رہی ۔ اس کےبعد عادل کو چھوڑ کر اسکول جانےکا کڑا امتحان آگیا ۔ جذبات میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ عادل کےلئےیاسمین نوکری چھوڑ دے۔ کیونکہ ان کا آفس میں دل نہیں لگتا ہے۔ عادل میں ہی دھیان لگا رہتا ہے۔ لیکن یہ طےکیا گیا کہ عادل کی بھلائی کےلئےاس کی زندگی سنوارنےکےلئےیاسمین نوکری جاری رکھےگی کیونکہ یہ طےکیا گیا تھا یاسمین کا ایک ایک پیسہ عادل کی ذات پر خرچ کرکےاسےایک نیک ، صالح ،اچھا اور کامیاب انسان بنایا جائےگا ۔ عادل کو کبھی نوکروں ، پڑوسیوں یا کبھی رشتہ داروں کےپاس چھوڑ کر دونوں ڈیوٹی پر نکل جاتے۔ آفس میں ان کا دل نہیں لگتا تھا ۔ نظریں گھڑی کی سوئیوں پر لگی رہتی تھیں ۔ جس وقت گھڑیاں وہ گھنٹہ بتاتی جب یاسمین اسکول سےگھر آجاتی تو ان کو سکون مل جاتا ۔
اب عادل صحیح ہاتھوں میں پہونچ گیا ہے۔ اب فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسےجیسےعادل بڑا ہورہا تھا اس کےلئےان کےدل میں محبت بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کی معصوم حرکتیں ، آوازیں ، باتوں سےبےاختیار اس کےلئےدل میں پیار امڈ آتا تھا اور وہ اسےلپٹا لیتےتھے۔
عادل کو معمولی چھینک بھی آجاتی تو ان کا دل تشویش میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔ عادل کےجسم کا درجہ حرارت معمولی بھی بڑھ جاتا تو ان کی ساری رات آنکھوں میں کٹ جاتی تھی ۔ عادل کو معمولی بخار بھی آجاتا تو بڑےسےبڑےڈاکٹر کا علاج کرایا جاتا ۔
بڑا ہوا تو تعلیم کی فکر ستانےلگی ۔ اسےسب سےاچھےاسکول میں داخل کیا گیا اور اس کی تعلیم پر خاص دھیان دیا جانےلگا ۔ دو گھنٹہ وہ اسےپڑھاتےتھےاور دو گھنٹےیاسمین ۔ ویسےعادل کافی ذہین تھا ۔ پھر ان کی تربیت اور تعلیم تو سونےپر سہاگہ کا کام کرنےلگی ۔ وہ ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دسویں کےامتحان میں بورڈ کےپہلےدس کامیاب طلبہ میں مقام پا گیا ۔
عادل سوِل انجینئر بننا چاہتا تھا ۔ انہوں نےبھی اس کی مرضی کےآگےاپنا سر خم کیا ۔ انہوں نےعادل کےبارےمیں بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن وہ عادل کی مرضی کےخلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتےتھےعادل کی دلچسپی کا ہی کام کرنا چاہتےتھےاچھےنمبروں کی وجہ سےاسےآسانی سےایک اچھےکالج میں داخلہ مل گیا ۔ پڑھائی میں وہ تیز تھا اپنےمضمون میں بہت زیادہ محنت کرنےلگا ۔
زیر تعلیم رہتےہوئےبھی وہ ایک سوِل انجینئر کےپاس جانےلگا اور وہ کام کرنےلگا جسےاسےامتحان پاس کرنےکےبعد کرنا تھا ۔ دو تین سالوں میں ہی وہ اپنےمیدان کا اتنا ماہر ہوگیا کہ بڑےسےبڑےانجینئر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرپائےتھے۔ اس کےبنائےپلان ، نقشوں اور خاکوں میں کوئی بھی غلطی نہیں نکال پاتا تھا ۔ نقشے، خاکےاور پلان وہ بناتا تھا لیکن اس پر مہر کسی اور کی لگتی تھی ۔ بعد میں ان نقشوں پر بننےوالی عمارتیں بھی اسی کےزیرِ نگرانی تعمیر ہوتی تھیں ۔
ڈگری ملنےسےپہلےہی اس کا اتنا نام ہوگیا تھا اور اسےاتنا تجربہ حاصل ہوگیا تھا جسےپانےمیں اوروں کو کئی سال لگ جاتےتھے۔ امتحان میں وہ نمایاں نمبروں سےکامیاب رہا ۔ اس کےکامیاب ہوتےہی ایک بہت بڑی کنسٹرکشن فرم میں اسےنوکری مل گئی ۔ اچھی تنخواہ کےساتھ اسےگاڑی اور بنگلہ بھی ملا ۔ لیکن اس نےبنگلہ یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ میں اپنی امی اور ابا کےساتھ اس چھوٹےسےگھر میں رہ کر ان کےسارےخواب پورےکرکےان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نےمیرےلئےدیکھےہیں ۔
ایک سعادت مند بیٹےکی طرح وہ اپنی ساری تنخواہ لاکر انہیں دےدیتا تھا ۔ آفس سےآنےکےبعد بھی ان کےگھر عادل سےملنےوالوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ وہ لوگ چاہتےتھےکہ عادل آفس سےآنےکےبعد ان کا کام کرے۔ وہ ان کاکام کرتا تو اسےجتنی تنخواہ ملتی تھی اس سےزیادہ پیسہ مل جاتا تھا ۔ بہت سےلوگوں نےمشورہ دیا کہ وہ نوکری چھوڑ کر اپنا خود کا بزنس شروع کردے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔
آخر عادل نےاپنا الگ کاروبار شروع کردیا اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرنےلگا ۔ اس درمیان دونوں ریٹائر ہوگئےتھے۔ ان تمام کامیابیوں کےبعد ماں باپ کا اولاد کےلئےبس ایک ہی آخری خواب ہوتا ہے۔ اولاد کا سہرا دیکھےاور بہو کو گھر دیکھنےکا خواب ۔ یہ خواب بھی پورا ہوگیا ۔ لبنیٰ بہو بن کر ان کےگھر آگئی ۔ لبنیٰ ایک بہت امیر کبیر گھرانےکی چشم و چراغ تھی ۔ خوبصورت اتنی کہ اس کی خوبصورتی کےسارےشہر میں چرچےتھے۔ ایسی بیوی پاکر کون خوش نہیں ہوسکتا تھا ۔ لیکن کچھ دنوں میں ہی انہوں نےمحسوس کیا کہ لبنیٰ اور یاسمین کےخیالوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو باتیں لبنیٰ کو پسند تھیں وہ یاسمین کو پسند نہیں تھیں ۔ یاسمین لبنیٰ کو جس روپ میں دیکھنا چاہتی تھی وہ لبنیٰ کےلئےایک دقیانوسی روپ تھا ۔
پہلےدبےلفظوں میں بعد میں اونچی آواز میں ان مسئلوں پر دونوں میں بحث و تکرار ہوئی ۔ ایسی حالت میں وہ ثالث کا کردار نبھاتےہوئےبھی یاسمین کو دباتےتھے۔ عادل بھی تماشائی بنا رہتا ۔ کبھی لبنیٰ کی طرف داری کرتےہوئےماں کو سمجھاتا کہ وہ بڑی ہیں اسےان چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیئے۔ یا پھر کبھی ماں کی طرف داری کرتا ۔
آخر وہی ہوا جس کےتصور سےہی کبھی کبھی وہ کانپ اٹھتےتھے۔ عادل اور لبنیٰ نےالگ رہنےکا فیصلہ کرلیا ۔ اور وہ گھر چھوڑ کر جارہےتھے۔ اور گھر پر ایک کربناک سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ ان کےاندر درد کا دریا ٹھاٹھیں ماررہا تھا رات تک وہی سناٹا گھر میں برقرار رہا ۔
عادل ہمیں چھوڑ کر چلاگیا ‘ اس نےبیوی کےلئےہمیں چھوڑ دیا ‘ہماری محبتوں کا ہمیں یہ صلہ دیا ؟ آخر ہماری محبت میں ایسی کیا کمی رہ گئی تھی جو اسےباندھ کر ہمارےپاس نہیں رکھ سکتی تھی۔“ یاسمین گھر کی دیواروں کو گھورتےہوئےپاگلوں کی طرح بڑبڑا رہی تھی ۔ ” اب اس کےجانےکا غم نہ کرو اور خود کو سنبھالو ۔ “ انہوں نےاسےسمجھایا ۔ سمجھ لو خدا نےہمیں بیٹا نہیں بیٹی دی تھی ۔ بیٹی تو پرائی امانت ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن تو اسےاپنےگھر جانا ہوتا ہے۔ سمجھ لو آج ہماری بیٹی کی شادی ہوگئی ہےاور آج وہ ہم سےبچھڑ کر اپنےگھر چلی گئی ہے۔ “ ان کی اس بات کو سنتےہی یاسمین پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔
پتہ نہیں یہ کس کےوصال کےآنسو تھے۔ بیٹےکےیا بیٹی کے؟

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short story Azab Ki Ek Raat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Azab Ki Ek Raat, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

عذاب کی ایک رات

از:۔ایم مبین

بیوی کےبری طرح جھنجوڑنےپر آنکھ کھلی ۔ وہی ہوا جو عام طور پر اس طرح اچانک بیدار کئےجانےپر ہوتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ سانسیں اپنی پوری رفتار سےچلنےلگیں اور زبان پر ریت کا صحرا اور حلق میں کانٹوں کا جنگل ابھر آیا ۔
کیا ہے؟ “ بڑی مشکل سےہونٹوں سےآواز نکلی اور اپنےہونٹوں پر زبان پھیر کر زبان کو تر کرنےکی کوشش کرنےلگا ۔
باہر پولس آئی ہے۔ “ بیوی کلیجہ پکڑ کر بولی ۔
پولس ؟ “ اس کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ ” اتنی رات گئےاس علاقےمیں پولس کا کیا کام ؟
سائرن کی آواز سن کر آنکھ کھل گئی ۔پھر سناٹےمیںایسا محسوس ہوا جیسےکئی گاڑیاں آکر رکیں ۔اور پھر بھاری بھرکم بوٹوں کی آواز گلی میں گونجنےلگی ۔ “ بیوی بتانےلگی ۔ ” پھر ماحول میں وہی پولس کےروایتی سوالات گرجنےلگے۔
دروازہ کھولو ‘ کون ہو تم ‘ کہاں سےآئےہو اور کتنےدنوں سےیہاں رہ رہےہو ۔ “ ابھی بیوی کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی کہ دوبارہ گلی میں بھاری بھرکم قدموں کی آواز گونجی اور دروازہ کھٹکھٹایا جانےلگا ۔ اس کا دل دھڑک اٹھا ۔ وہ خوف زدہ نظروں سےدروازےکی طرف دیکھنےلگا۔ لیکن جب دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اندازہ ہوا ان کا نہیں پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔
دروازہ کھولو ورنہ ہم دروازہ توڑ دیں گے۔ “ ایک تیز آواز گونجی اور اس کےبعد دروازہ کھلنےاور پھر پڑوسی کی گھبرائی ہوئی آواز ۔
کیا بات ہے‘ کون ہے؟
دکھائی نہیں دیتا ‘ ہم پولس والےہیں ۔
پولس ؟ “ صدیقی صاحب گھبرائےہوئےتھے۔ ” کیا بات ہےانسپکٹر صاحب ! اتنی رات گئےآپ نےمیرےگھر آنےکی زحمت کیوں کی ؟
ہمیں تمہارےگھر کی تلاشی لینی ہے۔
تلاشی اور میرےگھر کی ‘ مگر کیوں ؟
ہمیں تمہارےگھر کی تلاشی لینی ہے۔
لیکن میرےگھر کی تلاشی کیوں لی جارہی ہے؟
صرف تمہاری ہی نہیں پورےعلاقےکےہر گھر کی تلاشی کی جارہی ہےاور ہمارےاس مشن کا نام ہےکومبنگ آپریشن ۔
لیکن ہمارےاس علاقےمیں آپ کو کومبنگ کرنےکی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟
اس لئےکہ ہمیں پتہ چلا ہےکہ اس علاقےمیں غیر قانونی کام ہوتےہیں ۔ اور یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہے۔ اس پورےعلاقےمیں بنگلہ دیشی اور آئی ۔ ایس ۔ آئی کےایجنٹ پھیلےاور چھپےہوئےہیں ۔
لیکن ہمارا ان تمام باتوں سےکوئی تعلق نہیں ہےہم نوکری پیشہ شریف لوگ ہیں ؟
شریف لوگ ہیں ‘ نوکری پیشہ لوگ ہیں اور جھونپڑپٹی میں رہتےہو ؟
شریف اور نوکری پیشہ لوگوں کا جھونپڑپٹی میں رہنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔
اے! زیادہ بک بک مت کر ہم کو اپنا کام کرنےدے۔ ہم کو قانون مت سکھا ‘ کیا؟ زیادہ ہوشیاری کی تو اٹھا کر پٹخ دوں گا سالا خود کو شریف آدمی بتاتا ہے۔ اے! اس کےگھر کی اچھی طرح سےتلاشی لو ۔ اگر کوئی بھی چیز ملےتو اسےبتانا کہ شرافت کیا ہی؟ پولس کےکاموں میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ اس کےبعد صدیقی صاحب کی آواز نہیں سنائی دی لیکن گھر کےایک ایک سامان کو الٹ پلٹ کرنے‘ گرانےاور پھینکےکی آوازیں ضرور ابھرنےلگیں ۔
صاحب ! دیکھئےکتنا بڑا چھرا ہے۔
یہ گوشت کاٹنےکا چھرا ہے۔ “ صدیقی صاحب کی آواز ابھری ۔
یہ گوشت کاٹنےکا چھرا ہےیا مرڈر کرنےکا ابھی معلوم ہوجائےگا۔ حولدار اسےہتھکڑی ڈال کر لےچلو ۔ “ انسپکٹر کی آواز ابھری ۔ ” نہیں نہیں ! “ صدیقی صاحب کی بیوی کی آواز ابھری ۔ ” میرےشوہر کو کہاں لےجارہےہو ‘ نہیں میں اپنےشوہر کو بنا کسی وجہ تمہیں اپنےگھر سےلےجانےنہیں دوں گی ۔
اےبائی ! بازو سرک ‘ ہمارےکام میں دخل دینےکی کوشش مت کر ورنہ بہت بھاری پڑےگا ۔ “ ایک گرجدار آواز ابھری ۔
انسپکٹر صاحب ! میں سچ کہتا ہوں آپ کو غلط فہمی ہورہی ہے۔ میں ایک شریف نوکری پیشہ آدمی ہوں ۔ “ صدیقی صاحب کی آواز ابھری ۔
صاب بنگالی کتابیں ۔ “ ایک آواز ابھری ۔
یہ دیکھئے! کئی بنگالی کتابیں ہیں ۔
تو یہ آدمی ضرور بنگلہ دیشی ہوگا ۔
بنگلہ دیشی میں ہندوستانی ہوں ۔
اگر ہندوستانی ہو تو پھر یہ بنگلہ زبان کی کتابیں تمہارےپاس کہاں سےآئیں؟
مجھےبنگلہ ادب سےدلچسپی ہے۔ اس لئےبنگلہ زبان کی کتابیں پڑھتا ہوں ۔
وہ سب پولس اسٹیشن میں ثابت کرنا کہ تم بنگلہ دیشی ہو یا ہندوستانی ۔ “ اس کےبعد صدیقی صاحب کو شاید دھکےدیکر کمرےسےباہر لےجایا گیا تھا ۔ ان کی بیوی کی داد فریاد کی آوازیں ‘ ڈانٹوں اور گالیوں کےشور میں دب کر رہ گئی تھیں ۔ اس کےبعد ان کی باری تھی دروازہ زور سےپیٹا جانےلگا ۔
کون ؟ “ دھڑکتےدل کو تھام کر بڑی مشکل سےوہ کہہ سکا ۔
پولس ! دروازہ کھولو ۔ ہم تمہارےگھر کی تلاشی لینا چاہتےہیں ۔ “ باہر سےایک گرجدار آواز ابھری ۔ اس نےبنا کوئی پس و پیش کےدروازہ کھول دیا ۔ سات آٹھ پولس کےسپاہی اور ایک انسپکٹر دھڑدھڑاتےہوئےکمرےمیں گھس آئےاور تیز نظروں سےکمرےکی ایک ایک چیز کا جائزہ لینےلگے۔ اس کےبعد وہ بڑی تیزی سےکمرےکےایک ایک گوشےکی طرف لپکےاور وہاں کی چیزیں اور سامان بڑی بےدردی سےنیچےاوپر کرنےاور پٹخنےلگے۔ بیوی خوف سےتھر تھر کانپتی اس کےسینےسےآلگی ۔
کیا نام ہےتمہارا ؟ “ انسپکٹر نےکڑک کر پوچھا ۔
اسرار احمد ۔
معلوم ہے۔ ایسی جگہ اسرار احمد نہیں تو کیا سچن کھیڈیکر رہےگا ۔ کیا کام کرتےہو ؟
ایک سرکاری دفتر میں نوکری کرتا ہوں ۔
سرکاری دفتر میں نوکری کرتےہو ۔ “ انسپکٹر حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔
اور یہاں رہتےہو ؟ “ ” صاب ضرور اس کا تعلق آئی ایس آئی سےہوگا ۔ یہ لوگ سرکاری دفتروں میں کام کرتےہیں اور دیش سےغداری کرتےہوئےجاسوسی کرتےہیں دیش کےراز بیچتےہیں ۔ “ ایسا محسوس ہوا جیسےجسم کی ساری طاقت دائیں ہاتھ میں جمع ہوگئی ہے۔ اور وہ ہاتھ مکّہ کی شکل میں اس حولدار کےمنہ پر پڑنےکےلئےبےتاب ہے۔ اس نےبڑی مشکل سےخود پر قابو پایا اور آگےبڑھ کر اپنی پتلون کی جیب سےاپنےدفتر کا کارڈ نکالا اور انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا ۔
اوہ ! تو منترالیہ میں ہو ؟ “ انسپکٹر نےکارڈ دیکھتےہوئےکہا ۔ ” ٹھیک ہےہم نےاپنا کام کرلیا ہے۔ اے! چلو باہر نکلو ۔ “ اس نےدوسرےسپاہیوں کو حکم دیا اور سب کمرےسےباہر نکل گئے۔ سارا گھر کباڑخانہ بن گیا تھا ۔ وہ اور بیوی بےبسی سےاپنےگھر کےبےترتیب سامان کو دیکھنےلگے پھر بیوی ایک ایک سامان کو اٹھاکر اپنی جگہ رکھنےلگی ۔ اس کےبعد ان کےپڑوس کےکمرےپر حملہ ہوا تھا ۔ اصغر نشےمیں دھت تھا ۔ بیدار کرنےپر وہ پولس سےالجھ گیا ۔ ” سالا ! تم پولس والےاپنےآپ کو کیا خدا سمجھتےہو ۔ کبھی بھی شریف لوگوں کےگھروں میں بےدھڑک گھس آتےہو ۔ ان کی میٹھی نیند خراب کرتےہو ۔ چلےجاو

¿ نہیں تو ایک ایک کو دیکھ لوں گا ۔
سالےزیادہ چربی چڑھ گئی ہےشاید ‘ ٹھہرجا ! ابھی تیری چربی اتارتےہیں ۔ “ اور اس کےبعد ڈنڈوں کےبرسنےکی آوازیں اور اصغر کی چیخیں فضا میں گونجنےلگیں ۔ ” بچاو

¿ ! بچاو

¿ ! نہیں ! نہیں ! مجھےمت مارو ۔ “ اس کی چیخوں میں اس کےگھر والوں ، بیوی اور بچوں کی چیخیں بھی شامل تھیں ۔ اس کےبعد اصغر کو کھینچتےہوئےباہر لےجایا گیا تھا ۔ اس عذاب کا سلسلہ چال کےدوسرےکمروں پر بھی طاری رہا ۔
یا خدا ! ہم لوگوں کا یہ حال ہےتو بستی کےدوسرےلوگوں کا کیا حال ہوگا ۔ “ بڑبڑاتےہوئےاس نےسوچا ۔ وہ بستی جھونپڑ پٹی ضرور تھی لیکن اتنی بدنام نہیں تھی ۔ جتنی عام طور پر دوسری جھونپڑپٹیاں ہوتی ہیں ۔ وہاں اکا دکا جرائم ہوتےتھےاور وہاں جرائم پیشہ افراد کی تعداد بہت کم تھی ۔ اس بستی کےدرمیان میں وہ ایک چھوٹی سی چال تھی ۔ آٹھ

دس کمروں پہ مشتمل ۔پہلےوہ بستی نہیں تھی صرف وہی چال تھی ۔ جہاں اس کےجیسےنوکری پیشہ آکر بس گئےتھی۔ جو اپنی ساکھ کےمطابق شہر کےپاش علاقےمیں گھر ، مکان لینےسےقاصر تھے۔ اپنےپاس جمع معمولی سی رقم کو ڈپازٹ کےطور پر دینےکےبعد انہیں اسی چال میں کمرہ ملا تھا ۔ اس کےبعد زندگی بھر کی کمائی پیٹ کی آگ ‘ زندگی کےمسائل ‘ اولاد کی پرورش اور تعلیم کی نذر ہوگئی تھی ۔ اس چال سےباہر نکلنےکا موقع ہی نہیں مل سکا ۔ اور چال کےارد گرد مشروم کی طرح جھونپڑپٹی بڑھتی اور بستی گئی ۔ جھونپڑپٹی میں ان کی طرح اچھےشریف اور مصیبت کےمارےلوگ بھی تھے۔ جو سر چھپانےکےلئےوہاں آباد ہوئےتھےتو سر پھرے، جاہل ، اجڈ اور گنوار بھی تھی۔ ایسےلوگوں کو اس طرح کےعذاب بھی سہنےپڑتےہیں ۔
اسرار بھائی ! اسرار بھائی ! کچھ کیجئے‘ پولس انہیں زبردستی پکڑ کر لےگئی ہی۔“صدیقی صاحب کی بیوی روتی ہوئی اس کےپاس آئی ۔
آپ حوصلہ رکھئےبھابی ! کچھ نہیں ہوگا میں دیکھتا ہوں ۔ “ اس نےصدیقی صاحب کی بیوی کو تسلی دی اور پھر بیوی سےبولا ۔ ” شکیلہ ! تم اپنا خیال رکھنا میں ابھی آیا ۔
آپ کہاں جارہےہیں ؟ مجھےبہت ڈر لگ رہا ہے۔ “ بیوی بولی ۔
ڈرنےکی کوئی بات نہیں ہے۔ تم صدیقی صاحب کےگھر چلی جاو

¿ ۔ “ یہ کہہ کر باہر آیا تو شاید عذاب ختم ہوچکا تھا ۔ پولس کی گاڑیاں جاچکی تھیں ۔ چال اور آس پاس کےعلاقےکےدس بارہ لوگوں کو گرفتار کرکےپولس اسٹیشن لےجایا جاچکا تھا ۔ جو بچ گئےتھےآپس میں صلاح و مشورہ کررہےتھےکہ جن کو پولس پکڑ کر لےگئی ہےانہیں کس طرح واپس لایا جائے۔ اصغر تو شراب کےنشےمیں دھت تھا اور بلاوجہ پولس سےالجھ گیا تھا اسےتو پولس چھوڑنےسےرہی ۔ ان کےلئےاس کا نشہ میں ہونا ہی کافی تھا ۔ لیکن صدیقی صاحب کو خواہ مخواہ پولس اسٹیشن لےجایا گیا ۔ ان کی بیوی کی حالت غیر ہے۔ وہ میرےپیروں پر گر کر التجا کررہی تھی کہ صدیقی صاحب کو واپس لایا جائے۔ پڑوسی ایک جگہ جمع ہوکر باتیں کررہےتھے۔ ” ٹھیک ہے! چلو پولس اسٹیشن چل کر دیکھتےہیں اور انسپکٹر کو سمجھانےکی کوشش کرتےہیں کہ صدیقی صاحب شریف آدمی ہیں ۔ ان کا تعلق ایسےکسی آدمی سےنہیں ہے۔ جس کی تلاش میں انہوں نےیہ عذاب اس بستی پر ڈھایا تھا ۔ وہ بولا تو سب اس کےساتھ پولس اسٹیشن جانےکےلئےراضی ہوگئے۔
پولس اسٹیشن میں لوگوں کی بھیڑ تھی ۔ کچھ تو وہ لوگ تھےجو اس آپریشن کےتحت پکڑ کر لائےگئےتھے۔ کچھ ان کو چھڑانےکےلئےآئےتھے۔ پولس بڑی سختی سےپیش آرہی تھی ۔ کسی کو پولس اسٹیشن میں قدم رکھنےکی اجازت نہیں تھی ۔ ” جاو

¿ سویرےآنا ۔ سویرےتک یہ لوگ یہاں رہیں گے۔ سویرےان کےبارےمیں سوچیں گےکہ ان کا کیا کیا جائے۔ “ اس نےاپنا کارڈ بتایا تو اسےاندر جانےکی اجازت دی گئی ۔ اس نےانسپکٹر سےصدیقی صاحب کےبارےمیں بات کی ۔
انسپکٹر صاحب ! صدیقی صاحب کو میں گذشتہ دس سالوں سےجانتا ہوں ۔ ان کا تعلق جرائم پیشہ ، دہشت گرد یا ملک دشمن لوگوں سےنہیں ہے۔ وہ ایک شریف نوکری پیشہ آدمی ہیں اور ایک پرائیویٹ فرم میں اکاو

¿نٹنٹ ہیں ۔
کیا بات کرتےہو اسرار صاحب ! ان کےگھر سےہمیں چھرا اور بنگلہ کتابیں ملی ہیں ۔ مکمل تحقیقات کیبعدہی انہیں چھوڑ سکتےہیں ۔ “ انسپکٹر نےصاف کہہ دیا ۔
اسرار بھائی ! مجھےیہاں سےکسی طرح لےچلو اگر میں سویرےتک یہاں رہ گیا تو یہاں میری جان نکل جائےگی ‘ وہاں میری بیوی کی ۔ میں اپنےمالک کا فون نمبر دیتا ہوں ان سےاس سلسلےمیں بات کرلیجئے۔ “ کہتےہوئےانہوں نےایک فون نمبر دیا تو وہ اس کو لےکر باہر آیا اور ایک پبلک ٹیلی فون بوتھ سےاس نمبر پر فون لگانےکی کوشش کرنےلگا ۔
ہیلو ! “ تین چار بار کوشش کرنےپر ایک نیند میں ڈوبی آواز ابھری ۔
ملہوترہ صاحب ! صدیقی صاحب جو آپ کی آفس میں کام کرتےہیں ۔ میں ان کا پڑوسی بول رہا ہوں ۔ ان کو آپریشن کومبنگ کےدوران پولس پکڑ کر لےگئی ہےاور ان پر بنگلہ دیشی ، جرائم پیشہ اور وطن دشمن ہونےکا شک کر رہی ہے۔ آپ پولس اسٹیشن فون کرکےصدیقی صاحب کےبارےمیں کچھ کہہ دیں تو ہمیں صدیقی صاحب کو چھڑانےمیں مدد ملےگی ۔
صدیقی صاحب اور بنگلہ دیشی ، جرائم پیشہ اور ملک دشمن ؟ نا ن سنس ۔ ان لوگوں نےتو شریف لوگوں کا جینا مشکل کررکھا ہے۔ بھئی میرےفون سےکچھ نہیں ہوگا ۔ میرا ایک دوست وزارتِ داخلہ میں کام کرتا ہے۔ اس سےفون کرواتا ہوں تب ہی کچھ کام بنےگا ۔
آپ فون ضرور کروائیے۔ ورنہ صدیقی صاحب کو رات بھر ! “
تم فکر مت کرو صدیقی مجھےبہت عزیز ہے۔ “ ملہوترہ صاحب نےاس کی بات کاٹ کر کہا اور فون بند کردیا ۔ وہ پولس اسٹیشن آیا اور صدیقی صاحب کو تسلی دینےلگا ۔ کہ ملہوترہ صاحب وزارتِ داخلہ کےکسی آدمی سےفون کروانےوالےہیں اور پولس انہیں چھوڑ دےگی۔ پولس اسٹیشن میں ہاتھوں ، گالیوں اور لاتوں سےایک ایک آدمی کی باز پرس جاری تھی ۔ وقت چیونٹی کی رفتار سےرینگ رہا تھا ۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو انسپکٹر نےفون اٹھایا ۔
کولی واڑہ پولس اسٹیشن میں انسپکٹر سانے۔ اچھا صاحب ! اچھا صاحب ۔ وہ بس یوں ہی شک کی بنا پر پوچھ تاچھ کےلئےیہاں لائےہیں ۔ چھوڑ رہےہیں ۔ “ فون رکھ کر وہ قہر آلود نظروں سےسامنےبیٹھےلوگوں کو گھورنےلگا ۔ ” صدیقی کون ہے؟
میں ہوں ۔ “ صدیقی صاحب نےڈرتےڈرتےکہا ۔ ” تو پہلےصاف صاف کیوں نہیں بتایا کہ وائی کر صاحب کو پہچانتےہو ؟جاو

¿ اپنےگھر جاو

¿ ۔
سب جب صدیقی صاحب کےساتھ پولس اسٹیشن سےباہر آئےتو پو پھٹ رہی تھی اور ایسا محسوس ہورہا تھا جیسےعذاب کی ایک رات ختم ہوگئی ہے۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Dahshat, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

دہشت

از:۔ایم مبین

ہےبھگوان ! میں اپنےگھر والوں کےلئےرزق کی تلاش میں گھر سےباہر جارہا ہوں ۔ مجھےشام بحفاظت گھر واپس لانا ۔ میری حفاظت کرنا میری غیر موجودگی میں میرےگھر اورگھر کےافراد کی حفاظت کرنا ۔
دروازےکےقریب پہنچتےہی یہ دعا اس کےہونٹوں پر آگئی اور وہ دل ہی دل میں اس دعا کو دہرانےلگا ۔ جیسےہی اس نےدعا کےآخری الفاظ ادا کئےاس کا پورا جسم کانپ اٹھا اور پورےجسم میں ایک برقی لہر سی دوڑ گئی ‘ آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔
اس نےگھبرا کر پیچھےپلٹ کر دیکھا ۔
اس کی بیوی بچےکو لےکر معمول کےمطابق اسےچھوڑنےدروازےتک آئی تھی ۔
بیٹےپاپا کو ٹاٹا کرو “ ۔اس نےبچےسےکہا تو بچہ اسےدیکھ کر مسکرایا اور اپنےننھےننھےہاتھ ہلانےلگا ۔
شام کو جلدی گھر آجانا کہیں رکنا نہیں ‘ ذرا سی دیر ہوجاتی ہےتو میرا دل گھبرانےلگتا ہے“ ۔ بیوی نےکہا تو اس کی بات سن کر ایک بار پھر اس کا دل کانپ اٹھا ‘ پیر جیسےدروازےمیں جم گئےلیکن پھر اس نےاپنا سر جھٹک کر قوت ارادی کو مضبوط کرتےہوئےدروازےکےباہر قدم نکالے۔
گھر سےباہر نکل کر اس نےایک بار پھر مڑ کر اپنےگھر کو دیکھا بیوی بچےکو گود میں لئےدروازےمیں کھڑی تھی ۔
پتہ نہیں کیوں ایک بار پھر اس کےدماغ میں اس خیال کےناگ نےاپنا پھن اٹھایا ۔ اسےایسا محسوس ہوا جیسےوہ آخری بار اپنےگھر سےباہر نکل رہا ہےاپنےگھر اور بیوی بچےکا آخری دیدار کر رہا ہے۔ اب وہ کبھی واپس لوٹ کر اس گھر میں نہیں آئےگا نہ بیوی بچےکو دوبارہ دیکھ پائےگا ۔
گھبرا کر اس نےاپنےسر کو جھٹکا اور تیزی سےآگےبڑھ گیا ۔
اسےخوف محسوس ہورہا تھا اگر اس کی بیوی نےاس کےان خیالات کو پڑھ لیا تو وہ ابھی رو اٹھےگی اور رو رو کر خود کو بےحال کرلےگی اور اسےڈیوٹی پر جانےنہیں دےگی ۔ مجبوراً اسےچھٹی لینی پڑےگی ۔
وہ کیا کرے؟ اس کےذہن میں ان خیالوں کا جو ناگ کنڈلی مار کر بیٹھا ہےاس ناگ کو اپنےذہن سےکس طرح نکالے۔
ہر بار وہ اپنےذہن میں بیٹھےاس ناگ کو مار بھگانےکی کوشش کرتا ہےاور کبھی کبھی تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر دوبارہ وہ ناگ اس کےذہن میں آکر بیٹھ جاتا ہےاور اس کی ساری کوشش رائیگاں جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔
چار پانچ دنوں سےوہ خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ وہ اس ناگ کو مار بھگانےمیں کامیاب رہا تھا ۔ وہ اطمینان سےذہن میں بنا کوئی بوجھ لئےآفس جاتا تھا اور اسی اطمینان سےواپس گھر آتا تھا ۔
نہ تو گھر میں کوئی تناو

¿ تھا اور نہ ہی ذہن میں کوئی تناو

¿ تھا ۔ پھر ایک حادثہ ہوا اور وہ ناگ دوبارہ اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔
اس دن آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملند آفس نہیں آیا ۔
کیا بات ہے‘ آج ملند آفس کیوں نہیں آیا ہے؟ “ اس نےپوچھا ۔
ارےتم کو معلوم نہیں ؟ “ اس کی بات سن کر گائیکر حیرت سےاسےدیکھنےلگا
کل اس کا قتل ہوگیا ۔
قتل ہوگیا ؟ “ یہ سنتےہی اس کےذہن کو ایک جھٹکا لگا ۔ قتل اور ملند کا ؟ مگر کیوں ؟ اس نےکسی کا کیا بگاڑا تھا ؟ وہ شریف آدمی کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا ؟ اس بےچارےکا تو مشکل سےکوئی دوست تھا تو بھلا دشمن کیسےہوسکتا ہے؟
نہ وہ دوستوں کےہاتھوں مرا اور نہ دشمنوں کے! وہ تو بےموت مارا گیا ۔ “ گائیکر بتانےلگا ۔ آفس سےوہ گھر جارہا تھا ۔ لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس اچانک دو گینگ والوں میں ٹکراو

¿ ہوا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چلنےلگیں ۔ ان گولیوں سےپتہ نہیں ان گینگ کےافراد مارےگئےیا زخمی ہوئےلیکن ایک گولی اس جگہ سےگذرتےملند کی کھوپڑی توڑتی ضرور گزر گئی ۔
اوہ …….. نو ! “ یہ سن کر وہ اپنا سر پکڑ کر کرسی سےٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
بےچارہ ملند !
کل کتنی پیاری پیاری باتیں کررہا تھا ۔
اننت بھائی ! اپنےکمرےکا انتظام ہوگیا ہےاب کمرہ کہاں لیا کتنےمیں لیا یہ مت پوچھو ‘ بس لےلیا ۔ یہ سمجھو گھر والےبہت خوش ہیں کہ میں نےکوئی کمرہ لےلیا ہے۔ سالا اتنےچھوٹےسےگھر میں سارےخاندان والوں کو رہنا پڑتا تھا ۔ میرےکمرہ لینےسےسب سےزیادہ خوش نینا ہے۔ میں نےجیسےہی اسےیہ خوش خبری سنائی گارڈن میں سب لوگوں کےسامنےاس نےمیرا منھ چوم لیا ایک بار نہیں پورےتین بار اور بولی اب جلدی سےگھر آکر میرےباپو سےہماری شادی کی بات کرلوویسےوہ تیار ہیں ۔ ان کی ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ تم رہنےکےلئےکوئی کمرہ لےلو ۔
بےچارہ ملند ! “ وہ سوچنےلگا ۔ کل جب وہ آفس سےنکلا ہوگا تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ گھر کی طرف نہیں موت کی طرف جارہا ہے۔ کیا سویرےگھر سےنکلتےوقت اس نےسوچا ہوگا کہ وہ آخری بار آفس جارہا ہے؟ اس کےبعد اسےکبھی گھر سےآفس کےلئےنکلنےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ یا اب کبھی وہ لوٹ کر گھر نہیں آئےگا ۔ کیا وہ جس موت کا شکار ہوا ہےیہ اس کی فطرتی موت ہے؟ نہیں نہیں …. ! نہ یہ اس کی فطرتی موت تھی اور نہ اس کی قسمت میں اس طرح کی موت لکھی تھی ۔ وہ تو بےموت مارا گیا ۔
دو گینگ والےآپس میں ٹکرائے۔ ایک دوسرےکو ختم کرنےکےلئےگولیاں چلیں اور ختم ہوگیا بےچارہ ملند ۔
جس طرح ملند کی کہانی ختم ہوگئی ممکن تھا اگر وہ بھی اس جگہ سےگزرتا تو اس کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوجاتا ۔ مانا وہ اس کا راستہ نہیں تھا لیکن یہ ضروری نہیں ہےکہ گینگ وار صرف لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس ہی ہوتی ہیں ۔
وہ دادر میں بھی ہوسکتی ہے‘ کرلا میں بھی ‘ ملنڈ میں بھی اور تھانےاسٹیشن کےباہر بھی ۔ یہ تو اس کا رستہ ہے۔ جس گولی نےملند کی جان لی تھی اس طرح کی کوئی گولی اس کی بھی جان لےسکتی ہے۔
ناگ دوبارہ آکر اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا ۔ اور اب چاہ کر بھی وہ اس ناگ کو اپنےذہن سےنہیں نکال سکتا تھا ۔
گذشتہ ایک سال سےوہ اس ناگ کی دہشت سےخوف زدہ تھا ۔ گذشتہ ایک سال سےروزانہ اسےاس ناگ کا لہراتا ہوا پھن دکھائی دیتا تھا ۔ روزانہ وہ جس راستےسےبھی گزرتا تھا وہاں سےموت اسی کی تاک میں بیٹھی محسوس ہوتی تھی ۔
اسےصرف اس دن ناگ سےنجات ملتی تھی جس دن وہ آفس نہیں جاتا تھا اور گھر میں ہی رہتا تھا ۔
گھر میں وہ اپنےبیوی بچوں کےدرمیان خود کو بےحد محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےپورا اطمینان ہوتا تھا کہ جب تک وہ اپنےگھر میں ہےاپنےخاندان کےافراد کےدرمیان ہےمحفوظ ہے۔
ہاں جس لمحےاس نےگھر سےباہر قدم رکھا اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔صرف وہ اکیلا ہی اس دہشت سےخوفزدہ نہیں تھا جب وہ غور کرتا تو اسےاپنےساتھ سفر کرتا ہر آدمی اسےدہشت زدہ محسوس ہوتا تھا ۔ کسی کو بھی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ۔
جب وہ اس موضوع پر لوگوں سےگفتگو کرتا تو اسےمحسوس ہوتا وہ جس خوف کےسائےمیں جی رہا ہےلوگ بھی اسی خوف کےسائےتلےجی رہےہیں ۔ سارےشہر پر وہ کالا سایہ چھایا ہوا ہے۔
ایک سال قبل تک سب کچھ کتنا اچھا تھا ۔
روزانہ وہ بلا خوف و خطر آفس جاتا اور آفس سےواپس گھر آتا تھا ۔ کسی وجہ سےاگر وہ آدھی رات تک گھر نہیں پہنچ پاتا تھا تو بھی گھر والےاس کی کوئی فکر نہیں کرتےتھے۔ وہ یہ اندازہ لگالیتےتھےکہ ضرور آفس میں کوئی کام ہوگا اس لئےگھر آنےمیں دیر ہوگئی ہوگی یا ٹرین سروس میں کوئی خلا پیدا ہوگیا ہوگا اس لئےوہ ابھی تک گھر نہیں آپایا ہے۔ وہ خود جب آفس سےنکلتا تو اسےبھی گھر پہونچنےکی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بڑےآرام سےضروری اشیا ءخرید کر گھر جاتا تھا ۔
لیکن اب تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آدھا گھنٹہ بھی لیٹ ہوجاتا تھا تو اس کی بیوی کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں ۔ وہ بےچینی سےکمرےمیں ٹہلتی ‘ پتہ نہیں کیا کیا سوچنےلگتی تھی ۔
اگر وہ گھر آنےمیں دو تین گھنٹہ لیٹ ہو جاتا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگتی تھی ۔ وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہونچا ؟ کیا اس کےساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے؟
اب وہ آفس سےنکلتا تھا تو سیدھا پہلی لوکل پکڑ کر گھر جانےکی سوچتا تھا وہ آفس سےباہر خود کو بڑا غیر محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےاگر کوئی ضروری چیز بھی خریدنی ہوتی تھی تو وہ ٹال دیتا تھا ۔
ایک دہشت ذہن میں سمائی رہتی تھی ۔ پتہ نہیں کب کہیں کوئی بم پھٹےاور اس کےجسم کےپرخچےاڑجائیں ۔
پتہ نہیں کب کہیں سےکوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاقو ، چاپڑ لئےمذہبی نعرےلگاتا ہوا آئےاور آکر اس کےجسم کےٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔
پتہ نہیں کب کہیں سےپولس کی گولی آئےاور اس زمین کو اس کےوجود سےپاک کردےپتہ نہیں کہیں دو گینگوں کی وار میں چلی کوئی گولی اچٹ کر آئےاور ملند کی طرح اس کا بھی خاتمہ کردے۔ اور نہیں تو یہ بھی ممکن ہےوہ جس لوکل ٹرین سےسفر کررہا ہو اس کےڈبےمیں بم پھٹ پڑے۔
گذشتہ ایک سال میں اس نےاپنی آنکھوں سےاپنی موت کو اپنےبہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اپنےکئی شناساو

¿ں اور عزیزوں کو موت کا نوالا بنتےہوئےدیکھا تھا اور ایک دوبار تو خود موت اس کےقریب سےگزری کہ آج بھی جب وہ ان لمحات کو یاد کرتا تھا تو اس کےجسم میں کپکپی چھوٹ جاتی تھی ۔
وہ دسمبر کا ایک منحوس دن تھا ۔ بیوی اسےروک رہی تھی ۔
آج آپ ڈیوٹی پر مت جائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہےضرور آج کچھ نہ کچھ ہوگا ۔
تمہارا دل تو روز ہی گھبراتا رہتا ہےاس کا مطلب تو یہ ہوا میں روز آفس نہ جاو

¿ں ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا تم سوچ رہی ہو ۔ اس طرح کےواقعات تو روزانہ ہوتےرہتےہیں ۔ میرا آج آفس جانا بہت ضروری ہےکہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے‘ میں جلد ہی واپس آجاو

¿ں گا ۔
بیوی روکتی رہی مگر وہ نہ مانا اور ڈیوٹی پر چلا آیا ۔
اس دن آفس میں حاضری آدھےسےبھی کم تھی ۔ آنےوالےآتو گئےتھےلیکن اس لمحےکو کوس رہےتھی

جب انہوں نےآفس جانےکا فیصلہ کیا تھا ۔ سب کا یہی خیال تھا کہ اگر وہ نہ آتےتو بہتر تھا ۔ کیونکہ جو خبریں آفس پہنچ رہی تھیں اسےمحسوس ہورہا تھا آدھا شہر جل رہا ہے۔
آسمان میں دھوئیں کےبادل چھائےصاف دکھائی دےرہےتھے۔ سارےشہر پر ایک دہشت چھائی ہوئی تھی ۔ کھلی دکانیں دھڑا دھڑ بند ہورہی تھیں سڑکوں سےسواریاں اور لوگ غائب ہورہےتھے۔
یہ طےکیا گیا کہ آفس بند کرکےسب لوگ فوراً اپنےگھروں کو چلےجائیں ۔ ریلوےاسٹیشن تک آتےآتےانہوں نےکئی ایسےمناظر دیکھےتھےجس کو دیکھ کر ان کےہوش اڑ گئےتھے۔
جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں ۔ دوکانیں جل رہی تھیں ۔ لٹی ہوئی دوکانیں کھلی پڑی تھیں ۔ سڑک پر ایک دو لاشیں پڑی تھیں ۔ ایک دو زخمی کراہ رہےتھے۔ پتھروں اور سوڈا واٹر کی پھوٹی ہوئی بوتلوں کےڈھیر پڑےہوئےتھے۔
اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ پیر رکھنےکی بھی جگہ نہیں تھی ۔ جو بھی لوکل آتی تھی لوگ اس پر ٹوٹ پڑتےتھےاور جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں کھڑےہوکر ، بیٹھ کر ، لٹک کر جلد سےجلد وہاں سےنکل جانےکی کوشش کرتے۔
اسےایک لوکل میں جگہ ملی تو صورت حال یہ تھی کہ وہ دروازہ میں آدھےسےزیادہ لٹکتا سفر کر رہا تھا اور راستےمیں سارےمناظر دیکھ رہا تھا ۔
لوگوں کےگروہ ایک دوسرےسےالجھےہوئےتھے۔ ایک دوسرےپر پتھراو

¿ کررہےتھے۔ سوڈاواٹر کی بوتلیں پھینک رہےتھے۔ ۔ دوکانیں لوٹ رہےتھےچلّا رہےتھے۔
کہیں پولس اور لوگوں میںٹکراو

¿ چل رہا تھا ۔ پولس اندھا دھند گولیاں چلا رہی تھی لاشیں سڑکوں پر گر رہی تھیں ۔
گولیوں کی ایک بوچھار اس جگہ سےگزرتی لوکل ٹرین سےبھی ٹکرائی ۔ اس کےساتھ جو آدمی لٹکا ہوا تھا گولی پتہ نہیں اس آدمی کےجسم کےکس حصےسےٹکرائی ‘ اس کےمنھ سےایک دردناک چیخ نکلی ۔ اس کا ہاتھ چھوٹا وہ ڈبہ سےگرا اور اس کےبعد ابھرنےوالی اس کی دوسری چیخ اتنی بھیانک تھی کہ جس کےبھی کانوں تک وہ چیخ پہنچی وہ کانپ گیا ۔
وہ گاڑی کےنیچےآگیا تھا ۔
ایک گولی سامنےکھڑےآدمی کو لگی اور وہ بےآواز ڈھیر ہوگیا ۔
اس کےجسم سےخون کا ایک فواّرہ اڑا اور آس پاس کھڑےلوگوں کےجسم اور کپڑوں کو شرابور کرگیا ۔
اس کےکپڑوں پر بھی تازہ خون کی ایک لکیر ابھر آئی ۔کسی طرح وہ گھر پہنچنےمیں کامیاب ہوا ۔ اس کےبعد اس نےطےکیا کہ چاہےکچھ بھی ہوجائےوہ اب آٹھ دس دنوں تک یا جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہوجائےآفس نہیں جائےگا ۔
اور وہ آٹھ دنوں تک آفس نہیں گیا ۔ گھر میں بیٹھا شہر کےجلنےکی اور لوگوں کےمرنےبرباد ہونےکی خبریں سنتا پڑھتا رہا ۔ کبھی چوبیس گھنٹےکرفیو رہتا ۔ کبھی کچھ دیر کےلئےکرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آٹھ دنوں میں صورت حال معمول پر آگئی ۔
مجبوریوں کےمارےلوگ اپنےگھروں سےباہر نکلے۔ مجبوری کےتحت آفس جاتے۔ راستےبھر سفر کےجلد خاتمےکی دل ہی دل میں دعا ئیں کرتے۔
آفس پہنچ کر آفس میں کام کرتےہوئےوہ یہی دعا کرتا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ پیش آئے۔ اور آفس سےجلدی چھٹی لےکر جلد گھر جانےکی کوشش کرتا ۔
آدھی رات تک جاگنےاور کبھی کبھی تو رات بھر جاگنےوالا شہر پانچ بجےہی ویران ہوجاتا تھا ۔ حالات کچھ کچھ معمول پر آئےبھی نہ تھےکہ ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا ۔ اس بار تشدد کا زور کچھ زیادہ تھا ۔
ایک دن دہشت زدہ سا آفس سےدوپہر میں ہی گھر آرہا تھا کہ اچانک ایک مذہبی نعرہ لگاتا گروہ لوکل ٹرین پر ٹوٹ پڑا ۔ گروہ کےہاتھوں میں تلواریں ، چاقو اور چاپڑ تھے۔ مذہبی نعرےلگاتےوہ اندھا دھند لوگوں پر وار کررہےتھے۔ لوگ چیخ رہےتھے، بلبلا رہےتھےلیکن گروہ کو کسی پر رحم نہیں آرہا تھا ۔ تلوار کا ایک وار اس کی پشت پر ہوا اور کےبعد کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں ۔
ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک اسپتال میں پایا ۔
لوکل کسی محفوظ مقام پر رکی تھی ۔ وہاں پر زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ تین دنوں تک وہ بےہوش تھا ۔ ہوش میں آنےکےبعد گھبرا کر اس نےسب سےپہلےاپنےگھر خبر کرنےکی درخواست کی تھی ۔
اسپتال میں اسےپتہ چلا کہ اس کی بیوی خود دو دنوں سےاسپتال میں ہے۔ وہ گھر نہیں آیا تھا اس لئےرات بھر روتی پیٹتی رہی تھی ۔ جیسےجیسےدل کو دہلا دینےوالی خبریں وہ سنتی تھی اس کاکلیجہ منھ کو آتا ۔ آخر جب برداشت نہیں کرسکی تو بےہوش ہوگئی اور اسےپڑوسیوں نےاسپتال پہنچا دیا ۔
اسپتال میں جب اس کےمحفوظ ہونےکی خبر ملی تو اس کےاندر جیسےایک نئی جان سرایت کرگئی اور وہ اس کےپاس اسپتال چلی آئی ۔
وہ دس دنوں تک اسپتا ل میں رہا اس کےبعد گھر آگیا ۔ گھر آکر اس نےگھر میں کچھ دنوں تک آرام کیا پھر مجبوراً آفس جانےلگا ۔ وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ ہر لمحہ اسےمحسوس ہوتا تھا ابھی کوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاپڑ یا چاقو لئےمذہبی نعرےلگاتا آئےگا اور اس پر ٹوٹ پڑےگا ۔ گذشتہ بار تو وہ ان کےوار سےبچ گیا لیکن اس بار بچ نہیں سکےگا وہ لوگ اس کےجسم کےٹکرےٹکڑےکرڈالیں گے۔
اس کی آنکھوں کےسامنےڈبےّسےدوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالوں کو پھینکنےکےواقعات پیش آئےتھے۔ وہ ان واقعات سےبھی خوف زدہ رہتا تھا ۔ اگر کسی دن غلطی سےوہ کسی ایسےڈبےمیں چڑھ گیا جس میں دوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالےمسافر زیادہ ہوئےتو وہ لوگ بھی اس کےساتھ یہی سلوک کرسکتےہیں ۔ نہیں نہیں ایسا سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھتا تھا ۔
اور پھر ایک دن ایک اور قیامت کا دن آیا ۔ اس کےآفس کےسامنےوالی عمارت میں ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا ۔ اتنا زبردست کہ اس آفس کی کھڑکیوں کےسارےشیشےٹوٹ گئےتھےاوراسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہوئےتھے۔ باہر صرف دھواں ہی دھواں تھا ۔ دھواں ہٹا تو وہاں صرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دےرہا تھا ۔ اور چیتھڑوں کی شکل میں خون میں ڈوبےمرےلوگ ‘ ان کی لاشیں ۔ اس طرح کےدھماکےشہر میں کئی مقامات پر ہوئےتھے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئےتھےسینکڑوں مارےگئےتھےکروڑوں کا نقصان ہوا تھا ۔ موت ایک بار پھر اس کی آنکھوں کےسامنےاپنا جلوہ دکھا کر رقص کرتی چلی گئی تھی ۔ اگر وہ بم تھوڑا سا اور زیادہ طاقت ور ہوتا تو اس کا آفس بھی اس کی زد میں آجاتا اور وہ بھی نہیں بچ پاتا ۔
یہیں خاتمہ نہیں تھا ۔ آئےدن لوکل ٹرینوں میں ، پلیٹ فارموں پر چھوٹےبڑےدھماکےہورہےتھے۔ مجرموں کی تلاش کےنام پر کسی پر ذرا بھی شک ہونےپر پولس اسےاٹھالےجاتی اور اسےجانوروں کی طرح پیٹ کر حوالات میں ڈال دیتی ۔ اس کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ۔ ہاتھوں کی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھا جاتا تھا ۔ کوئی چیز کہیں سےلانا یا لےجانا بھی جرم ہوگیا تھا ۔
گینگ وار میں سڑکوں پر گولیاں چلتیں۔ لاشیں گرتیں ۔ مجرموں غنڈوں جرائم پیشہ لوگوں کی بھی اور معصوم لوگوں کی بھی ۔ایسی حالت میں گھر سےنکلتےہوئےکون اعتماد سےکہہ سکتا ہےکہ اس کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ جس طرح گھر سےنکل رہا ہےاسی طرح محفوظ بہ حفاظت شام کو واپس گھر آجائےگا ۔ گھر سےجب وہ دعا کرکےنکلتا تو اس کا ذہن خدشات اور وسوسوں میں ڈوبا ہوتا تھا لیکن جب وہ شام گھر پہنچ کر دعا کرتا تھا تو اسےایک قلبی سکون ملتا تھا ۔
ہےبھگوان ! تیرا بہت بہت شکریہ تو نےمجھےصحیح سلامت اپنےگھر پہنچا دیا۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Tooti Chaht Ka Makan By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Tooti Chhat Ka Makan, Urdu

افسانہ

ٹوٹی چھت کا مکان

از:۔ایم مبین

وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔
کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہی۔ اکیلےبیٹھےبلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتےرہنا۔
سوچنےکےلیےکوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہےکہ اسی کےبارےمیں غور کیا جائی۔
عجیب و غریب خیالات و موضوع ذہن میں آتےہیں۔ جن پر غور کرکےکچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہی۔
اس نےاپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانےوالےان لایعنی خیالوں کو ذہن سےنکالا اور چھت کو گھورنےلگا۔
سفید دودھ کی سی چھت، بےداغ چھت، جس کےچاروں کونوں پر چار دودھیا بلب لگےتھےاور درمیان میں ایک فانوس لٹک رہا تھا۔ گذشتہ دنوں اس نےوہ جھومر مدراس سےلایا تھا اس کی قیمت پورےتیس ہزار روپیہ تھی۔
ایک فانوس تیس ہزار روپیہ قیمت، سوچ کر وہ خود ہی ہنس پڑا ، گھر میں ایسی کئی چیزیں تھیں جن کی قیمت لاکھوں تک ہوتی اور اس کےعلاوہ پورا مکان؟
ایک کروڑ کا نہیں تو چالیس پچاس لاکھ کا ضرور ہوگا۔اور اس کےسامنےچالیس پچاس لاکھ روپیہ کےمکان کی چھت تھی جسےوہ اس وقت گھوررہا تھا۔
دس بیس سالوں قبل اس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کےسر پر چالیس پچاس لاکھ روپیوں کی چھت ہوگی۔ آج اس کی یہ حالت ہی۔
لیکن کبھی اس کےایسےحالات تھےکہ اسےٹوٹی چھت کےمکان میں رہنا پڑتا تھا۔
کیا وہ اس کو بھول سکتا ہیَ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔
انسان کو جس طرح اپنےاچھےدن ہمیشہ یاد رہتےہیں اسی طرح وہ اپنےبرےدن بھی کبھی نہیں بھولتا۔اور اس نےتو اس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےپورےدوسال نکالےتھی۔تب کہیں جاکر وہ ٹوٹی چھت بن سکی تھی۔اس ٹوٹی چھت کےنیچی، اس کےخاندان نےکتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔
مکان، مکان کی چھت کس لیےہوتی ہی؟
سردی، گرمی، بارش، دھوپ، ہوا سےانسان کی حفاظت کرنےکےلیےمکان میں رہنےکی یہی تو وجہ ہوتی ہی۔
لیکن جس مکان کی چھت ہی ٹوٹی ہوئی ہو اس میں رہنا کیا معنی؟بارش کےدنوں میں پانی گھر کو جل تھل کردیتا ہو اور اس طرح بہتا ہو جیسےسڑک پر پانی بہہ رہا ہو۔
دھوپ سات بجےسویرےسےہی گھر میں گھس کر جسم میں سوئیاں چبھونےلگتی ہو، دن ہو یا رات سردی جسم میں کپکپی پیدا کرتی ہو۔ تو اس چھت کےکیا معنی؟ایسےمیں کھلی سڑک پر آسمان کی چھت کےنیچےرہنا اچھا لگتا ہے، اس ٹوٹی چھت کےمکان میں رہنےکےمقابلی۔
چھت ٹوٹ گئی تھی، چھت کےٹوٹنےپر ان کا کوئی بس نہیں تھا۔ مکان کافی پرانا ہوگیا تھا۔ داداجی کہتےتھےمیرےدادا نےیہ مکان بنایا تھا۔
گھر کی چھت اور جن لکڑیوں پر وہ چھت ٹکی تھی سینکڑوں، گرمیاں، سردیاں، بارش دیکھ چکی تھیں۔آخر اس کی قوتِ برداشت جواب دےگئی۔ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ سب کسی نہ کسی کام سےگھر کےباہر گئےتھی، چھت گرگئی۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن ان کا سارا سنسار منوں مٹی کےنیچےدب گیا۔
بڑی محنت اور مشکل سےماں، باپ سب بھائی بہنوں نےمل کر اس سنسار کی ایک ایک چیز کو مٹی سےباہر نکالا تھا۔مٹی نکال کر آنگن میں ڈھیر لگایا گیا۔گلی سڑی لکڑیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا گیا اور گھر کی صاف صفائی کرکےمکان کو رہنےکےقابل بنایا گیا۔
اس کےبعد دوسالوں تک اس مکان کی چھت نہیں بن سکی۔چھت کی مٹی برسات میں بہتی رہی۔اور گرمی سردی سےدب کرزمین پر مسطح ہوگئی۔
ساری لکڑیاں ایندھن کےطور پر استعمال ہوگئی، اور گھر میں اس کےخاندان کےافراد کےساتھ گرمی، سردی، بارش کا بسیرا ہوگیا۔
پتاجی کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ چھت بنائی جاسکی۔ جو کچھ کماتےتھےاس میں مشکل سےان کا گھر چلتا تھا، اور ان کی تعلیم کےاخراجات پورےہوپاتےتھی۔
یہ جان کر ہی گھر کےہرفرد نےاس ٹوٹی چھت کےساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اور چاردیواری میں رہ کر بھی بےگھر ہونےکی ہر اذیت کو چپ چاپ برداشت کررہےتھی۔اس کےبعد وہ ٹوٹی چھت اس وقت بن پائی جب پتاجی نےاپنی زمین کا ایک ٹکڑابیچ ڈالا۔
آج جب وہ اس بارےمیں سوچتا ہےتو اسےایسا لگتا ہےشاید بھگوان نےاس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےصبر سےرہنے، کسی طرح کی کوئی شکایت و گلہ نہ کرنےکا صلہ اسےاس چھت کی شکل میں دیا۔اگر وہ شہر کےکسی بھی فرد کو بتاتےکہ وہ شہر کےکس حصےمیں اور کس عمارت میں رہتا ہےتو وہ اس کےنصیب سےحسد کرنےلگی۔
اس علاقےمیں بنی عمارتوں میں رہنےکا لوگ صرف خواب دیکھتےرہتےتھی۔لیکن وہ وہاں رہ رہا تھا۔ایک ایسی چھت کےنیچےجس کا نام سُن کر ہی ہر شخص آسانی سےاس کےرتبہ اور حیثیت کا پتہ لگا لیتا ہی۔
وہ چھت جو اسےاور اس گھر کےافراد کو،گرمی،سردی،بارش سےبچاتی ہی۔بچاتی کیا ہےیہ موسم اس مکان میں داخل ہونےسےرہا۔اس کےگھر کےاپنےموسم جن پر اس کا، اس کےگھر والوں کا اختیار ہےیہ ان کےبس میں ہیں موسموں کا گھر پر کوئی بس نہیں ہی۔
باہر شدید گرمی ہےاندر ائر کنڈیشن چل رہا ہےاور کشمیر سا موسم چھایا ہوا ہی۔
باہر سردی ہی۔
لیکن پورا مکان اپنےاندر میٹھی میٹھی تپش لیےہوئےہی۔ ہوائیں اپنےبس میں ہیں۔
ہر چیز پر اپنا اختیار ہی۔
دروازےپرآٹومیٹک تالہ ہی۔
گھر کےافراد کےلمس کےبنا نہیں کھل سکتا۔
فرش پہ ایرانی قالین بچھا ہی۔ ڈرائینگ روم ایک منی تھیٹر کی طرح ہےجہاں ڈسکوری چینل ٢١ فٹ کےپردےپر دکھائی دیتا ہی۔
پوری بلڈنگ میں باحیثیت لوگ رہتےہیں بلکہ کچھ تو اس سےبڑھ کر ہیں۔ گپتاجی کا ایکسپورٹ کا بزنس ہی۔
متل جی ایک چھوٹےسےانڈسٹریل گروپ کےمالک ہیں۔
شاہ شہر کا ایک نامی گرامی فینانسر ہے۔
نکم ایک بہت بڑا سرکاری آفیسر ہے۔
ہر کوئی ایک دوسرےسےبڑھ کر ہے۔
یہ الگ بات ہےکہ وہ ایک دوسرےکو کتنا جانتےہیں یا ایک دوسرےکےلئےکتنےاجنبی ہیں ‘ یہ تو وہ لوگ بھی نہیں بتا سکتے۔ جب ان کےگھر موقع بےموقع کوئی پارٹی ہو تو وہ ایک دوسرےکےگھر جاکر اس بات سےواقف ہوتےہیں کہ ان کےگھر میں کیا کیا نئی چیزیں آئی ہیں ۔ جو اب تک ان کےگھروں میں نہیں آپائی ہیں اور پھر وہ چیز سب سےپہلےلانےکےلئےرسہ کشی شروع ہوجاتی اور کچھ دنوں کےبعد ہر گھر کےلئےوہ چیز عام سی شہ بن جاتی ۔
سیڑھیاں چڑھتےہوئے‘ سیڑھیاں اترتےہوئےیا لفٹ میں کوئی مل جاتا ہےتو وہ اخلاقاً اس سےبات کرلیتے۔
ان کی خوشیاں تو اجتماعی ہوتی ہیں ۔ ایک دوسرےکی خوشیوں میں سبھی شامل ہوتےہیں ‘ لیکن ا ن کےغم میں ان کےاپنےہوتےہیں ۔ غموں میں دکھوں میں کوئی بھی کسی کو تسلی دینےبھی نہیں جاتا اپنےدکھ انہیں خود ہی جھیلنےہوتےہیں ۔ وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا تو بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی ۔ نہ تو اس کےگھر والوں نےکسی کو بتایا کہ شاہ کہاں ہےاور نہ اتنےدنوں تک شاہ کی کمی محسوس ہوئی ۔ اگر معلوم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کرلیتے؟
اخلاقاً اسپتال جاکر شاہ کی خیریت پوچھ آتےاور آنےجانےمیں جو قیمتی وقت برباد ہوتا اس کےلئےبھی شاہ کو کوستے۔
اس بات کو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا تھا کہ ہر کسی کا وقت قیمتی ہےاس لئےایک دوسرےکو اپنی ایسی باتوں کا پتہ لگنےہی نہیں دیتےتھے‘ نہ خبر کرتےتھےجس سےدوسروں کا قیمتی وقت برباد ہو ۔
متل پر حملہ کرکےغنڈوں نےاس کا سوٹ کیس چھین لیا جس میں تقریباً دس لاکھ روپےتھے۔ یہ خبر بھی انہیں دو دن بعد معلوم ہوئی جب انہوں نےاخبار میں اس کےمتعلق پڑھا ۔ دو دنوں تک متل نےبھی کی کو یہ بات بتانےکی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
گپتاجی کا اکسیڈینٹ ہوگیا ‘ انہیں کافی چوٹیں آئیں ۔ دس دنوں تک وہ اسپتال میں رہےاور انہیں پانچ دنوں بعد گپتا کےساتھ ہونےوالےحادثےکا پتہ چلا ۔
وہ دس منزلہ اونچی عمارت تھی ۔ ہر فلور پر ایک خاندان اور کہیں کہیں دو تین خاندان آباد تھے۔ مگر برسوں بعد پتہ چلتا تھا کہ پانچویں فلور پر کوئی نئی فیملی رہنےکےلئےآئی ہے۔ پانچویں فلور کا سنہا کب فلیٹ چھوڑ گیا معلوم ہی نہیں ہوسکا ۔ ہر کسی کی زندگی ‘ گھر ، خاندان اور زیادہ سےزیادہ ان کےفلور تک محدود تھی ۔
ا س کےبعد اپنا بزنس دنیا بس اتنی ہی تھی ۔ بس انہی دو نقطوں تک محدود تھی ۔ باہر کی دنیا سےانہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔
اچانک وہ حادثہ ہوگیا ۔
شاہ کےگھر ڈاکہ پڑا ۔
لٹیرےشاہ کا بہت کچھ لوٹ کر لےگئے۔ اس کی بیوی اور بیٹی کا قتل کردیا ۔ شاہ کو مار مار کر ادھ مرا کردیا۔ جس کی وجہ سےوہ کوما میں چلا گیا ۔
دو نوکروں کو بھی مار ڈالا ‘ واچ مین کو زخمی کردیا اور لفٹ مین کےسر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ پاگل ہوگیا۔
اتنا سب ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔
سویرےجب واچ مین کو ہوش آیا تو اس نےشور مچایا کہ رات کچھ لٹیرےآئےتھےاور انہوں نےاسےمار کر زخمی کردیا ۔
لفٹ مین لفٹ میں بےہوش ملا اور شاہ کا گھر کھلا تھا ۔ اندر گئےتو زخمی شاہ اور اس کےخاندان والوں کی لاشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں ۔
تفتیش کےلئےپولس کو بلایا گیا تو پولس کی ایک پوری بٹالین آئی اور اس نےپوری بلڈنگ کو اپنےگھیری

میں لےلیا ۔پہلےبلڈنگ کےہر فرد کو بلا کر پوچھ تاچھ کی جانےلگی ۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ کیا کررہےتھے؟ اس واقعےکا پتہ آپ کو کب چلا ؟ آپ کےپڑوس میں آپ کی بلڈنگ میں اتنی بڑی واردات ہوگئی اور آپ کو پتہ تک نہ چل سکا ؟ آپ کےشاہ سےکیسےتعلقات تھے؟ کیا کسی نےشاہ کےگھر کی مخبری کی ہے؟ بنا مخبری کےلٹیرےگھر میں گھس کر چوری کرنےکی جرا

¿ت کر ہی نہیں سکتے۔
گھر کےبڑےلوگوں سےپوچھ تاچھ کرکےبھی پولس کی تسلی نہیں ہوئی تو ہر گھر میں گھس کر گھر کےہر چھوٹےبڑے، بوڑھےبچے، عورت مرد سےپوچھ تاچھ کرنےلگی اور گھر کی ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کرکےدیکھنےلگی ۔
اس کےبعد بلڈنگ کےہر فرد میں سےایک دو کو پولس چوکی پر بلا کر اسےایک دو گھنٹےپولس چوکی میں بٹھایا جاتا اور اس سےعجیب و غریب سوالات کئےجاتے۔ کبھی کبھی بھیانک شکل و صورت والےچور بدمعاشوں کےسامنےلےجا کر کھڑا کردیا جاتا اور پوچھا جاتا ۔
کیا انہیں پہچانتےہو ‘ انہیں کبھی بلڈنگ کےآس پاس دیکھا ہے؟“ کبھی کبھی ان بدمعاشوں کو لےکر پولس خود گھر پہنچ جاتی اور گھر کی عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو انہیں دکھا کر ان سےالٹےسیدھےسوالات کرتی ۔ جب رات وہ آفس سےواپس آتےتو خوفزدہ عورتیں اور بچےانہیں پولس کی آمد کی اطلاع دیتے۔ایک دن پولیس کا ایک دوسرا دستہ دندناتا ہوا بلڈنگ میں گھس آیا اور ہر گھر کی تلاشی لینےلگا۔
ہمیں شک ہےکہ اس واردات میں اسی عمارت میں رہنےوالےکسی فرد کا ہاتھ ہےاور چرایاگیا سامان اسی عمارت میں ہےاس لیےہم پوری عمارت کی تلاشی کا وارنٹ لےکر آئےہیں۔
پولیس کےپاس سرچ وارنٹ تھا۔
ہر کوئی بےبس تھا۔ پولیس سرچ کےنام پر ان کا قیمتی سامان توڑپھوڑ رہی تھی اور ہر چیز کےبارےمیں طرح طرح کےسوالات کر رہی تھی۔ تلاشی کےبعد بھی پولیس مطمئن نہیں ہوئی۔
ہر منزل کےایک ایک دو دو آدمی کو بیان لینےکےنام پر پولیس اسٹیشن لےگئی اور بلاوجہ چار چار پانچ پانچ گھنٹےانہیں تھانےمیں بٹھائےرکھا۔
کیا کیا سامان چوری ہوا ہےاس بارےمیں تو پولیش بھی ابھی تک طےنہیں کرپائی تھی۔
اس بارےمیں معلومات دینےوالا شاہ کو ما میں تھا۔
اس کی بیوی ، بیٹی اور نوکر مرچکےتھی۔ دوبیٹےجو الگ رہ رہےتھےاس بارےمیں یقین سےکچھ بتا نہیں پاتےتھی۔
عمارت کےباہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا۔
چارسپاہی ہمیشہ ڈیوٹی پر رہتی۔
رات کو وہ کبھی بھی بیل بجا کر دہشت زدہ کر دیتی۔
دروازہ کھولنےپر صرف اتنا پوچھتی۔ ”سب ٹھیک ہےنا؟
ہاں ٹھیک ہی۔“ جواب سن کر وہ آگےبڑھ جاتےمگر رات کی میٹھی نیند خراب کردیتی۔
کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا۔ چپ چاپ سب برداشت کرلیتی۔
پولیس اپنا فرض جو ادا کر رہی تھی۔
ہر کوئی اس نئی مصیبت سےپریشان تھا ۔
ہر کوئی عزت دار، رسوخ والا آدمی تھا۔
یہ طےکیا گیا کہ ایک وفد پولیس کمشنر سےبات کرےکہ وہ وہاں سےپولیس کا پہرہ ہٹالی، اور پولیس کو حکم دیں کہ وہ انھیں اس طرح وقت بےوقت تنگ نہ کریں، یعنی نہ انھیں پولیس اسٹیشن لائیں نہ ان کےگھر آئیں۔
سبھی اس کےلئےتیار ہوگئی۔
کیونکہ ان باتوں سےہر کوئی پریشان تھا۔
کمشنر سےملنا اتنا آسان نہیں تھا ، لیکن متل نےکسی طرح انتظام کر ہی دیا انھوں نےاپنےمسائل کمشنر کےسامنےرکھی۔
وہ چپ چاپ ہر کسی کی بات سُنتا رہا۔
جب اس کی باری آئی تو ان پر بھڑک اُٹھا۔
آپ شہر کےعزت دار، شریف اور دولت مند لوگ مجھ سےکہہ رہےہیں کہ میں پولیس کےکاموں میں دخل دوں۔ آپ معاملےکی سنگینی کو سمجھتےنہیں پورےچار قتل ہوئےہیں چار قتل۔ اور لٹیرےکیا کیا چرا لےگئےابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا۔ چاروں طرف سےپولیس کی بدنامی ہورہی ہی‘ الزامات کی بھرمار ہے۔ ہر ایرا غیرا آکر پوچھتا ہےکہ شاہ ڈکیتی کےمعاملےمیں پولیس نےکیا اقدام اٹھائےہیں۔ اور تفتیش کہاں تک پہونچی ہی۔ ہر کسی کو جواب دینا پڑتا ہی۔ اخباروں نےتو معاملےکو اتنا اُچھالاہےکہ وزیرِ اعظم بھی پوچھ رہےہیں کہ شاہ ڈکیتی کےمجرم ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئےہیں۔ اس لیےپولیس اپنےطور پر جو کچھ کررہی ہےیہ اس کا فرض اور طریقہ کار ہی۔ پولیس اپنےطور پر مجرموں تک پہنچنےکی پوری کوشش کررہی ہی، اور آپ کہہ رہےہیں کہ میں پولیس کو اپنا کام کرنےسےروکوں؟ آپ ملک کےعزّت دار، بااخلاق شہری ہیں پولیس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہی۔ اور آپ لوگ پولیس کےکاموں میں دخل دینا چاہتےہیں۔ سوچئےکیا یہ درست ہی؟ میرا آپ کو مشورہ ہےآپ جائیےپولیس کی مدد کیجئےاور پولیس کو اپنےطور پر کام کرنےدیں اس کی تحقیقات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
سب اپنا سا منہ لےکر اپنےاپنےگھر آگئی۔
شام کو پھر بلڈنگ میں پولیس آئی۔
انسپکٹر کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔
ہماری شکایت لےکر پولیس کمشنر صاحب کےپاس گئےتھے؟ہم نےتم لوگوں کےساتھ کیا کیا؟ جو تم نےکمشنر سےہماری شکایت کی۔ تم لوگوں کو ہم شریف لوگ سمجھ کر شرافت سےپیش آرہےتھی۔ ورنہ اگر ہم نےپولیس کا اصلی روپ دکھایا تو تم لوگ اپنی زندگی سےپناہ مانگو گی۔ میں اس معاملےمیں سب کو اندر کر سکتا ہوں۔ قانون کو ہاتھ میں لینےکی کوشش مت کرو۔ قانون کےہاتھ بہت لمبےہوتےہیں۔
وہ انسپکٹر کی ان باتوں کا کیا جواب دےسکتےتھی۔ چپ چاپ اس کی باتیں سن گئےاور اپنی بےعزتی سہہ گئی۔
پولیس کی اپنےطور پر تفتیش شروع ہوئی ۔
وہ اس بار پوچھ تاچھ کچھ اس طرح کررہےتھےجیسےعادی مجرموں کےساتھ تفتیش کررہےہوں۔
خون کا گھونٹ پی کر وہ پولیس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے، جہاں ان سےکوئی غلطی ہوتی پولیس والےانھیں گندی گندی ، فحش ، بھدی گالیاں دینےلگتے۔
آدھی رات کو دروازہ، کھٹکھٹا کر گھر میں گھس کر ہر چیز کا جائزہ لینا پولیس کا معمول تھا۔
گیٹ کےپاس کھڑےسپاہی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھتےاور بلاوجہ ہر چیز کی تلاشی لےکر ان کےبارےمیں اُلٹےسیدھےسوالات کرتی۔
بلڈنگ کی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوسناک نظروں سےدیکھتے۔ انھیں دیکھ کرفقرے کستےاور انھیں متوجہ کرنےکےلیےآپس میں فحش باتیں کرنےلگتی۔
فحش کتابیں پڑھتےرہتےاور ان کی گندی تصویروں کو اس انداز میں پکڑےرہتےکہ بلڈنگ کی عورتوں کی نظریں ان پر پڑ جائیں۔
یہ سب جیسےزندگی کا معمول بن گیا تھا۔
رات کےبارہ بج رہےتھی۔ دروازےپر دستک دےکر پولیس جاچکی تھی۔
لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔
اسےاندازہ تھا پوری بلڈنگ میں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسی کی طرح جاگ رہا ہوگا۔ بےخوابی کا شکار ہوگا۔
سب کی حالت اس کی سی تھی۔
باربار اس کی نظریں چھت کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔
کیا اس چھت کےنیچےوہ محفوظ ہیں؟
اسی طرح کی ایک جھت کےنیچےشاہ کا خاندان کہاں محفوظ رہ سکا۔ پھر آنکھوں کےسامنےاپنی ٹوٹی چھت کا مکان گھوم جاتا تھا۔ اس چھت کےنیچےسردی میں ٹھٹھرکر، بارش میں بھیگ کر، ہوائوں کےتھپیڑےسہہ کر بھی وہ اپنےگھر والوں کےساتھ گہری میٹھی نیند سوجاتاتھا۔
لیکن اس چھت کےنیچی۔۔۔۔۔!

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short story Gardish By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Gardish, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

گردش

از:۔ ایم مبین

بیل بجانےپر حسبِ معمول بیوی نےہی دروازہ کھولا ۔اس نےاپنی تیز نظریں بیوی کےچہرےپرمرکوز کردیں جیسےوہ بیوی کےچہرےسےآج پیش آنےوالےکسی غیر معمولی واقعہ کو پڑھنےکی کوشش کررہا ہو۔
بیوی کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ اس نےایک گہری سانس لی اسےمحسوس ہوا کہ جیسےاس کےدل کا ایک بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔
بیوی کےچہرےکا سکوت اس بات کی گواہی دےرہا تھا کہ آج ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جو تشویش ناک ہو یا جو اس کےدل کےان خدشات کو صحیح ثابت کردےجن کےبارےمیں وہ راستےبھر سوچتا آیا تھا ۔ اتنےدنوں میں وہ بیوی کےچہرےکی کتاب پڑھنا اچھی طرح سیکھ گیا تھا‘ بیوی کےچہرےکےتاثرات سےوہ اندازہ لگا لیتا تھا کہ آج کس قسم کا واقعہ پیش آیا ہوگااس سےپہلےکہ بیوی اس واقعہ کےبارےمیں اسےبتائےوہ خود کو نفسیاتی طور پراس واقعہ کو جاننےکےبعد خود پر ہونےوالےردِّ عمل کےلئےتیار کرلیتا تھا ۔
اپنا سر جھٹک کر ا س نےاپنی قمیض اتار کربیوی کی طرف بڑھا دی اور بیوی کےہاتھ سےلنگی لےکر اسےکمر کےگرد لپیٹ کر اپنی پتلون اتارنےلگا ۔ پھر واش بیسن کےپاس جاکر اس نےٹھنڈےٹھنڈےپانی کےچھینٹےاپنےچہرےپر مارےان چھینٹوں کےچہرےسےٹکراتےہی اس کےسارےجسم میں فرحت کا ایک جھونکا سا سرایت کرگیا ۔ پھر وہ دھیرےدھیرےمنہ ہاتھ دھونےلگا ۔
تولیہ سےمنھ ہاتھ پونچھتا وہ اپنی کرسی پر آبیٹھا اور بیوی سےپوچھنےلگا ۔ ” گڈو کہاں ہے؟
شاید ٹیوشن کےلئےگیا ہے۔“ بیوی نےجواب دیا ۔
جھوٹ بولتا ہےوہ “ بیوی کی بات سنتےہی وہ پھٹ پڑا ۔ ” وہ ٹیوشن کا بہانہ کرکےاِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے‘ ابھی راستےمیں ‘ میں اسےکیپٹول کےپاس اس کےدوچار آوارہ دوستوں کےساتھ دیکھ چکا ہوں ‘ اس کی ٹیوشن کلاس ناز کےپاس ہے‘ وہ کیپٹول کےپاس کس طرح پہنچ گیا ؟
ہوسکتا ہےٹیوشن جلدی چھوٹ گئی ہو اور وہ دوستوں کےساتھ گھومنےنکل گیا ہو۔“ بیوی نےبیٹےکی طرف داری کی ۔
اگر ٹیوشن کلاس سےجلدی چھٹی ہوگئی تو اسےگھر آنا چاہئیےتھا ‘ دوستوں کےساتھ آوارہ گردی کرنےکےلئےجانا نہیں چاہیئےتھا ‘ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی ٹیوشن سراسر فراڈ ہے‘ ٹیوشن کےبہانےوہ آوارہ گردی کرتا ہوگا اور ٹیوشن کی فیس دوستوں کےساتھ اڑا دیتا ہوگا ۔
اگر بیٹےپر بھروسہ نہیں ہےتو خود کسی دن ٹیوشن کلاس میں جاکر پتہ کیوں نہیں لگا لیتی؟“ بیوی نےتیز لہجےمیں کہا تو اس نےموضوع بدلا ۔
منی کہاں ہے۔ ؟
اپنی ایک سہیلی کےساتھ شاپنگ کےلئےگئی ہے۔
اس لڑکی کا باہر نکلنا اب کم کردو ۔ اب وہ چھوٹی بچی نہیں رہی ‘ بڑی ہوگئی ہی۔ سویرےجب میں ڈیوٹی پر جارہا تھا تو وہ کھڑکی میں کھڑی برش کررہی تھی اور نیچےدو تین لڑکےاسےدیکھ کر مسکرا رہےتھے‘ بھّدےریمارکس پاس کر رہےتھے۔ یہ محلہ شریفوں کےرہنےکےلائق ہی نہیں …….. “ وہ بڑبڑانےلگا ۔
چلو کھانا کھالو ۔ “ بیوی نےاس کا موڈ بدلنےکےلئےموضوع بدلنےکی کوشش کی ۔
ارےہاں چھوٹا کہاں ہےدکھائی نہیں دےرہا ہے۔
اپنےدوستوں کےساتھ کھیلنےگیا ہے۔
کہاں کھیلنےگیا ہوگا ؟ “ وہ جھنجلا کر بولا ۔ ” بچوں کےکھیلنےکےلائق کوئی جگہ بھی تو نہیں بچی ہے‘ چاروں طرف کانکریٹ کا جنگل آباد ہوگیا ہے۔تمہیں معلوم ہےکہ وہ اپنےدوستوں کےساتھ کرکٹ کھیلنےآزاد میدان جاتا ہے۔ ؟
رات کےآٹھ بج رہےہیں ‘ آزاد میدان میں سات بجےاندھیرا ہو جاتا ہےکیا وہ اب تک فلڈ لائٹ میں کرکٹ کھیل رہا ہوگا ۔ ؟
دیکھو تم بچوں کو آنےجانےکےلئےبس یا ٹیکسی کا کرایہ تو نہیں دیتےہو تو ظاہر سی بات ہےکہ آزاد میدان سےوہ پیدل ہی آرہا ہوگا اور آزاد میدان کوئی اتنےقریب نہیں ہےکہ پانچ دس منٹ میں کوئی گھر آجائے۔
سلطانہ ! میں تم سےبار بار کہتا ہوں کہ میں جب گھر آو

¿سنجیدگی سےلیتی ہی نہیں ہو ‘ آخر تمہارےدل میں کیا ہے‘ تم کیا چاہتی ہو ؟
دیکھو ! تم اگر بچوں کےباپ ہو تو میں بھی بچوں کی ماں ہوں ‘ تم سےزیادہ مجھےبچوں کی فکر رہتی ہےمجھےپتہ ہےاس شہر اور ہمارےاطراف کا ماحول اس قابل نہیں ہےکہ بچےزیادہ دیر گھر سےباہر رہنےپر بھی محفوظ رہیں لیکن کیا کروں بچےکوئی نہ کوئی ایسا کام بتا دیتےہیں کہ مجبوراً مجھےانہیں باہر جانےکی اجازت دینی ہی پڑتی ہے۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔ ” اب یہ بےکار کی باتیں چھوڑو اور کھانا کھالو ‘ پتہ نہیں دوپہر میں کب کھانا کھایا ہوگا ؟
ٹھیک ہےنکالو ۔ “ اس نےبھی ہتھیار ڈال دئے۔
وہ بظاہر اطمینان سےکھانا کھا رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بچوں میں لگا ہوا تھا ۔ یہ گڈو اپنےدوستوں کےساتھ اتنی دیر تک پتا نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہےمنی اپنی سہیلی کےساتھ شاپنگ کرنےگئی ہےابھی تک واپس کیوں نہیں آئی ؟ اسےاتنی رات گئےتک گھر سےباہر نہیں رہنا چاہیئےاور یہ چھوٹےکو کرکٹ کا جنون سا ہےاب کرکٹ کھیلنےکےلئےدو تین کلو میٹر دور آزاد میدان میں اور وہ بھی پیدل جانےمیں کوئی تُک ہے؟
جب وہ گھر سےباہر ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو بھی ایک لمحہ کےلئےگھر اور بچوں کا خیال اس کےذہن سےجدا نہیں ہوپاتا تھا ۔ گھر آنےکےبعد بھی اسےاس اذیت سےنجات نہیں مل پاتی تھی ۔ اگر بچےگھر میں اس کی نظروں کےسامنےبھی ہوتےتو وہ انہی کےبارےمیں سوچا کرتا تھا ۔
گڈو پڑھنےلکھنےمیں کافی اچھا ہے‘ کافی ذہین ہے۔ بارہویں پاس کرلےتو کوئی اچھی لائن میں ڈالا جاسکتا ہے‘ ڈاکٹر بنانےکی استطاعت تو اس میں نہیں ہے‘ ہاں کسی پالی ٹیکنک میں بھی داخلہ مل جائےتو وہ اسےپڑھا سکتا ہے۔ منی کی تعلیم کا سلسلہ ختم کردینا اس کی مرضی کےخلاف تھا لیکن اس کےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ‘ تیسری مرتبہ وہ میٹرک میں فیل ہوئی تھی پڑھنےلکھنےمیں وہ یوں ہی ہے۔ ہاں خوبصورتی میں وہ ماں سےبڑھ کر ہےاس کی شادی کی عمر ہےوہ جلد سےجلد اس کی شادی کرکےایک بڑےفرض سےسبکدوش بھی ہونا چاہتا ہےلیکن کیا کریں منی کےلئےکوئی اچھا لڑکا ملتا ہی نہیں ۔ ایک دو رشتےآئےبھی لیکن نہ تو وہ منیّ کےمعیار کےتھےنہ برابری کےاس لئےاس نےانکار کردیا ۔
چھوٹا پڑھنےمیں تیز تھا لیکن کرکٹ …. اُف ! یہ کرکٹ اسےبرباد کرکےرکھ دےگا ۔ جہاں تک سلطانہ کا سوال تھا دن بھر گھر کےکام خود اکیلی کرتی تھی ۔ گھر کےسارےکام ‘ بچوں کےکام اس کےبعد ایمبرائیڈری مشین پر بیٹھ جاتی تھی تو کبھی کبھی رات کےدو بج جاتےتھے۔
وہ اسےسمجھاتا تھا ۔ اسےدو بجےرات تک آنکھیں پھوڑنےکی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اتنا کما لیتا ہےکہ ان کا گذر ہوجائےلیکن وہ بھڑک کر جواب دیتی ۔
تمہاری عقل پر تو پردہ پڑا ہوا ہے۔ اگر میں تھوڑی محنت کرکےدو پیسےکما لیتی ہوں تو اس میں برائی کیا ہے؟ گھر میں جوان بیٹی ہےمیں اس کےلئےپیسےجمع کررہی ہوں ۔ بیٹی کی شادی کو معمولی کام مت سمجھو شادی تو ایک ایسا کاج ہےجس کےلئےسمندر کےپانی جیسی فراخی بھی کم پڑی۔
آفس میں کام کرتےہوئےوہ سب سےزیادہ سلطانہ کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ گھر میں اکیلی ہوگی اس نےدروازہ تو بند کر رکھا ہوگا …….. یا پھر کسی اجنبی کی دستک پر دروازہ کھول کر مصیبت میں پھنس جائےگی ۔
ایک دن پولس ایک مجرم کا تعاقب کرتی ان کےمحلےتک آگئی تھی ۔ مجرم پناہ لینےکےلئےان کی بلڈنگ میں گھس گیا ۔ اس نےان کےگھر پر دستک دی اور بےخیالی میں سلطانہ نےدروازہ کھول دیا ۔ اس مجرم نےفوراً چاقو نکال کر اس کےنرخرےپر رکھ دیا اور اسےدھمکاتا گھر میں گھس گیا ۔
خاموش ! اگر زبان سےذار سی آواز بھی نکلی تو گلا کٹ جائےگا ۔
وہ بہت دیر تک سلطانہ کا منھ دبائےاس کےگلےپر چاقو لگائےگھر میں چھپا رہا تھا ۔ پولس ساری بلڈنگ میں اسےڈھونڈتی رہی تھی۔ سلطانہ ایک دو بار مچلی تو تیز چاقو اس کےجسم سےلگ گیا اور جسم پر ایک دو جگہ زخم ہوگئےجن سےخون بہنےلگا ۔ بعد میں جب اس بدمعاش کو محسوس ہوا کہ پولس جاچکی ہےتو وہ سلطانہ کو چھوڑ کر بھاگا ۔ اسی وقت سلطانہ نےچیخنا شروع کردیا …….. سلطانہ کی چیخیں سن کر نیچےسےگزرتےپولس والےچوکنا ہوگئےاور انھوں نےاس بدمعاش کو گولی کا نشانہ بنا دیا ۔
بعد میں پولس کو پتہ چلا کہ وہ بدمعاش ان کےگھر میں چھپا ہوا تھا تو انہوں نےپنچ نامےمیں سلطانہ کا نام بھی درج کرلیا سلطانہ کےساتھ اسےکئی بار پولس اسٹیشن کےچکر کاٹنےپڑے۔ پولس الٹےسیدھےسوالات کرتی ۔
وہ بدمعاش گھر میں گھسا تو آپ چیخی کیوں نہیں ؟ وہ بدمعاش تمہارےہی گھر میں کیوں گھسا ؟ کیا تم لوگ

اس کو پہلےسےجانتےہو ؟ اس بدمعاش نےتمہارےساتھ کیا ‘ کیا کیا ؟ یہ جسم پر زخم کس طرح آئےتم نےمزاحمت کیوں نہیں کی ؟ تب سےروزانہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ آج بھی پھر اسی طرح کی کوئی واردات نہ ہوجائے۔
ایک بارمحلہ میں ہی پولس کا دن دہاڑےکسی گینگ سےانکاو

¿اُدھر بھاگ رہےتھے۔ اس وقت چھوٹا اسکول سےآیا بےخیالی میں وہ اس علاقےمیں داخل ہوگیا جہاں تصادم چل رہا تھا اس سےپہلےکہ صورت حال کا اسےعلم ہوتا اور وہ وہاں سےکسی محفوظ مقام کی طرف بھاگتا ایک گولی اس کےبازو کو چیرتی ہوئی گذر گئی ۔
خون میں لہو لہان ہو کر وہ بےہوش ہوکر زمین پر گر پڑا ۔ تصادم ختم ہوا تو کسی کی نظر اس پر پڑی اور اسی نےانہیں خبر کی اور اسےاسپتال لےجایا گیا ۔
گولی گوشت کو چیرتی ہوئی گذری تھی ‘ شکر تھا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا ‘ پھر بھی وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا اور بازو کا زخم بھرنےمیں پورا ایک مہینہ لگ گیا ۔
چھوٹا اچھا ہوگیا تھا لیکن اتنا کمزور اور دبلا ہوگیا تھا کہ پورےایک سال تک اس کی پرانی صحت واپس نہ آسکی ۔
ایک دن ترکاریاں خرید کر واپس آتی منی کو کسی غنڈےنےچھیڑ دیا اس وقت گڈو اسکول سےواپس آرہا تھا اس سےبرداشت نہیں ہوسکا اور وہ غنڈےسےالجھ پڑا ۔
گڈو بھلا اس غنڈےکا مقابلہ کیا کرتا غنڈےنےاسےزخمی کردیا کچھ لوگ اس کی مدد کو بڑھےتو غنڈہ بھاگ کھڑا ہوا لیکن گڈو زخمی ہوگیا تھا ۔
اس کےبعد پتا نہیں کیا بات اس کےذہن میں بیٹھ گئی کہ اس نےمحلےکےآوارہ بدمعاش لڑکوں سےدوستی کرلی اور اسکول سےآنےکےبعد وہ زیادہ تر انہی کےساتھ رہنےلگا ۔ ایک دوبار اس کےسمجھانےپر وہ اس سےبھی الجھ پڑا ۔
ابا ! آج کےزمانےمیں اپنی اور اپنےگھر والوں کی حفاظت کےلئےایسےلوگوں کےساتھ رہ کر ان کی مدد لینا بہت ضروری ہے۔ شرافت ‘ غنڈےاور بدمعاشوں سےہماری حفاظت نہیں کرسکتی ۔
گذشتہ چند سالوں میں کچھ ایسےواقعات ہوئےتھےکہ وہ ایک طرح سےٹوٹ سا گیا تھا ۔ گڈو رات کو دیر سےگھر آتا تھا ۔ دیر رات تک وہ آوارہ بدمعاش قسم کےلڑکوں کےساتھ رہتا تھا ۔ وہ اسےروکتا تو وہ الجھ پڑتا …….. صرف اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ اسکول باقاعدگی سےجاتا تھا اور پڑھائی میں بھی پہلےکی طرح دلچسپی لیتا تھا ۔
منی کو آوارہ بدمعاش لڑکےاس کےسامنےچھیڑتے‘ فقرےکستےتھے۔ سلطانہ بھی دبےلفظوں میں کئی بار اس سلسلےمیں اس سےکہہ چکی تھی جب وہ اپنےپڑوسیوں سےاپنےگھر کا مقابلہ کرتا تواسےکچھ اطمینان محسوس ہوتا تھا کہ اس کےبچےپڑوسیوں کےمقابلےکہیں زیادہ سیدھی راہ پر ہیں ۔
پڑوسیوں کےبچوں کا برا حال تھا ۔ کئی اچھےلڑکےتعلیم چھوڑ کر بری صحبت میں پڑنےکی وجہ سےغلطراستوں پر چل نکلےتھے۔ گلی میں کہیں چوری چھپےنشہ آور اشیاءبکتی تھیں کئی بچےان نشہ آور اشیاءکےعادی بن چکےتھے۔ کم عمری میں ہی کچھ لڑکےطوائفوں کےاسیر بن کر اپنی زندگی اور جوانیاں برباد کررہےتھے۔ غنڈہ گردی کےگلیمر نےکئی لڑکوں کو پھانس لیا تھا اور وہ اخلاقیات کےسارےدرس بھول کر مادہ پرستی کا شکار ہوگئےتھے۔
لڑکیوں کی ایک عجیب ہی دنیا تھی ۔ زیادہ تر لڑکیاں گلیمر کا شکار تھیں اور اس گلیمر کو حاصل کرنےکےلئےبھٹک چکی تھیں اس بھٹکنےمیںبھی انہیں کوئی ندامت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ جیسےاخلاقیات ‘ اقدار اب ایک داستان پارینہ ہو ۔
جب وہ اپنےماحول پر نظر ڈالتا تو کبھی کبھی یہ سوچ کر کانپ اٹھتا تھا وہ اور اس کےبچےبھی اسی ماحول میں رہ رہےہیں ۔ اس کےبچےبھی کبھی بھی ا س ماحول کےاسیر بن کر ان برائیوں کا شکار بن سکتےہیں ۔ جب کبھی تصور میں وہ اس بارےمیں سوچتا تو اسےاپنےسارےخواب ٹوٹ کر بکھرتےمحسوس ہوتےتھے۔ اس سلسلےمیں سلطانہ بھی اس کی طرح فکر مند تھی اور وہ اکثر اس سےدبےلفظوں میں کہا کرتی تھی ۔
سلیم ! خدا کا شکر ہےہمارےبچےآج تک اس گندےماحول سےبچےہوئےہیں لیکن ڈرتی ہوں اگر اس ماحول نےانہیں بھی اپنی لپیٹ میں لےلیا تو ؟ اس کا کیا علاج ہوسکتاہے؟
ایک ہی علاج ہے‘ ہم یہ جگہ چھوڑدیں ۔
کہاں جائیںگے؟ہمیں اس شہر میں تو سر چھپانےکےلئےکوئی جگہ ملنےسےرہی ہمارےپاس اتنےپیسےبھی نہیں ہیں کہ ہم کہیں دور کوئی جگہ لےسکیں ۔
کہیں بھی چلو ۔ چاہےوہ جگہ جہاں ایسا ماحول نہ ہو شہر سےپچاس کلو میٹر دور ہو ‘ مجھےکوئی شکایت نہیں ہوگی لیکن اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےاب یہ ہجرت لازمی ہوگئی ہے۔ مسئلہ تمہاری نوکری کا ہےتمہیں آنےجانےمیںتھوڑی تکلیف تو ہوگی لیکن کیا اپنی اولادکی بھلائی کےلئےتم اتنی تکلیف نہیں اٹھا سکتی؟
میں اپنی اولاد کی بھلائی کےلئےہر تکلیف اٹھاسکتا ہوں ۔
پھر کچھ سوچو ‘ اس ماحول سےنکلنےکےلئےکوئی قدم اٹھاو

¿
ہاں میں ضرور کوئی قدم اٹھاو

¿
ایک دن وہ آیا تو بہت خوش تھا ۔ آتےہی سلطانہ سےکہنےلگا ۔ ” سلطانہ ! نےپہلا قدم رکھ لیا ہے‘ میں نےایک جگہ فلیٹ بک کرلیا ہےوہ جگہ یہاں سےپچاس کلو میٹر دور ہےلیکن وہاں پر یقیناً یہاں سی گندگی نہیں ہوگی ۔ “ یہ کہتےہوئےوہ سلطانہ کو ساری بات سمجھانےلگا ۔
بہت بڑی کالونی بن رہی ہےمعمولی رقم پر وہاں فلیٹ بک ہوگیا ہے۔ پیسےقسطوں میں ادا کرنےہیں ابھی پوری کالونی تیار ہونےمیں دو سال لگیں گے۔ تب تک ہم پیسےادا کردیں گےیا جو باقی پیسےہوں گےاس کمرےکو فروخت کرکےبےباق کردیں گے۔
دونوں کی آنکھوں کےسامنےایک خوبصورتبستی کا خواب تھا ۔ خوبصورت عمارتیں ‘ چاروں طرف پھیلی ہریالی ‘ مسجد ‘ مدرسہ ‘ باغ ‘ اسکول ‘ کشادہ صاف سڑکیں اور کھلی کھلی آب و ہوا جن میں گھٹن کا نام و نشان نہیں ۔
انہوں نےبچوں کو بھی اس بستی کےبارےمیں بتایا تھا ۔ بچوں نےان کےاس خواب کےبارےمیں اپنا کوئی ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا تھا ۔
ایک دوبار سلطانہ نےدبےلفظوں میں کہا بھی تھا ۔
بچےیہاں پیدا ہوئےپلےبڑھےہیں ۔ انہیں اس جگہ سےانسیت ہوگئی ہےممکن ہےوہ یہاں سےجانےسےانکار کردیں ۔ آخر ان کےدوست احباب تو یہاں رہتےہیں ۔
بچوں کو ہر حال میں یہاں سےجانا ہوگا ۔ آخر یہ سب ہم اپنی خوشی کےلئےنہیں ان کی بھلائی کےلئےکر رہےہیں ۔
ان دنوں وہ جس اذیت کا شکار تھا ۔ اس کےآفس میں کام کرنےوالا اکبر بھی دو سال قبل اسی اذیت کےدور سےگذر رہا تھا ۔ اکبر کا بھی وہی مسئلہ تھا جو اس کا مسئلہ تھا ۔ اکبر نےبھی وہی حل اور راستہ نکالا تھا جو اس نےنکالا تھا ۔
کچھ دنوں قبل وہ بھی شہر سےدور نئی آباد ہونےوالی بستی میں جا بسا تھا ۔ اس جگہ آباد ہونےکےبعد وہ بہت خوش تھا ۔
سلیم بھائی ساری فکروں اور خدشات سےنجات مل گئی ہے۔ سمجھ لیجئےاب بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگیا ہے۔
اس کےذہن میں بار بار اکبر کی وہ بات گونجتی تھی ۔جب بھی وہ اکبر کی اس بات کےبارےمیں سوچتا تھا ۔ یہ سوچ کر اپنا دل بہلاتا تھا کہ ایک سال بعد تواسےبھی اکبر کی طرح ایک نئی آباد ہونےوالی بستی میں بسنا ہے۔ ایک سال بعد اس کےہونٹوں پر بھی وہی کلمات ہوں گے۔ بس ایک سال اور اس جہنم میں گذار کر خود کو اس جہنم سےمحفوظ رکھنا ہے۔
دن گذر رہےتھے۔ اور اچھےدن قریب آرہےتھے۔ اس جگہ سےہجرت کرنےکےدن جیسےجیسےقریب آرہےتھےویسےویسےبچوں ، گھر ، بیوی کےبارےمیں اس کی فکریں زیادہ ہی بڑھتی جا رہی تھیں وہ ان کےبارےمیں کچھ زیادہ ہی سوچنےلگا تھا ۔
اس دن آفس کینٹن میں اکبر کےساتھ لنچ لیتےہوئےاس نےاکبر کو متفکر پایا تو پوچھ بیٹھا ۔
کیا بات ہےاکبر بہت پریشان لگ رہےہو ؟
کیا بتاو

¿! ساری تدبیریں اور منصوبےغلط ثابت ہوگئےہیں ۔
کیا بات ہےتمہیں کس بات کی فکر ہے؟
جن بچوں کےمستقبل کو بچانےکےلئےشہرسےدور سکونت اختیارکی تھی وہاں جانےکےبعد بھی بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہوسکا ہے۔ یہاں کےماحول سےوہ بچ گئےتو وہاں پرایک نئےاور عجیب ماحول میں رم رہےہیں ‘ اونچےخواب ‘ اونچی سوسائٹی کےعادات و اطوار ‘ اسی سوسائٹی میں ڈھلنےکی کوشش ۔ بنا یہ جانےکہ ہماری اس سوسائٹی کےطور طریقوں میں ڈھل کر رہنےکی بساط نہیں ہے۔ کنزیومر کلچر ان پر حاوی ہورہا ہے‘ سیٹیلائٹ کلچر اور اس کےذریعہ پھیلنےوالےافکار کےوہ مرید بن رہےہیں ‘ مادہ پرستی ان میں بڑھتی جاری ہے‘ اقدار کا ان میں فقدان ہورہا ہے‘ پہلےوہ جن افکار میں ڈھلنےوالےتھےوہ افکار مجھےپسند نہیں تھےاس لئےمیں انہیں اس جگہ سےدور لےگیا لیکن وہاں وہ جن افکار میں ڈھل رہےہیں مجھےوہ بھی پسند نہیں ہے۔
وہ اکبر کی بات سن کر سناٹےمیں آگیا ۔
ایک سال بعد اسےبھی تو وہاں جانا ہے۔ اگر وہاں اس کےساتھ بھی ایسا ہوا تو اس کی اس ہجرت کا کیا فائدہ ؟
اسےمحسوس ہوا جیسےوہ ایک مدار پر گردش کررہا ہی۔ کسی ناپسندیدہ مقام سےوہ چاہےکتنی دور بھی جانا چاہےلیکن اسےواپس لوٹ کر اسی جگہ آنا ہے۔

از:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Stroy Dahshat Ka Ek Din By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Dahshat ka Ek Din, M.Mubin, Short Story, Urdu

0 comments:

Post a Comment


About this blog

Followers