Urdu Short Stories By M.Mubin Part Three


 

ہوش میں آنےکےباوجود اُسےاحساس نہیں ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہےیا نہیں ؟
آنکھوں کےسامنےتاریکی چھائی ہوئی تھی اور سارا جسم درد سےبھرا پھوڑا محسوس ہورہا تھا ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسےسارا جسم پٹیوں سےجکڑا ہے۔ آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔ وہ آنکھیں کھولنےکی کوشش کر رہا تھا لیکن آنکھیں کھولنےمیں کامیاب نہیں ہوپارہا تھا ۔ اکثر ایسا محسوس بھی ہوتا کہ آنکھیں کھل گئیں تو بھی آنکھوں کےسامنےتاریکی چھائی رہتی ۔
یہ تاریکی نہ تو زندگی کی دلیل تھی اور نہ ہی موت کی علامت ! اگر وہ زندہ تھا تو پھر یہ چاروں طرف تاریکی کیوں چھائی ہے؟ اور اگر مرچکا ہےتو اُس کےجسم میں احساس کیوں زندہ ہے؟ اُسےکیوں محسوس ہورہا ہےکہ اُس کا سارا جسم دہکتا ہوا انگارا بنا ہوا ہے۔ اور سارا جسم پٹیوں سےڈھکا ہے۔
اُسےعلم تھا کہ وہ مرچکا ہے۔
اِتنا مار کھانےکےبعد اُس کا زندہ رہنا نا ممکن تھا ۔
چار پانچ سو لوگوں کےمجمع نےاُسےجانوروں کی طرح مارا تھا ۔ اُس پر لاتوں ، گھونسوں سےوار تو کئےتھےساتھ ہی ساتھ اپنےہتھیار بھی آزمائےتھے۔
ترشولوں سےاُس کےجسم کو کئی جگہ چھیدا گیا تھا ۔ خنجر اُس کےجسم میں اُتارےگئےتھے۔ لاٹھی ، ہاکی سےاُس کےسر پر وار کئےگئےتھے۔ اُس کےزمین پر گرنےکےبعد مجمع اُسےاپنےپیروں سےکچل رہا تھا ۔ اِس کےبعد اُس کا زندہ رہنا تو نا ممکن ہی تھا ۔
لیکن پھر بھی !اِس کےجسم میں احساس جاگا تھا ‘ اُس کا ذہن کام کرنےلگا تھا ۔ وہ مرگیا ہوتا ۔ وہ سوچ رہا تھا اور اِس وقت وہ قبر میں ہے‘ یہ قبر کی تاریکی ہےاور اُس کا جسم جو دُکھ رہا ہےیہ منکر نکیر کےگرجو کی مار کی وجہ سےدُکھ رہا ہے، وہ مسلمان ہےاپنےآپ کو وہ نیک مسلمان مانتا ہی نہیں ہے۔ ہفتہ میں ایک بار صرف جمعہ کو نماز پڑھتا تھا ‘ رمضان میں کچھ روزےرکھ لیتا تھا اور کبھی کبھی قرآن کریم کی تلاوت کرلیتا تھا ۔ ہاں اُس کےدل میں ایمان ضرور تھا کہ وہ مسلمان ہےلیکن صرف اِس بنیاد پر اُسےقبر کےعذاب سےنجات مل جائےگی ‘ اِس بات کا یقین تو اُسےبھی نہیں تھا ۔ اس لئےہوش میں آنےکےبعد وہ خود کو قبر میں محسوس کرنےلگا۔ لیکن اِس کےپاس سےجوآوازیں بلند ہورہی تھیں اُسےاِس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ وہ قبر میں نہیں ہے۔ چاروں طرف سےلوگوں کی کراہوں ، چیخوں کا شور اُبھر رہا تھا ۔ ” ڈاکٹر صاحب میں مرا ، میرا سارا جسم دُکھ رہا ہے، یہ درد مجھ سےبرداشت نہیں ہورہا ہے، ڈاکٹر صاحب آپ نےمجھےکیوں بچالیا ہے، مجھےبھی مرنےدیتے‘ اب میرا دُنیا میں کوئی بھی نہیں بچا ‘ میں جی کر کیا کروں گا ، کس کےلئےجیوں گا ؟
ڈاکٹر صاحب ! بیڈ نمبر ٤٣ کےمریض کی حالت بہت خراب ہے ! ڈاکٹر صاحب ! یہ کیا ہورہا ہے‘ لوگ زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں ، ایک ایک سانس کےلئےلڑ رہےہیں اور آپ اُن پر توجہ دینےکی بجائےنرسوں سےخوش گپیّوں میں لگےہوئےہیں ؟ “ یہ آوازیں قبر سےنہیں اُٹھ سکتی تھیں ۔ حلق میں کانٹےسےپڑےہوئےتھےاور ہنوٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں ۔ بڑی مشکل سےاُس نےاپنی گیلی زبان سےہونٹوں کو ‘ تھوڑا سا تھوک نگل کر اپنےحلق کو تر کرنےکی کوشش کی ۔
مَیں کہاں ہوں ؟ بڑی مشکل سےاُس کےہونٹوں سےتین لفظ نکل پائے۔
تم اسپتال میں ہو اور پورےچار دِنوں کےبعد تمہیں ہوش آیا ہے۔ “ اُس کےقریب سےایک نسوانی آواز اُبھری۔ اِس ایک آواز کےساتھ ہی طوفانی رفتار سےاُس کےذہن نےسب کچھ سوچ کر سارےحالات کا اندازہ لگا لیا ۔ تو وہ زندہ بچ گیا ہے۔ معجزہ ! اِتنا ہونےکےبعد تو وہ زندہ بچ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھر بھی زندہ بچ گیا ہے‘ یہ معجزہ ہے۔ اور اِس وقت اسپتال میں ہےشاید صحیح وقت پر وہ اسپتال میں پہونچ گیا اِس لئےزندہ ہے۔
مگر مَیں یہاں کیسےآیا ؟
تُم اِن ہزاروں لوگوں میں سےایک جو شہر کےمختلف اسپتالوں میں اِسی حالت میں آئےتھےاور زندہ بچ گئے۔ تمہارا سارا جسم زخموں سےبھرا ہےچہرےپر بھی گہرےزخم ہیں اِس لئےہم نےتمہارا سارا جسم پٹیوں سےڈھانک دیا ہےاور چہرہ بھی پٹیوں سےباندھ دیا ہے، تمہاری آنکھیں سلامت ہیں یا نہیں یہ تو پٹیاں کھلنےکےبعد ہی معلوم ہوگا ۔
مجھےکچھ دِکھائی نہیں دےرہا ہے، گہری تاریکی ہے۔ کبھی کبھی ہلکی سی سُرخی لہرا جاتی ہےیا پھر ایک دودھیا روشنی ۔
مبارک ہو ‘ اِس کا مطلب ہےتمہاری آنکھیں سلامت ہیں ۔ تمہارےزخم بھی بڑی تیزی سےبھر رہےہیں ۔ بھگوان نےچاہا تو تم بہت جلد اچھےہوجاو
¿
گے۔
نرس کی بات سن کر اُس کےاندر پھر سےجینےکی ایک نئی آرزو جاگ اُٹھی ‘ وہ مرا نہیں ، وہ زندہ ہی۔ شاید اُس کی آنکھیں بھی سلامت ہیں ، جسم کےزخم بھی اچھےہورہےہیں ۔ وہ بہت جلد اچھا ہوجائےگا ‘ چلنےپھرنےکےقابل ہوجائےگا اور اپنےگھر جاسکےگا ۔
گھر “ اِس بارےمیں سوچ کر وہ اور اُداس ہوگیا ۔
گھر اب کہاں بچا ہے۔ وہ تو اِس کی آنکھوں کےسامنےجل کر راکھ ہوگیا تھا ۔ گھر کا کوئی بھی فرد بھی تو نہیں بچا تھا ۔ اُس نےاپنی آنکھوں سےاپنےہی گھر کی چتا میں اپنی بیوی بچوں کو جلتےدیکھا تھا ۔ اُس نےآگ میں لپٹی اپنی بیوی کی آخری چیخ اپنےکانوں سےسنی تھی ۔ جلتی آگ سےنکل کر وہ آگ سےباہر آنےکی کوشش کر رہی تھی اور جلتےگھر کےگرد بھیڑ نےجو گھیرا بنا رکھا تھا اُن کےہاتھوں کی لکڑیاں ، ترشول ، بھالےبیوی کو دوبارہ آگ میں دھکیل رہےتھے۔
ماحول میں انسانی جسموں کےجلنےکی سر پھاڑ دینےوالی بدبو تھی ۔ اِس بدبو میں شاید اُس کےبچوں کےجسم کی بدبو بھی شامل تھی ۔ وہ اُس سےزیادہ نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ کسی کی نظر اُس پر پڑی تھی ۔
ارے ! یہ یہاں کس طرح پہونچ گیا ، یہ کیسےزندہ بچ گیا ؟ مارو اِسےمارو ۔ اُسےدیکھ کر کوئی چیخا تھا اور اُس کےبعد پورا مجمع اُس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔
اُسےاپنےگھر والوں اور گھر کےبچنےکی آس تو قطعی نہیں تھی ۔ جو منظر اُس نےاپنی آنکھوں سےدیکھا تھا اُس کےبعد تو اُسےیقین ہورہا تھا کہ پورا محلہ نہیں بچا ہوگا ۔ پورےمحلےمیں نہ تو کوئی گھر باقی بچا ہوگا اور نہ کسی گھر کا کوئی مکیں ۔ وہ زندہ تو بچ گیا یہ معجزہ تھا کیوںنہ وہ گھر سےباہر چلا گیا تھا اگر وہ گھر میں ہوتا تو زندہ جل کر راکھ بن جاتا ۔ ویسےاُسی دن بیوی اُسےباہر جانےسےروک رہی تھی ۔
گھر سےباہر مت جاو
¿
۔ ٨٥ لوگوں کو زندہ جلانےکےاحتجاج میں شہر بند ہے‘ بند کےدوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بند ، بند کی طرح ختم ہوجائےگا ۔ دوکانیں وغیرہ بند رہیں گی ، لوگ اِدھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کریں گےاور دن گذر جائےگا ۔ لیکن ہماری روزی کا کیا ہوگا ۔ اگر میں کام پر نہیں گیا تو کل ہمارےگھر چولہا نہیں جلےگا ۔ پھر بھی تم فکر مت کرو ‘ اگر مجھےایسا محسوس ہوا کہ خطرہ ہےتو میں واپس گھر آجاو
¿
ں گا ۔ “ اور وہ کام کی تلاش میں گھر سےنکل پڑا تھا ۔
ایک دو گھنٹےکےبعد جب اُسےکوئی کام نہیں ملا تو اُسےمحسوس ہوا ‘ اُس نےگھر سےنکل کر غلطی کی ہے۔ پورا شہر بند تھا اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے۔ایسےمیں کوئی کام ملنےسےتو رہا ۔ اِس کےبعد اُسےشہر کےآسمان پر کالےکالےدھوئیں کو دیکھ کر اُس کا دل دھڑک اُٹھا ۔ ابھی صورتِ حال کا اُس نےاندازہ نہیں لگایا تھا ۔ جو مناظر اُس نےدیکھےتھےاُن سےوہ ڈر گیا تھا ۔
سینکڑوں کا مجمع ٹولیاں بنا بنا کر سڑکوں پر گشت کر رہا تھا ۔ وہ ہتھیاروں سےلیس تھےجس دوکان کو چاہتےتوڑ کر اُسےنذرِ آتش کردیتے۔ جس کسی آدمی کو چاہتےاُس پر ٹوٹ پڑتےاور ایک لمحہ میں اُسےمار کر جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیتے۔
گھر جل رہےتھے۔دوکانیں لوٹی اور جلائی جا رہی تھیں۔ لاشیں گر رہی تھیں لوگ جانیں بچا کر
بھاگ رہےتھی۔ قاتل ان کلا تعاقب کر رہےتھی۔ اور بھاگتےلوگوں کو گھیر کر قتل کر رہےتھی۔ جو مزاحمت کرتےاس کی مزاحمت کا جواب دیتےاور پھر اس کی لاش کےچتھڑےاڑادیتی۔
ایسا لگتا جیسےجنگل راج آگیا تھا۔ ہر فرد وحشی درندہ بن گیا تھا اور ایسی حرکتیں کر رہا تھا جو وحشی درندےبھی نہیں کر سکتےہیں۔ ایسےایسےمناظر سامنےدکھائی دےرہےتھےجو آج تک نہ فلموں ،یا ٹی وی پر دیکھےتھےاور نہ ہی کتابوں میں پڑھےتھے۔
یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں یہ حال ہی۔تو میرےمحلےکا کیا حال ہوگا؟ میرےبیوی ، بچےکس حال میں ہوں گے؟ تو ہم پر رحم کر ، انھیں محفوظ رکھ۔
سوچتا ہوا۔ وہ قاتلوں ، وحشیوں کےدرمیان سےخود کو بچاتا اپنےمحلےکی طرف بھاگا۔
بھیڑ وحشیانہ نعرےلگا رہی تھی ۔
مارو ۔کاٹو۔کوئی بھی زندہ نہ بچنےپائے۔
خون کا بدلہ خون ۔ ان کا نام و نشان زمین سےمٹا ڈالو۔
اپنی طاقت بتا دو۔ ایک ایک کےبدلےہزار ہزار کی جان لو۔
ان وحشیوں سےبچتا وہ کسی طرح اپنےمحلےمیں آیا تو وہ بھی اس کی آنکھوں کےسامنےوہی منظر تھےجو راستہ بھر وہ دیکھتا ہوا آیا تھا۔
پورےمحلےمیںوہی وحشیوں کا ننگا ناچ چل رہا تھا۔
مجمع میں شامل وہ ایک ایک فرد کو حیرت سےدیکھ رہا تھا۔
اس مجمع کےایک ایک فرد کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔
سیاسی ورکر تھی‘سیاسی لیڈر ‘مذہبی رہنما‘کٹّر مذہب پرست‘عام آدمی سبھی تواس مجمع میں شامل تھی۔اور وہ وحشیت بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہےتھی۔مظلوم مدد کےلیےپکار رہےتھی۔ لیکن کوئی بھی ان کی مدد کوآگےنہیں بڑھ رہا تھا۔ چپ چاپ کھڑےتماشہ دیکھ رہےتھی۔بربریت کا ایسا تماشہ جسکاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن بڑےاطمینان سےوہ اس بربریت دیکھ رہےتھے۔ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی جانور وحشی درندہ بن گیا ہی۔کسی میں بھی ذرا سی بھی انسانیت باقی نہیں تھی۔
اگر ذرا سی بھی انسانیت باقی ہوتی تو وہ اسکےخلاف احتجاج کرتا ‘وحشیوں کو ایسا کرنےسےروکتا یا کم سےکم ان مناظر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں پھیر لیتا۔
اس سےآگےنہ تو وہ کچھ سوچ سکا اور نہ ہی کچھ دیکھ سکا۔
کسی کی نظر اس پر پڑی اور وہ اس کا نام لیکر چیخی۔ اور پھر ان وحشیوں کا پورا مجمع اس پر ٹوٹ پڑا۔اس کےبعدنہ تو کسی کےزندہ رہنےکی توقع کی جاسکتی ہےنہ آس لگائی جاسکتی ہے۔
نرس ! نوٹیا کا کیا حال ہے۔ “ اُس نےنرس سےپوچھا ۔
تم اُس محلےمیں رہتےتھے؟ ہےبھگوان ! وہاں تو بہت برا حال ہے، وہاں پر ٠١١ لوگوں کو زندہ جلا یا گیا ہےاور پورا محلہ جلا کر خاک کردیا گیا ہے۔
نرس کی باتیں سن کر اُس کی پٹیوں میں چھپی آنکھیں بند ہوگئیں ۔
نرس کی اِس بات سےاُس کی آخری اُمید بھی ٹوٹ گئی تھی ۔ اِس کےبعد اُسےاپنےمحلےاور گھر والوں کےبارےمیں سوچنےکےلئےکچھ بھی نہیں بچا تھا ۔
دس دنوں بعد وہ بستر پر اُٹھ کر بیٹھنےکےقابل ہوگیا ۔
آنکھوں کی پٹیاں کھل گئی تھیں وہ اچھی طرح سب کچھ دیکھ سکتا تھا ۔ اُس کا پورا چہرہ زخموں سےبھرا تھا ، سارا جسم زخموں سےچور تھا لیکن زخم بھرنےلگےتھے۔ صرف جو گہرےزخم تھےاُن میں رُک رُک کر ہلکی ہلکی ٹیس اُٹھتی رہتی تھی ۔
اِس دوران ہزاروں کہانیاں اُس نےسنی تھیں ۔ وہ کہانیاں اُس بربریت سےبھی زیادہ ہولناک تھیں جو اُس نےاپنی آنکھوں سےدیکھی تھی ۔
اسپتال میں اُس کی طرح سینکڑوں افراد تھے۔ ادھ مرے، زندگی کی چاہ میں زندگی سےجنگ کرتے، دل میں جینےکی آرزو لئے‘ یہ درد کو سہنےکی کوشش کرتےلوگ ۔ ہر کسی کی کہانی اُس سےملتی جلتی تھی ۔ ہر کسی نےیا تو اپنا پورا خاندان کھویا تھا یا پھر گھر بار ۔
پولس آکر اُس کا بیان لےگئی تھی ۔ سیاسی لیڈر آکر اُسےتسلیاں دےگئےتھے۔ لیڈر ہر کسی کو تسلیاں دیتےتھے۔ پولس بار بار آکر اُن کےبیان لیتی تھی ۔ وہاں پر کئی پولس والےڈیوٹی پر متعیّن تھے۔ وہ جیسےاُن پر نگرانی رکھ رہےتھے۔
ایک دن اچھی طرح چیک اپ کرنےکےبعد ڈاکٹر نےاُس سےکہا ۔
اب تم چاہو تو اپنےگھر جاسکتےہو ۔ جو زخم باقی ہیں وہ جلد ہی بھر جائیں گے۔ آٹھ دن میں ایک بار آکر اِن زخموں کی مرہم پٹی کرا لیا کرنا ۔

ڈاکٹر نےتو کہہ دیا کہ وہ گھر جاسکتا ہےلیکن گھر بچا ہی نہیں ہےتو وہ کون سےگھر جائے۔ اِس سےاچھا ہےکہ وہ یہیں اسپتال میں لاوارثوں کی طرح پڑا رہے۔
لیکن وہ زیادہ دنوں تک وہاں نہیں رہ سکا ۔
ایک دن پولس آکر اُسےاسپتال سےاُٹھا لےگئی اور اُسےحوالات میں ڈال دیا ۔
حوالات کےاِس کمرےمیں وہ پچاس لوگوں کےدرمیان تھا ۔ اِن پچاس لوگوں میں کچھ کی حالت اُس کی سی تھی ، کچھ لوگ اچھی حالت میں تھے۔
انسپکٹر صاحب ! مجھےیہاں کیوں لایا گیا ‘ مجھےحوالات میں کیوں ڈالا گیا ہے؟ “ وہ چیخا ۔
دنگا کرنےکےالزام میں تجھےحوالات میں ڈالا گیا ہے۔ تیرےمحلےکےپڑوس کےمحلےکی شانتی بین چال پر تم لوگوں نےحملہ کیا تھا اور چال کو آگ لگا دی تھی اور دس لوگوں کو زندہ جلا دیا تھا ۔
انسپکٹر صاحب ! بھلا مَیں کسی پر حملہ کس طرح کر سکتا ہوں ۔ کس طرح کسی کو زندہ جلا سکتا ہوں؟ خود میرا گھر بار جلا دیا گیا ، میرےبیوی بچوں کو میری آنکھوں کےسامنےزندہ جلا دیا گیا مجھےمار مار کر ادھ مرا کردیا گیا ہے۔ پھر میں یہ بھیانک جرم کیسےکرسکتا ہوں ؟ “ وہ چیخا ۔
اےکاہےکو چیخ رہا ہے؟ اپنا گلہ پھاڑ پھاڑ کر تُو رات دن بھی چیختا رہےتو بھی تیرےچیخنےکا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوگا ‘ ایک بار اُنھوں نےجو الزام لگا دیا ‘ وہ پتھر کی لکیر ہے۔ اب فساد ، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کےجرم میں سات آٹھ سال اندر رہ کر عدالت میں خود کو بےگناہ ثابت کر تبھی یہاں سےنکل پائےگا ۔
تب اُس کو پتہ چلا کہ اِس کمرےمیں جتنےلوگ ہیں اُن میں سےزیادہ تر لوگ بےگناہ ہیں ‘ اُنھیں شہر کےمختلف علاقوں سےپکڑ کر لا کر اِس حوالات میں ٹھونس دیا گیا ہےاور اُن پروہ الزام لگا دئےگئےہیں ۔
اِس کےبعد تو اُس کےدل میں حوالات سےنکلنےکی کوئی اُمید باقی نہیں رہی ۔ ایک دن کوئی سیاسی لیڈر پولس اسٹیشن آیا ۔ حوالات میں آکر وہ اُن سےملا ۔ اُس نےاُن کی ساری باتیں سنیں اور باہر جاکر پولس پر گرجنےلگا ۔
یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ لٹے، تباہ حال لوگ جو اُس وحشیانہ فساد میں اپنا سب کچھ لٹا چکےہیں اُن کےساتھ جو وحشیانہ سلوک جن فسادیوں نےکیا وہ تو آزاد ہیں پولس نےاُن کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کی ۔ اُن مظلوم لوگوں کو فسادی بنادیا گیا ہے۔ میں کل ہی اِس کےبارےمیں پارلمینٹ میں آواز اُٹھاو
¿
ں گا اور وزیر داخلہ سےاِس بارےمیں جواب طلب کروں گا ۔
اُس کی بات سن کر پولس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑنےلگیں ۔
اگر ایسا ہوا تو جواب دینا مشکل ہوجائےگا ۔ ہم اُن لوگوں پر کیس تو بنا چکےہیں ۔ اُنھیں اِس وقت چھوڑ دیا جائےجب معاملہ ٹھنڈا ہوجائےپھر اُٹھا لیں گیا اور ہمارےسروں سےیہ مصیبت بھی ٹل جائےگی ۔
اور اُنھیں راتوں رات چھوڑ دیا گیا ۔
اب وہ شہرمیں تنہا تھا ۔ بےیار و مدد گار بےامان ۔
نہ تو اُس کا کوئی ساتھی نہ رشتہ دار تھا ‘نہ اُس کےسر پر کوئی چھت تھی ۔
اپنےجلےگھر کی راکھ کو صاف کرکےاُس نےایک کونےمیں اتنی جگہ بنا لی تھی جہاں وہ ریلیف میں ملا کمبل بچھا کر سو سکتا تھا ۔ آنکھ کھلتی تو اُسےاپنےچاروں طرف وہی شناسا چہرےدکھائی دیتےجنھوں نےاُس کےگھر اور اُس کےبیوی بچوں کو جلایا تھا ۔
وہ اُسےدیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکراتےتھے۔ وحشیانہ ہنسی ہنستےتھےجن کو سن کر اُس کا دل دہل جاتا تھا ۔ بڑےآرام سےوہ اپنےکام دھندوں میں لگےہوئےتھے۔ اپنی دوکانوں پر بیٹھےقہقہےمار کر باتیں کرتےتھے۔ اپنی پارٹی کےجلسوں اور مذہبی جلسوں میں جوش و خروش سےکرتن بھاشن کرتےتھے۔ وہ ایک ایک چہرےکو اچھی طرح جانتا تھا ۔
اُس نےجلتی ہوئی بیوی کےسینےمیں ترشول مار کر اُسےدوبارہ آگ میں دھکیلا تھا ۔ اُس نےاُس کےجسم پر کئی جگہ ترشول گاڑھےتھے، اُس نےاُس کےسر پر ہاکی ماری تھی ، اُس نےاُس کےجسم پر خنجر مارا تھا ، اُس نےاُس جگہ آگ لگائی تھی ، اُس نےوہ دوکان لوٹی تھی ۔
لیکن وہ سب آزاد تھے۔
پولس اُسےبار بار پولس اسٹیشن طلب کرتی اور پتہ نہیں کن کن کاغذات پر اُس کےدستخط لیتی ۔ دن بھر اُس کا پولس اسٹیشن یا کورٹ میں گذرتا ۔
اور قاتل ، وحشی اپنےاپنےگھروں ، محلوں ، دوکانوں میں رہتے۔ وہ خود کو قاتلوں کےدرمیان گھرا ہوا پاتا ۔ اُس کےچاروں طرف قاتل بکھرےہوئےتھےجو آزاد تھے۔
ایک بار وہ اُن سےبچ گیا لیکن اگر اُنھیں دوبارہ اِس طرح کا موقع ملےتو کیا وہ بچ پائےگا ؟

٭٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Be Amman By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Be Amman, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسا نہ بےاماں از:۔ایم مبین

رات دو بجےکےقریب ریلیف کیمپ پرحملہ کرنےکی کوشش کی گئی تھی جس سےکیمپ میں مقیم تمام پناہ گزیں خوف اور سکتےمیں آگئےتھے۔
حملہ آور کتنےاور کون تھے؟کچھ پتا نہیں چلا تھا۔وہ رات کےاندھیرےمیں آئےتھےاور ریلیف کیمپ کےباہر اُنھوں نےاشتعال انگیز نعرےلگائےتھےاور پتھراو

¿ کیا تھا ۔
جےشری رام ، جےشری رام ! “
آبادی بڑھانےکےکارخانےبند کرو ، بند کرو ۔
پاکستان پہونچا دیں گے، قبرستان پہونچا دیں گے۔
کیمپ میں کوئی حفاظتی دستہ تو تعینات نہیں تھا ‘ کبھی کبھار ایک آدھ سپاہی آکر کیمپ میں چکّر لگا جاتا تھا ۔ اس وقت وہ بھی غائب تھا ۔ نعروں کی آواز سےپورےکیمپ میں دہشت پھیل گئی ۔
ہر فرد جاگ گیا ۔
اب آگےکیا ہونےوالا ہےاس کےبارےمیں سوچ کر ہر فرد دہشت زدہ تھا ۔
کچھ دِنوں قبل جو کچھ ان کےگھروں میں ، ان کےمحلوں میں ان کےساتھ ہوا تھا اب ایسا محسوس ہورہا تھا ‘ وہی سب کچھ اِس ریلیف کیمپ میں بھی ان کےساتھ ہونےوالا ہے۔ جہاں وہ دو ماہ سےاپنےآپ کو محفوظ محسوس کر رہےتھے۔
لگتا ہےشرپسندوں نےکیمپ پر حملہ کردیا ہے۔ اگر اِنھیں روکا نہیں گیا تو وہ اندر گھس آئیں گےاور وہی سب کچھ ہوگا جو ہمارےساتھ ہوا ہے۔
انھیں روکنا چاہیئے۔
آو

¿ آگےبڑھو ۔
کیمپ کےپناہ گزینوں نےآپس میں رائےمشورہ کیا اور پھر وہ کیمپ کےدروازےکی طرف بڑھے۔ باہر اندھیرےمیں شرپسند نعرےبازی کررہےتھے، پتھراو

¿ کر رہےتھے، پتھر کیمپ میں آ آکر گر رہےتھےجس سےدوچار لوگ زخمی بھی ہوئے
جواب دیا جائےنعرہ

¿ تکبیر اللہ اکبر ۔ “ ؟
کسی نےنعرہ بلند کیا اور فوراً جواباً پتھر چلائےجانےلگے۔
ایک منٹ بعد ہی نعرےبھی بند ہوگئےاور پتھراو

¿ بھی رُک گیا ۔ حملہ آوار بھاگ کھڑےہوئےتھے۔
لیکن اس کیمپ کےمکین ایک لمحہ کےلئےبھی سو نہیں سکےتھے، ایک خوف چھایا ہوا تھا ،حملہ دوبارہ ہوسکتا ہے، اس سےبہتر ہےجاگا جائے۔
وہ رات بھر جاگتےرہے۔
سورج کےنکلنےکےساتھ خوف کا احساس کچھ کم ہوا ۔
لیکن پورےکیمپ پر تناو

¿ چھایا رہا ۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ کیمپ پر شرپسندوں نےحملہ کیاہےاور شرپسندوں کو روکنےکےلئےایک سپاہی بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔
میڈیا کےلوگ پہونچ گئی اور اِس سلسلےمیں ریلیف کمیپ میں مقیم مکینوں سےبات چیت کرنےلگےاور ان کےبیانات کی بنیاد پر خبریں تیّار کرکےاپنےاپنےچینل اور اخبارات کو روانہ کرنےلگے۔
برسرِ اقتدار پارٹی کےایک دو لیڈر بھی آئےاور اُنھوں نےوہی بیانات دئےجس کی اُن سےتوقع تھی یا جو اُن کی فطرت میں رچا بسا تھا ۔
کیمپ میں پناہ گزینوں کی آڑ میں ملک دُشمن ، غنڈےعناصر جمع ہیں اور وہی ہمارےلیڈران ، حکومت ، پارٹی ، تنظیم کو بدنام کرنےکےلئےاِس طرح کی حرکتیں کر رہےہیں ۔ ان غنڈوں نےکیمپ سےگذرنےوالےہمارےپارٹی ورکروں پر پتھراو

¿ کیا تھا جواب میں اُنھوں نےبھی پتھراو

¿ کیا اور نعرےلگائےاس کےعلاوہ کوئی بات نہیں ہےجس کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہےکہ ان ملک دُشمن عناصر ، آئی ۔ ایس ۔ آئی کےایجنٹوں کو ان کیمپوں سےنکالا جائے۔ ورنہ بار بار گودھرا جیسےواقعات ہوتےرہیں گے۔
اپوزیشن لیڈران نےبیانات دئے۔
اب تک ہوئےفسادات ، ان میں پیش آنےوالےتمام گھناو

¿نےواقعات میں برسرِ اقتدار پارٹی کا ہاتھ ہے‘ یہ تو ہم کہتےہیں آج اِس کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔ اتنےبڑےکیمپ میں جہاں ہزاروں لوگ بےیار و مددگار پڑےہیں ان کی حفاظت کےلئےمرکزی اورریاستی حکومت کےپاس ایک سپاہی بھی نہیں ہے۔ ان کےورکر آکر اس کیمپ پر حملہ کرتےہیں یہ ایک گھناو

¿نی سازش کا آغاز ہے۔
باز آباد کاری کےوزیر نےکیمپ کا دورہ کیا ۔ دورےکےنام پر وہ کیمپ کےدروازےکےاندر بھی داخل نہیں ہوا لیکن اس نےبیان دےدیا ۔
ریلیف کیمپ پر حملےسےیہ ثابت ہوتا ہےکہ اس قسم کےحملہ مستقبل میں بھی ہوسکتےہیں اور آئندہ اِس طرح کےحملوں میں سیکڑوں لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں ۔ حکومت اتنےلوگوں کی جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لےسکتی ۔ کوئی بہت بڑا واقعہ ہو اس سےبہتر تو یہ ہےکہ اس طرح کےتمام کمیپوں کو بند کردیا جائےتاکہ کیمپوں میں مکین پناہ گزین اپنےاپنےگھروں کو واپس چلےجائیں ۔
وزیر کےاِس بیان کےبعد دوچار تٹ پونجئےلیڈروں نےاس کےحق میں بیان دئے۔
کچھ دِنوں قبل ہی اپنی گورو یاترا میں خود ریاست کا سی ۔ ایم اِس طرح کےکیمپوں کو آبادی بڑھانےوالےکارخانےقرار دےچکا تھا ۔
اور اب باز آباد کاری کا وزیر ان کیمپوں کو بدامنی کا خطرہ قرار دےکر بند کرنےکی سفارش کرنےکی بات کر رہا ہے۔
اس بات کو سن کر ریلیف کیمپوں کا ہر فرد دہل گیا ۔
ہم کو ان ریلیف کیمپوں میں کوئی بھی سرکاری سہولت دستیاب نہیں ہے، ہم کو ٹھیک سےپینےکےلئےپانی تک نہیں دیا جاتا ہے۔ہفتےمیں ایک بار بھی سرکاری کھانا نہیں دیا جاتا ہے، کیمپ کی صفائی بھی نہیں ہوتی ہےاور اب ان کیمپوں اور ان میں مکین پناہ گزینوں کو ملک دُشمن قرار دےکر ان کو بند کرنےکی آواز اُٹھائی جارہی ہے۔
ایسا لگتا ہےجیسےہماری مکمل طور پر بیخ کنی اور نسل کشی کرنےکا مکمل جامع منصوبہ بنالیا گیا ہےاور اس پر سختی سےعمل درآمد کیا جارہا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت پوری سرکاری مشنری کا استعمال کرکےہمیں ہمارےگھروں سےبےگھر کیا گیا ۔ ہمارےعزیز و اقارب کو زندہ جلایا گیا ، ہزاروں لوگوں کو موت کےگھاٹ اُتارا گیا ہے، سوچےسمجھےمنصوبوں کےتحت ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ نےہمارےگھر ، محلوں پر حملہ کرکےانہیں نیست و نابود کیا ۔ اور ان سےبچ کر پناہ لینےکےلئےہم بےیار و مددگار ان کیمپوں میں آئےتو ان پر بھی زبانی اور جسمانی حملےکئےجارہےہیں ۔ ریاست کا سی ۔ ایم ہم لوگوں سےکوئی ہمدردی جتانےکےبجائےان کیمپوں کو آبادی بڑھانےکےکارخانےقرار دےکر اسےبند کرنےکی بات کرتا ہے، شرپسند دندناتےاس پر حملہ کرکےچلےجاتےہیں ۔ اور انتظامیہ آنکھ موندےکھڑا رہتا ہے۔
ہم یہاں کسی حد تک محفوظ ہیں ۔ شرپسندوں کےگھناو

¿نےمنصوبوں کا شکار ہونےسےبچ گئےہیں ۔ اس لئےہمیں یہاں سےنکال کر دوبارہ اپنےگھروں کو بھیجنےکی گھناو

¿نی سازش رچی جارہی ہے۔ تاکہ شرپسند دوبارہ ان کےاِرادوں میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ہم کو ختم کردیا جائے۔
یہ سوچ کر ایک دہشت سی ہر کسی کےدِل پر چھا گئی ۔
اِس کیمپ میں ان کےپاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ نہ تو بچھانے، اوڑھنےکےلئےٹھیک طور سےبستر تھےنہ ان کو دو وقت کا صحیح طور پر کھانا مل پاتا تھا ، نہ ہی پانی پینےکےلئےوقت پر مل پاتا تھا ۔
لیکن پھر بھی وہ اس کیمپ میں خوش تھے۔
اُنھیں وہاں کسی طرح کا خوف اور دہشت نہیں تھی ۔
کیمپ کےاِحاطےمیں ان کا دِن بھی آرام سےگذر جاتا تھا اور رات کو بھی سکون سےبےسر و سامانی کےباوجود سوتےتھے۔
اُنھیں وہاں کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا ۔
جب وہ ان دِنوں کو یاد کرتےتھےجب وہ اپنےگھروں میں تھےتو اُن کی رُوح کانپ اُٹھتی تھی
جو تباہی اور بربادی اُنھوں نےدیکھی تھی جو ظلم و ستم اُنھوں نےسہےتھےاس کےبعد تو وہ اُس جگہ دوبارہ جانےکا تصور بھی نہیں کرسکتےتھے۔ اس کیمپ میں مقیم ہر فرد نےاپنا گھر ، زمین ، جائداد تو کھوئی تھی ‘ اپنےبال بچے، بیوی ، عزیز اور اقارب کو بھی کھویا تھا ۔
شوہر بچ گیا تو بیوی کو ہوس کا نشانہ بناکر زندہ جلا دیا گیا ۔
کوئی عورت بچ گئی تو اُس کی آنکھوں کےسامنےاُس کےشوہر، اُس کےبچوں کو ترشولوں سےچھید کر اور قتل کرکےدہکتی آگ میں ڈال دیا گیا ۔
بوڑھے، بچے، جوان کسی کو بھی نہیں بخشا گیا ۔
وہ اپنا کیا دفاع کرپاتے۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان پر ان کےگھروں ، محلوں پر ٹوٹ پڑےتھے۔ جیسےایک ساتھ ہزاروں وحشی درندےگلوں سےنکل آئےہوں ، کوئی بھی تو ان کی مدد کرنےوالا نہیں تھا ۔
انتظامیہ خاموش تماشائی بنی تماشہ دیکھ رہی تھی یا اپنی خاموشی کےہتھیار سےاپنی وحشیانہ حرکتیں جاری رکھنےاور بربریت کا اور زیادہ مظاہرہ کرنےکےلئےاُکسا رہی تھی۔
اب تک یہ ہوا تھا کہ جب کبھی اس طرح کےواقعات ہوتےتھےان کےپڑوسی ان کا ساتھ دیتےتھے۔ ان کی حفاظت کرتےتھےیا متوقع خطرےسےآگاہ کردیتےتھےتاکہ وہ خود کو اس ممکنہ خطرےکا مقابلہ کرنےکےلئےپوری طور پر تیّار کرلیں ۔
لیکن اس بار اس کےبالکل برخلاف ہوا تھا ۔
اس بار ان پر حملہ کرنےوالوں میں ان کےپڑوسی ، ان کےمحلےوالےپیش پیش تھے۔
حملہ آور دوسرےمحلوں یا شہر سےنہیں آئےتھے۔ اس کےبعد کیا کسی سےتوقع کی جاسکتی تھی ۔
جو کچھ لٹ گیا تھا اسےلٹا کر ، جو ختم ہوگیا اس پر صبر کرکےآنسو بہاتےوہ اس کیمپ میں آئےتھے
اس کیمپ میں پہونچنےوالا کوئی بھی فرد تندرست نہیں تھا ، ہر کوئی فساد اور فسادیوں کےدئےزخموں سےچور تھا ۔
اس کیمپ میں ان کےزخموں کا علاج کرنےکےلئےنہ تو کوئی معالج تھا نہ ہی دوائیں ۔
لیکن پھر بھی وہ مطمئن تھے۔
ایک دُوسرےکےزخموں کو پیارسےسہلادیتے، پھٹےکپڑوں کی پٹیاں باندھ دیتےیاباتوں کا مرہم رکھ دیتےتو زخموں سےاُٹھنےوالی درد کی ٹیس کچھ کم ہونےلگتی ۔
مہینوں ہوگئےتھے۔ نہ تو فساد رُکتا تھا اور نہ امن کی کرن کہیں سےپھوٹتی تھی ۔ ایک دو دِن سکون سےجاتےاور پھر کسی علاقےمیں فساد پھوٹ پڑتا اور پھر وہاں وہی واقعات دہرائےجاتےجو پورےفساد کےدوران دہرائےگئےتھے۔
وہ واپس اپنےگھروں کو جانےکی سوچتےبھی نہیں تھے۔
کرفیو چھوٹنےکےبعد کوئی جیالا جاکر اپنا گھر اور محلہ دیکھ آنےکی ہمت کرتا تو واپسی میں وہ اتنا ڈرا اور سہما ہوا ہوتا تھا کہ دوبارہ پھر وہاں جانےکا نام بھی نہیں لیتا تھا ۔
اپنےمحلےمیں قدم رکھتےہی ہزاروں آنکھیں اُنھیں گھورنےلگتیں ۔
ان آنکھوں میں نفرت ہوتی ‘ وہ اُسےدیکھ کر آپس میں زور زور سےباتیں کرتے
یہ سالا حرامی کیسےبچ گیا ۔
ہمارےترشولوں کا وار ذرا ہلکا تھا ، ہم نےغلطی کی اسےٹرین کی طرح جلانا چاہیئےتھا ۔
دوبارہ واپس آیا ہے، دبوچ سالےکو ، بچ کر جانےنہ پائے، کسی کو پتا بھی نہیں چلےگا ۔
اس کےپاس پڑوس کےلوگ اُسےدیکھ کر اس سےایسی باتیں کرتےتھے۔ اسےدیکھ کر کوئی ہمدردی جتانےوالا یا ہمدردی کےدوبول بولنےوالا کوئی بھی نہیں تھا ۔
اس کےبعد تو وہ وہاں سےنکل کر اس ریلیف کیمپ میں پہونچ جانےمیں ہی عافیت سمجھتا ۔
اسےلگتا ، اگر وہ یہاں آیا تو اب کی بار بچ نہیں پائےگا ۔
قاتل ، وحشی ، خونی درندےآزاد ہیں ، اپنی درندگی پر وہ پشیمان نہیں ہے۔ ان کی درندگی کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ وہ اسےدِن دھاڑےسرِ عام بھی ختم کرسکتےہیں ، اگر وہ دِن میں بچ بھی گیا تو رات کو ہزاروں وحشیوں کےحملےمیں تو بچ ہی نہیں سکتا ۔
اس لئےاپنےگھر جاکر کیا فائدہ ؟

اس کیمپ میں لاکھوں لوگ تھے۔ لُٹےہوئے، تباہ و برباد ، زخموں سےچور لوگ
لیکن یہاں ان کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا ۔
فسادی اور وحشی درندےیہاں پر ان پر حملہ نہیں کرسکتےتھے۔ کیونکہ یہاں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ حملہ آوروں کی بڑی سےبڑی فوج کا وہ آسانی سےمقابلہ کرکےاپنی جانیں بچا سکتےہیں ۔
لیکن ان واقعات نےاُنھیں دہلا کر رکھ دیا تھا ۔
جس طرح کیمپ پر حملہ کرنےکی کوشش یا نعرےبازی ہوتی تھی ‘ اس سےاُنھیں محسوس ہونےلگا تھا ‘ وحشی فسادی اُنھیں یہاں بھی سکون سےرہنےدینا نہیں چاہتےہیں ۔
اور خود ان کا سردار ریاست کا سی ایم ایسےکیمپوں کو آبادی بڑھانےوالےکارخانےکہہ رہا تھا ۔
جس وزیر کےذمہ ان کی باز آباد کاری تھی وہ ان کی باز آباد ی کا کام تو نہیں کر رہا تھا ۔ یہاں جس ٹوٹی چھت کےنیچےوہ پناہ لئےہوئےتھےاُسی ٹوٹی چھت کو بھی ان کےسروں سےچھینّےکی کوشش کررہا تھا اور کہہ رہا تھا ۔
اتنےبڑےلوگوں کی جانوں کی حفاظت وہ نہیں کرسکتے، اِس طرح کےکیمپ امن کےلئےخطرہ ہیں ۔ اِس لئےان سےامن کی صورتِ حال بگڑ سکتی ہے۔ انہیں بند کردینےمیں ہی بھلائی ہے۔
اور ایک بار پھر بےامانی ، عدم تحفظ کا عفریت ان کو جکڑنےکےلئےاپنےبازو پھیلا رہا تھا ۔
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی ۔بھیونڈی۔ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short story Be Jism By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Be Jism, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ بےجسم از:۔ایم مبین

واپس گھر پہونچنےتک ٩ بج گئےتھے۔
اسےجھنجھلاہٹ ہورہی تھی ۔ ہر بار وہ چاہتا ہےکہ جلد سےجلد گھر پہونچےلیکن اُس کی یہ چاہ کبھی پوری نہیں ہوتی تھی ۔ آفس سےنکلنےکےبعد راستےمیں کچھ نہ کچھ مسائل اُٹھ کھڑےہوتےتھےاور وہ تو دس بجےہی گھر پہونچ پاتا تھا ۔
کبھی آفس کی مصروفیات یا باس کا کوئی آرڈر اُسےآفس سےجلد نہ نکلنےکےلئےمجبور کردیتا تھا ۔ تو کبھی لمبی مسافت کا سفر اور سفر کےدوران پیش آنےوالےواقعات ۔
اس نےکبھی بھی اس کےگھر پہونچنےپر مایا کےچہرےپر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی ۔
اسےدیکھ کر مایا کےچہرےپر کوئی تاثر نہیں اُبھرتا تھا اور وہ کسی روبوٹ کی طرح بیزار سی اس کی خدمت میں لگ جاتی تھی ۔
خدمت کیا ‘ اُس کےاُتارےکپڑوں کو سلیقہ سےلےجاکر ہینگر میں لگانا ، اسےگھر میں پہننےوالےکپڑےدینا ، جب وہ واش بیسن سےمنہ دھوکر ہٹےتو ٹاول لےکر کھڑی رہنا ۔
اس کےبعد بہت مختصر سےمعمولات ہوئےتھے۔
دونوں ساتھ کھانا کھاتے، تھوڑی دیر تک ٹی وی دیکھتےاور سوجاتے۔ سویرےجلدی اُٹھ کر مایا اس کےلئےٹفن بناتی اور وہ دفتر جانےکی تیاری کرتا اور آٹھ بجےسےپہلےگھر چھوڑ دیتا ۔
اس دِن جب وہ کمرےمیں داخل ہوا تو رگھو اطمینان سےبیٹھا کُرسی بنا رہا تھا ۔ مایا ٹی وی دیکھ رہی تھی ، اس کی آہٹ سن کر مایا نےپلٹ کر اُسےدیکھا ، اس کےچہرےپر کوئی تاثر نہیں اُبھرا ، وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنےمیں مصروف ہوگئی ۔
رگھو نےاس کی آہٹ پاکر سر اٹھا کر اسےدیکھا اور دوبارہ اپنےکام میں مصروف ہوگیا ۔
اس کےچہرےپر اطمینان اور ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔
اس نےاندازہ لگالیا تھا ‘ سب کچھ ٹھیک ہے۔
بجوکا اپنی جگہ کھڑا ہے، اس کےسر کی جگہ رگھو کا سر لگا ہوا ہےاور وہ اپنےفرائض انجام دےرہا ہے۔
اسےاطمینان محسوس ہوتا ‘ جیسےیہ اطمینان اس کی سب سےبڑی دولت ہے، اس کی زندگی کا حصول ہے۔ اس اطمینان کو قائم رکھنےکےلئےوہ زندگی کی جنگ لڑ رہا ہےاور اس اطمینان میں اس کی فتح یابی پنہاں ہے۔
وہ ایک کسان ہےاس کےماں باپ ، دادا ، پردادا کسان تھی۔گاو

¿ں میںزراعت کرتےتھی۔اس نےکھیتی نہیں کی ہی۔ وہ اپنےگاو

¿ں اور کھیت سےکوسوں دُور ہے۔ لیکن اس کی فطرت نہیں بدل پائی ہے۔ ایک کسان کی طرح اسےسب سےزیادہ فکر اپنےکھیت کی رہتی ہے۔
لیکن یہاں تناظر بدل گیاہے۔
اس کےپاس کھیت نہیں ہےوہ اپنی زمین ، کھیت ، گاو

¿ں سےبہت دور ہے۔اسےان کی کوئی فکر نہیں ہے۔
لیکن نئےتناظر نےاسےایک نئی فکر دےدی ہے۔
مایا
مایا اس کےلئےایک مسئلہ ہے۔ اس کی سب سےبڑی فکر ،پریشانی ہے۔اس کی زندگی کی سب سےبڑی اُلجھن ہے، اُس کی سب سےبڑی چنتا ہے۔
مایا اس کی بیوی ۔
کبھی کبھی اسےمحسوس ہوتا ہےکہ اس نےمایا سےشادی کرکےسب سےبڑی غلطی کی ہے۔
لیکن جب سنجیدگی سےسوچتا تو اسےیہ اپنی کوئی غلطی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔
اسےشادی تو کرنی تھی ، بنا شادی کےتو وہ جی نہیں سکتا تھا ۔
اگر مایا سےشادی نہیں کرتا تو کسی ریکھا ، رُوپا یا گنگا سےشادی کرتا ۔
اور جب اپنےحالات پر غور کرتا تو اُسےمحسوس ہوتا ‘ جو بھی لڑکی اس کی بیوی بن کر آتی‘اس کےلئےوہی مسئلہ ہوتی جو مایا ہے۔
کبھی سوچتا مایا سےہمیشہ کےلئےنجات پالے۔
لیکن بھلا مایا سےنجات ممکن ہے؟
کبھی سوچتا مایا کو اپنےگاو

¿ں یا اس کےمیکےبھیج دے۔ لیکن دونوں میں سےکوئی بھی کام مسئلہ کا حل نہیں تھا ۔ وہ اور مایا اسی مسئلہ میں گھری رہتی جس میں آج گھری ہے۔
آج کم سےکم مایا کےپاس یہ احساس تو ہےکہ رات کو اس کا پتی اس کےپاس ہوتا ہے۔ اگر وہ مایا کو اپنےگاو

¿ں یا اس کےمیکےبھیج دےتو اس سےیہ احساس بھی چھن جائےگا ۔ تب اس کی حالت کیا ہوگی ؟ اور وہ کیا کر ڈالےگی اس کےتصور سےہی اس کی رُوح کانپ اُٹھتی تھی ۔
مایا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مایااسےپسند ہےوہ مایا کو بےحد چاہتا ہے۔ مایا بھی ایک سعادت مند بیوی کی طرح اس کی ہر طرح سےخدمت کرتی ہے۔ اس کا ہر طرح سےخیال رکھتی ہے، اس نےاسےزندگی میں کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہونےدی ہے۔
اور اس نےبھی اپنی جان سےبڑھ کر مایا کا خیال رکھا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہےاپنےاور مایا کےلئےہی تو کرتا ہے۔ ان کی زندگی میں اور کوئی بھی نہیں ہے۔ اسےمایا کی ہر خواہش ، ہر مانگ کو پوری کرنےمیں رُوحانی مسرت ہوتی ہےاس کا دِل چاہتا ہےکہ مایا اس سےکوئی چیز مانگےاور فوراً مایا کی مانگ پوری کرےیا مایا کی مانگ پوری کرنےکےلئےاپنےتن ، من ، دھن کی بازی لگادے۔
لیکن مایا کا رویّہ اُس کےلئےایک سوالیہ نشان تھا ۔
صرف کبھی کبھی ہی نہیں ‘ ہمیشہ اسےمایا کےرویّےسےایسا محسوس ہوتا تھا جیسےمایا اس کےساتھ خوش نہیں ہےیا مایا اسےشریک حیات کےطور پر پاکر خوش نہیں ہے۔
اِ س بات کو سوچ کر اس پر ایک افسردگی کا طوفان چھا جاتا تھا ۔ اس کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھانےلگتا تھا اور دِل کی دھڑکنیں ڈوبنےلگتی تھی ۔
آخر مجھ میںکیا کمی ہے، میں نےمایا کی کسی خواہش کو پورا نہیں کیا ہے، مایا کی زندگی میں ایسی کون سی کمی رکھی ہےجو مایا میرےساتھ خوش نہیں ہے۔ ؟
وہ خود سےیہ سوال بار بار کرتا تھا ۔ لیکن اس میں مایا سےیہ سوال پوچھنےکی ہمت نہیں تھی ۔
وہ ڈرتا تھا کہ اگر مایا اس بات کا اقرار کرلےکہ وہ اس کےساتھ خوش نہیں ہےاور اپنی زندگی کی اس کمی کےبارےمیں بتادےجو وہ پوری نہیں کرپارہا ہےتو شاید اس کی زندگی میں ایسا طوفان آجائےگا جو دونوں کو بہالےجائےگا اور ہمیشہ ہمیشہ کےلئےایک دُوسرےکو جدا کردےگا ۔
یہ سوال جیسےاس طوفان کو روکنےوالا دروازہ تھا اور وہ خود یہ سوال پوچھ کر اس طوفان کا دروازہ کھول کر اس کی تاب لانےکی سکت نہیں رکھتا تھا ۔
دھیرےدھیرےاسےمایا کی خواہشات کا پتہ چلنےلگا تھا ۔ مایا چاہتی تھی کہ وہ مہینےمیں ایک دوبار کسی دُوسرےشہر سیر و تفریح کےلئےجائے، ہر شام جلد گھر آجائےاور اسےلےکر شہر کےتفریحی مقامات پر جائے، ہوٹلوں میں کھانا کھائے، فلمیں دیکھے، اپنےدوست اس کی سہیلیوں کےگھر پارٹیوں میں لےجائے۔
اور اتوار کا دِن کا تو ایک لمحہ بھی گھر میںنہ گذارے۔
لیکن سب کچھ مایا کی اُمیدوں کےبرخلاف ہوتا تھا ۔
آفس کی مصروفیات کی وجہ سےوہ رات نو ، دس بجےسےپہلےگھر نہیں آپاتا تھا ۔
کوئی سرکاری نوکری نہیں تھی کہ پانچ بجےبھی اگر دفتر چھوڑدیا جائےتو کوئی جواب طلب کرنےکی ہمّت نہیں کرےگا ۔
پرائیویٹ سروس تھی ۔ ہر لمحہ ، قدم قدم پر باس منیجمنٹ کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔
آفس آنےکا وقت متعیّن تھا ۔ اس میں تاخیر نہیں ہوسکتی تھی ۔ لیکن آفس سےجانےکا کوئی وقت متعیّن نہیں تھا ۔ اگر رات کےبارہ بھی بج جائےتو بنا کام پورا کئےگھر جانےکی اجازت نہیں تھی ۔
مایا کو اس کی اس مجبوری کا علم نہیں تھا ۔
ویسےوہ مایا کو سیکڑوں بار اِس بارےمیں سمجھا چکا تھا ۔
لیکن مایا کی خواہشات کےآگےاس کی مجبوریاں کچھ نہیں تھیں ۔ ہفتہ بھر تو صبح آٹھ بجےسےنو، دس بجےتک گھر کےباہر ہی رہنا پڑتا تھا ۔ کھانا کھانےکےبعد بھلا جسم میں اتنی قوت کہاں باقی بچتی تھی کہ کہیں باہر جایا جائےیا رات زیادہ دیر تک جاگ کر آوارگی سےلُطف اندوز ہوا جائے۔ کیونکہ سامنےصبح جلدی اُٹھ کر آفس جانےکا آسیب منہ پھاڑےکھڑا ہوتا تھا ۔
اتوار کو اس کا من چاہتا تھا ‘ وہ ہفتہ بھر کام کی تھکن اُتارے۔ اور دِن بھر سوتا رہے، دِن بھر تو سو نہیں پاتا تھا ، اُٹھ کر تیّار ہونےاور دوپہر کا کھانا کھانےمیں دو بج جاتےتھے۔ پھر ایک دو گھنٹہ کےلئےبھی باہر جانا ہوگیا تو اچھی بات تھی ۔ اگر کوئی مہمان آگیا تو وہ بھی ممکن نہیں تھا ۔ ایسےمیں مایا کی خواہشات کیسےپوری ہوسکتی تھیں ۔
اس کےآفس جانےکےبعد وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی ۔ اس کا آفس بھی گھر سے٠٦ ، ٠٧ کلومیٹر دور تھا ۔ وہ مایا کی خبر بھی نہیں لےسکتا تھا ۔ نہ مایا اس کی خیریت پوچھ سکتی تھی ۔
شادی کےبعد برسوں تک یہی معمولات چلتےرہتے۔
ان میں کچھ دِنوں کی تبدیلی اس وقت آئی تھی جب وہ دونوں ایک دودِنوں کےلئےگاو

¿ں جاتےتھے۔ لیکن یہ صرف سالوں میں ہی ممکن تھا ۔
پھر دھیرےدھیرےاسےایسی خبریں ملنےلگیں جن کو سن کر اس کی زندگی کا سکون درہم برہم ہوجاتا تھا ۔
آس پڑوس والوں نےبتایا کہ اس کےآفس جانےکےبعد مایا گھنٹوں گھر سےغائب رہتی ہی۔ اس سےملنےاجنبی لوگ گھر آتےہیں اور گھنٹوں گھر میں رہتےہیں ۔
اس نےاس سلسلہ میں جب مایا سےپوچھا تو مایا کےپاس اس کا بڑا سیدھا سا جواب تھا ۔
آج اس سہیلی کےگھر اس سےملنےگئی تھی ۔
ملنےکےلئےآنےوالا وہ مرد میری اس سہیلی کا شوہر تھا ۔ وہ یہ چیزیں لینےکےلئےگھر آیا تھا ۔
مایا کےاس جواب کےبعد دوبارہ کوئی سوال کرنےکی اس کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی ۔
دھیرےدھیرےایسےثبوت ملنےلگےکہ اس کا شک یقین ہےاور مایا کی ہر بات جھوٹی ہے۔
گھر میں فون تو نہیں تھا جس کےذریعےپتا لگایا جاسکےکہ مایا گھر میں ہےیا نہیں ؟ پڑوس میں فون تھا ، دوچار بار اس نےپڑوس میں فون لگا کر مایا کو فون پر بلاناچاہا ، ہر بار اسےجواب ملا کہ گھر پر تالہ لگا ہے۔
رات میں اس سلسلہ میں اس نےمایا سےپوچھا تو مایا کا جواب تھا ۔
وہ لوگ جھوٹ کہتےہیں ، میں تو ایک لمحہ کےلئےبھی گھر سےباہر نہیں نکلی ۔ پر تالہ لگا ہے، میں گھر میں نہیں ہوں ، یہ کہہ کر وہ مجھےبدنام کرنا چاہتےہیں اور تمہارےدِل میں بدگمانی پیدا کرنا چاہتےہیں ۔
مایا کا جواب اسےاُلجھن میں ڈال دیتا تھا ۔
سچائی کا پتہ اس وقت لگ سکتا تھا جب گھر میں کوئی گھر کا بڑا ہو ، گھر کےکسی بھی چھوٹےبڑےآدمی کےگھر میں آئےمایا کا گھر سےباہر قدم نکالنا مشکل تھا ۔ نہ اس کےہوتےکوئی غیر مرد گھر میں آسکتا تھا ۔
اُس کا دُنیا میں کوئی بھی تو نہیں تھا ۔ماں ، باپ ، بھائی ، بہنیں ، کوئی بھی تو نہیں جس کو وہ گھر میں لاکر رکھتا تاکہ مایا کےپیروں میں زنجیریں پڑی رہے۔
ایک ہی راستہ تھا جو مایا کو راہ پر لاسکتا تھا ۔ لیکن وہ راستہ بھی اسےمسدُود محسوس ہورہا تھا ۔
اسےاپنا بچپن یاد آیا ۔
وہ بچپن میں اپنےماں باپ کےساتھ کھیتوں میں جایا کرتا تھا ۔ ماں باپ دِن بھر کھیتوں میں کام کرکےاپنےخون پسینےسےسیراب کرکےکھیتوں کو لہلہاتےتھے۔
جب فصل پک جاتی تو اس فصل کو پرندوں سےبچانا سب سےبڑا مسئلہ ہوتا تھا ۔
اس کےلئےوہ کئی طریقےاستعمال کرتےتھے۔
ڈھول تاشےبجا کر شور مچاکر پرندوں کو اُڑاتےتھے۔
اور ہر فصل کےساتھ ایک بجوکا تو بنایا جاتا ہی ہے۔
لکڑیوں سےبنا ہوا بجوکا ، جس کو پرانےکپڑےپہنادئےجاتےتھے۔ اور سر کی جگہ ایک ہانڈی لگادی جاتی تھی ۔ جس پر یہ بھیانک آنکھیں منہ ، ناک وغیرہ بنادئےجاتےتھے۔ تب پرندےاسےکوئی انسان سمجھ کر پھر اس طرف کا رُخ نہیں کرتےتھے۔
اسےشدت سےاحساس ہونےلگا اسےاپنےگھر کی حفاظت کےلئےایک بجوکا کی ضرورت ہے۔

جو اس کےکھیت کی حفاظت کرسکے۔
کچھ ماہ قبل اسےاس کےچاچا کا خط ملا تھا ۔
رگھو نےبہت پریشان کر رکھا ہے۔ ٨١ سال کا ہوگیا ہےکوئی کام دھندا نہیں کرتا ہی۔ اسکول وغیرہ تو بہت پہلےہی چھوڑ چکا ہے۔ اسےاپنےپاس بلا کر کسی کام دھندےسےلگادو ۔ ورنہ بگڑ جائےگا ۔
اس خط کو یاد کرکےاس کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں ۔
اسےایسا محسوس ہوا جیسےاسےاپنےگھر کےلئےبجوکا مل گیا ہے۔
رگھو اگر صرف اس کےگھر میں رہےتو بھی کافی ہوگا ۔ بھلےسےوہ کوئی کام نہ کرے، کم سےکم اس کےگھر ، مایا کی حفاظت تو کرےگا ۔ اس نےچاچا کو خط لکھا کہ رگھو کو اس کےپاس بھیج دیں ۔
آٹھ دِن بعد ہی رگھو اُن کےپاس آگیا ۔
اور جیسےاس کی ساری پریشانیاں دُور ہوگئی تھیں ۔
وہ دِن بھر گھر میں بیٹھا ٹی وی پر فلمیں دیکھا کرتا تھا یا گھر کےچھوٹےموٹےکام کیا کرتا تھا ۔
رات کو جب وہ گھر آتا تو مایا کو اپنےکام میں مصروف پاتا اور رگھو کو اپنے۔
وہ اپنےتصور کےبجوکا کو دیکھتا تو اس کےسر کی جگہ اسےرگھو کا سر لگا نظر آتا اور وہ مسکرا کر اس سےکہتا میں اپنا فرض بخوبی نبھا رہا ہوں ۔
رگھو کےآجانےسےمایا بھی بجھی بجھی سی تھی ۔ اس کی ساری آزادی سلب ہوگئی تھیں لیکن وہ چاہ کر بھی اس کےخلاف احتجاج نہیں کرپارہی تھی ۔
ایک دوبار دبےلفظوں میں اس نےاس سےکہا بھی ۔
یہ رگھو کب تک یوں ہی گھر میں بیٹھا رہےگا ۔ اس کےلئےکوئی کام تلاش کرو ، ورنہ اس کےماں باپ ہم پر الزام لگائیں گےکہ ہم سےایک چھوٹا کام بھی نہیں ہوسکا ۔ ہم رگھو کو کام بھی نہیں دِلا سکتے۔
میں اس کےلئےکام تلاش کررہا ہوں ۔“ کہہ کر وہ مایا کو لاجواب کردیتا تھا ۔
وہ سکون بھری زندگی گذار رہا تھا ۔ اس کی ساری پریشانیاں ، وسوسے، بدگمانیاں ، شک و شبہات رگھو کےگھر آجانےکی وجہ سےجیسےختم ہوگئے۔
ایک دِن جب وہ آیا تو اسےگھر کا ماحول کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہوا ۔
رگھو الماری کی صفائی کرتا ایک پوربی لوک گیت گارہا تھا ۔
اور مایا بھی دھیرےدھیرےکچھ گنگنا رہی تھی ۔
اس کا چہرہ پھول سا کھلا ہوا تھا ، چہرےاور آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ۔
اس کا دِل دھڑک اُٹھا ۔
اس نےاپنےتصور کےبجوکا کو دیکھا تو اسےایک جھٹکا سا لگا ۔
اسےاس بجوکا کےسر کی جگہ رگھو کےبجائےاپنا سر لگا ہوا دِکھائی دےرہا تھا ۔

٭٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Meezan By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Meezan, Short Story, Urdu

افسانہ میزان از:۔ایم مبین

ادھرم کو روکنا بھی دھرم ہے۔ ادھرم روکنےکےلئےجان بھی دینی پڑےیا کسی کی جان بھی لینی پڑےتو یہ دھرم ہے، یہ دیش بھی ہمارا دھرم ہے، اس دیش کےخلاف جو بھی کام کرتا ہےوہ ادھرمی ہیں اور ایسےادھرمی کا سروناش کرنا دھرم ہے۔ جو اس دیش کےقانون ، کامن سول کوڈ کو نہیں مانتے۔ وندےماترم کا گان نہیں کرتے، گئو کا احترام نہیں کرتےوہ سب ادھرمی ہیں اور ایسےادھرمیوں کےخلاف تلوار اُٹھانےکا وقت آگیا ہے۔ جو لوگ ہمارےرام للّا کا مندر بنانےکا وِرودھ کرتےہیں ایسےادھرمیوں کا سنہار کرنےکےلئےاُٹھ کھڑےہوجاو

¿ اُٹھ کھڑےہوجاو

¿ ہر ہر مہادیو جےبھوانی جےشیواجی جےمہاکالی سوامی مہاراج کی جے۔
سوامی جی کی آواز لاو

¿ڈ اسپیکر سےچاروں طرف پھیل رہی تھی ۔ پھر ان کی آواز اشتعال انگیز جوشیلےنعروں کےدرمیان ڈوب کر رہ گئی تھی ۔ لاو

¿ڈ اسپیکر سےنفرت انگیز ، نعرےہی اُبل رہےتھے۔
پل پر کھڑےکھڑےمیں نےنیچےمیدان پر نظر ڈالی ۔
لاکھوں کی بھیڑ ہوگی ، ہر فرد مٹھیاں بھینچےنعرےلگا رہا تھا ۔ ان نعروں سےمجھےخوف محسوس ہورہا تھا ۔
مجھےایسا محسوس ہورہا تھا ، وہ نعرےلگاتی بھیڑ بےقابو ہوگئی ہے، ان کےہاتھوں میں ہتھیار آگئےہیں اور وہ سڑکوں پر اُتر آئی ہے۔ دوکانوں کو لوٹ رہی ہے، جلا رہی ہے، لوگوں کو مار کاٹ رہی ہےاور اس بھیڑ کےدرمیان کئی چہرےمسکرا رہےہیں ، ان میں ایک چہرہ سوامی جی کا بھی ہے۔
کیا وہ سوامی جی کا چہرہ ہوسکتا ہے؟
وشنو پنت سوامی کا چہرہ ؟
دُنیا چاہےکچھ بھی کہےمیرا دِل یہ ماننےکو تیّار نہیں تھا کہ یہ باتیں سوامی جی کےدِل سےنکل رہی ہیں ۔ سوامی جی اشتعال پھیلانا چاہتےہیں ‘ تاکہ یہ اشتعال خونریزی میں تبدیل ہوجائے۔
سڑکیں آگ اور خون میں نہا جائیں
راستےلاشوں سےپٹ جائیں
ساری دُنیا کہتی ہےسوامی جی کا یہی منشا ہے۔
مگر میرا دِل یہ ماننےکو تیّار نہیں ۔
لاو

¿ڈ اسپیکر سےجو تقریر نشر ہورہی تھی میرا دِل تو اس پر بھی یقین کرنےکو تیّار نہیں تھا ۔ لیکن میں اچھی طرح جانتا تھا یہ سوامی جی کی ہی آواز ہے۔ سوامی جی کی آواز کو میں جتنی اچھی طرح پہچانتا ہوں شاید ہی کوئی اور پہچانتا ہوگا ۔
جس پل کےکنارےمیں کھڑا تھا اُسی فلائےاوور پر میرےسر پر ایک بڑی سی ہورڈنگ تھی ۔ جس پر زعفرانی لباس میں دونوں ہاتھ جوڑےسوامی جی کی بڑی سی تصویر تھی ۔
شعلہ بیان ، دھرم ویر ، دھرم سرکھشک سوامی جی وشنو پنت کا بیان ۔
جگہ وہی تھی وقت وہی تھا ۔
آج شاید تیسرا دِن تھا ۔ ابھی آٹھ دس روز اور وہ پروگرام چلےگا ۔ سوامی جی کی زہریلی تقریر سےلاکھوں افراد کےذہن پراگندہ ہوں گےاور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہےاس کےتصور سےہی میں کانپ اُٹھتا ہوں ۔
میرا مکان ریلوےلائن کی دیوار سےلگ کر ہے۔ اس کےبعد کچےمکانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
اگر چلتی ٹرین سےکوئی ایک آگ کا گولہ بھی اس بستی کی طرف اُچھال دےتو آگ ساری بستی کو جلا کر راکھ کرسکتی ہےاور میرا مکان بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔
اس تصور سےہی میرےجسم میں ایک جھرجھری سی آگئی ۔
سوامی جی کا بھاشن ختم ہوگیا تھا ۔
میدان سےنکل کر بھیڑ برج کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ بھیڑ کی وجہ سےبرج پر ٹریفک متاثر ہورہی تھی ۔ کچھ لوگ تو آگےاپنی منزل کی طرف بڑھےجارہےتھے۔ کچھ لوگ پل کےکنارےقطار لگا کر کھڑےہوئےتھے۔ شاید اس پل پر سےسوامی جی کی کار گذرنےوالی تھی اور وہ لوگ شاید سوامی جی کا درشن کرنا چاہتےتھے۔
لوگ میرےآگےپیچھےکھڑےہوگئےاور میں کب اِس قطار کا حصہ بن گیا مجھےپتہ بھی نہیں چل سکا ۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ نہ میں قطار چھوڑ سکتا تھا نہ قطار میں شامل رہنےکےلئےمیرا دِل چاہ رہا تھا ۔
سوامی جی کی کار پل پر نمودار ہوئی تھی ۔ لوگ سر جھکا کر اُنھیں سلام کررہےتھےاور سوامی جی ہاتھ اُٹھاکر اُنھیں آشیرواد دےرہےتھے۔
کار جیسےجیسےقریب آرہی تھی ‘ سوامی جی کا چہرہ واضح ہوتا جا رہا تھا ۔
کار میرےسامنےآئی تو بےاختیار میرےہاتھ بھی سلام کےلئےاُٹھ گئے۔
میری اور سوامی جی کی نظریں ٹکرائیں ۔ ان کےچہرےپر حیرت کےتاثرات اُبھرے‘اُنھوں نےاِشارےسےڈرائیور کو رُکنےکےلئےکہا ۔
ارےاکبر بابو آپ ! اتنےدِنوں کےبعد دِکھائی دئے؟ آئیے! اندر آئیے“ سوامی جی نےآواز لگائی تو میں دفعتاً ساری بھیڑ کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔
سوامی جی مجھےآوازیں دےرہےتھے۔ اُنھوں نےمیرےلئےکار کا دروازہ کھول رکھا تھا ۔ بےساختہ میں آگےبڑھ گیا ۔
کار میں داخل ہوکر سوامی جی کےپہلو میں جابیٹھا ۔ اُنھوں نےدروازہ بند کیا اور لوگوں کو درشن دےکےاپنا سفر جاری رکھا ۔
تھوڑی دیر بعد درشن لینےوالوں کی بھیڑ ختم ہوگئی تو اُنھوں نےکار کےشیشےچڑھا دئے۔ ایئر کنڈیشن کار میں مجھےسردی محسوس ہونےلگی ۔
کار فراٹےبھرتی تارکو ل کی چکنی سڑک پر آگےبڑھی جارہی تھی ۔
کہیئےاکبر بابو ! گھر میں سب مزےمیں تو ہیں نا ؟بھابھی جی کیسی ہیں ؟ راشد اور اشرف کیسےہیں ‘ سارہ تو اب کافی بڑی ہوگئی ہوگی نا ؟ “ اُنھوں نےایک ساتھ کئی سوالات کرڈالے۔
ہاں سب مزےمیں ہیں ۔ “ میں نےجواب دیا ۔ ” سارہ اخباروں میں آپ کی تصویر دیکھ کر اپنی سہیلیوں کو بڑےفخر سےبتاتی پھرتی ہےکہ یہ میرےسوامی انکل ہیں ۔ میں ان کی گود میں کھیلتی تھی ۔
معصوم بچی ۔ “ سوامی جی کےمنہ سےنکلا اور وہ کہیں کھوگئے۔
مجھےاس بات کی قطعی توقع نہیں تھی کہ ہزاروں کی بھیڑ میں سوامی جی مجھےاتنی آسانی سےپہچان لیں گےاور بلا کر اپنی کار میں بٹھالیں گےاور پھر مجھ سےاس طرح باتیں کریں گےجیسےوہ کبھی میری زندگی سےجدا تھےہی نہیں ۔
آپ اب بھی وہیں اسی لائن کےکنارےوالےمکان میں رہتےہیں نا ؟ “ سوامی جی نےپوچھا ۔
ہاں اور کہاں جاسکتےہیں ؟ اِس بڑےشہر میں مکان تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ “میں نےجواب دیا ۔
میں جس جھونپڑےمیں رہتا تھا ‘ وہ ہے؟ “ اُنھوں نےپوچھا ۔
ہاں ‘ ‘ میں نےجواب دیا ۔ ” پوتیا ( جھونپڑےکےمالک ) نےجس شخص کو کرایےپر دیا ہےوہ اب وہاں دیسی شراب کا غیر قانونی اڈّہ چلاتا ہے۔
میری بات سن کر سوامی جی کےچہرےپر سخت تاثرات اُبھر آئے۔ اُن کےذہن میں شاید اُن کےاس ماضی کی یاد تازہ ہوگئی تھی جو اُنھوں نےاس میں گذارا تھا ۔
میں آپ کو اپنےگھر لےجارہا ہوں ۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہےیا گھر جانےمیں دیرتو نہیں ہوگی ؟ سوامی جی نےپوچھا ۔
بھلا مجھےکیا اعتراض ہوسکتا ہےسوامی جی ؟ “ میں نےہنس کر کہا ۔ ” اور جہاں تک تاخیر کی بات ہےگھر والےمیرےتاخیر سےآنےکےعادی ہیں ۔
سچ پوچھئےتو بہت دِنوں بعد مجھےکوئی میرا اپنا ملا ہے۔ اِس لئےدِل کھول کر آج میں آپ سےباتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ “ سوامی جی بولے۔
یہ آپ کی ذرّہ نوازی ہےسوامی جی ! ورنہ میں کس قابل ؟ “ میں نےہنس کر جواب دیا ۔
میں نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی سوامی جی سےسامنا ہوگا تو میرےسامنےبرسوں پرانےسوامی جی ہوں گےجو میرےمکان کےبازو میں ریلوےلائن کی دیوار سےلگ کر ایک تنگ و تاریک گندی کھولی میں رہتےتھے۔ جن کا زیادہ تر وقت میرےاور میرےبچوں کےساتھ گذرتا تھا ۔
میرا خیال تھا سوامی جی مجھےپہچان کر بھی انجان بن جائیں گےاور آگےبڑھ جائیں گے۔ کیونکہ میں اُن کا تلخ ماضی ہوں ۔ آج اُن کےپاس تابناک حال اور روشن مستقبل ہےپھر بھلا وہ اپنےتلخ ماضی کےبارےمیں کیوں سوچیں گے۔ ؟
میرےمکان کےاطراف جو بھی سوامی جی کو جانتا تھا ان سب کی سوامی جی کےبارےمیں اچھی رائےنہیں تھی ۔
سالا کل تک دانےدانےکو محتاج تھا ، آج اَن داتا بنا پھر رہا ہے، کل تک لوگوں کی بھیک پر زندہ تھا ، آج دونوں ہاتھوں سےدولت لوٹ رہا ہے، لوگ اُس پر دولت کی بارش کررہےہیں ۔
سوامی سےپولیٹیکل سوامی بن گیا ۔ کل تک مندر میں جب پروچن کرتا تھا تو کتےبھی اس کےپروچن کو سننےنہیں آتےتھے۔ آج جب گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ہے، دھرم کو سیاست کےساتھ ملا کر بھاشن دیتا ہےتو اس کےبھاشن کو سننےلاکھوں لوگ آتےہیں ۔
سب کےخیالات اس سےبھی گرےہوئےتھے۔
جہاں تک میرا خیال تھا سوامی جی کےاس رویّےپر مجھےخود بےحد دُکھ ہوتا تھا ۔
میں نےسوامی جی کو بہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اُن کو میں اچھی طرح جانتا تھا ، اس وجہ سےکبھی میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ سوامی جی اس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں گے۔
کل تک بھائی چارہ ، اخوت ، اپنا پن ، مساوات ، انسانیت کا درس دینےوالےسوامی جی لوگوں کو نفرت بانٹتےپھریں گے۔
اشتعال انگیز تقریروں کےذریعہ لوگوں کےدِلوں میں نفرت کا یہ بیج بوکر اُنھیں ایک دُوسرےکےخون کا پیاسا بنائیں گے۔
لیکن یقین نہ کرنےکی کوئی وجہ ہی نہیں تھی ۔
روزانہ اخبارات میں سوامی جی کےجلسوں کی رپورٹیں تصویروں کےساتھ شائع ہوتی تھیں اُن کی زہریلی تقریروں کو نمایاں انداز میں شائع کیا جاتا تھا ۔
یہاں تک یہ بات مشہور ہوگئی تھی ۔
سوامی جی نےجس شہر میں تقریر کردی اُس شہر میں فرقہ ورانہ فساد ہونا لازمی ہوجاتا تھا ۔
گذشتہ دو سالوں میں میں نےخود سوامی جی کےدو تین جلسوں میں شرکت کی تھی ۔ لیکن میں سوامی جی کی پوری تقریر نہیں سن سکا ۔ جو جو زہر اُنھوں نےاس تقریر میں اُگلا تھا ‘ میں کوئی شنکر نہیں تھا جواس زہر کو اپنےحلق کےنیچےاُتار لیتا ۔
میں چپ چاپ جلسہ سےاُٹھ آیا ۔
آج بھی اس مقام پر میں سوامی جی کےجلسےمیں شریک ہونےکےلئےنہیں آیا تھا ۔
بلکہ اس پل سےگذر رہا تھا تو اس ہورڈنگ پر نظر پڑی ۔ اور نیچےمیدان میں لگےلاو

¿ڈ اسپیکروں سےسوامی جی کی آواز سنائی دی تو رُک گیا ۔
اور اب جب سوامی جی کی کار میں ان کےساتھ ایک انجان منزل کی طرف جارہا تھا تو سوامی جی سےکیا بات کروں میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔
میری آنکھوں کےسامنےایک سیدھا سادہ برہمن گھوم رہا تھا جو میرےپڑوس میں رہتا تھا ۔
اس علاقےکےایک غنڈےنےریلوےلائن کےقریب کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکےایک جھونپڑ پٹی بسائی تھی ۔
اس میں میرا بھی ایک کرایےکا مکان تھا ۔ جس کا میں باقاعدگی سےاس غنڈےپوتیا کو کرایہ دیتا تھا ۔ پھر اس نےمیرےمکان اور ریلوےلائن کی دیوار کےدرمیان جو تھوڑی سی جگہ بچی تھی اس جگہ بھی ایک

جھونپڑابنا دیا۔ دودن بعد اس میں ایک نیاکرایہ دار بھی آگیا ۔
یہ کوئی بنارس کا پنڈت تھا ۔
سوامی وشنو پنت اور ان کی بیوی ۔
بنارس کےگھاٹوں پر پوجا پاٹ کرکےوہ اپنا اور اپنےخاندان والوں کا گذر بسر کرتےتھے۔ بنارس میں اچھا مکان تھا ۔ بال بچےتھےجو پڑھ رہےتھے۔ لیکن پوجا پاٹھ سےاتنا پیسہ نہیں ملتا تھاکہ جس سےاپنا اور اپنےخاندان والوں کاپیٹ بھر سکے۔
کسی نےمشورہ دیا ۔ ” پنڈت جی آپ ممبئی کیوں نہیں چلےجاتے؟ بہت بڑا شہر ہےلوگ اتنےدھارمک تو نہیں ہیں لیکن دھرم کےکاموں میں بےانتہا پیسہ خرچ کرتےہیں ۔ ان کےپاس دھرم کےکام کرنےکےلئےوقت نہیں ہے۔ ہاں پیسہ دےکر وہ کام ضرور کرواتےہیں ۔
اپنی پوجا پاٹھ سےاچھی آمدنی کا خواب لےکر سوامی جی بنارس سےممبئی آئےتھےاور اس گندی بستی میں رہنا بھی قبول کرلیا تھا ۔
سویرےسورج نکلنےسےپہلےہی گھر چھوڑ دیتےتھے۔ تو رات دیر گئےواپس گھر آتےتھے۔
پنڈتائن گھر میں اکیلی رہتی تھی ۔اس کا زیادہ تر وقت ہمارےگھر میں میری بیوی اور بچوں کےساتھ گذرتا تھا ۔
سوامی جی دِن بھر شہر کےمندروں کی خاک چھانتےپھرتےتھے۔ شاید کسی مندر میں اُنھیں مستقل طور پر پوجا پاٹ کا کام مل جائے۔ لیکن اس خاک نوردی سےانھیں پتا چلا تھا کہ ان مندروں پر پہلےہی دو دو تین تین پجاریوں نےقبضہ کررکھا ہےاور وہ کسی اور کی دال گلنےنہیں دیتےہیں ۔
ایسےمیں وہ ایسےگاہک ڈھونڈتےتھےجو اُنھیں گھر لےجاکر ان سےپوجا پاٹ کرائے۔
دِن میں ایک آدھ گاہک مل جائےتو اتنا مل جاتا تھا کہ دونوں اپنا پیٹ بھر سکے۔
زمانہ بہت خراب آگیا ہےاکبر بابو ! ‘ ‘وہ روزانہ مجھےدِن بھر کی رُوداد سناتےتھے۔ ” لوگوں کا اب دھارمک کاموں میں وشواس اور شردھا نہیں رہی ہے۔ بڑےسےبڑےپاٹھ کی دکھشنا ٥ اور ١١ روپیہ دیتےہیں ۔ سمجھ لیجئےبنارس سےبرا حال یہاں ہے، مجھےلگ رہا میں نےممبئی آکر غلطی کی ہے۔
میں سوامی جی کا شاگرد بن گیا تھا ۔ سوامی جی ایسی باتیں بتاتےتھےجو میں ساری عمر نہیں جان پاتا ۔ میرا دِل چاہتا تھا سوامی جی کہتےرہیں اور میں سنتا رہوں ۔
اس لئےاکثر اتوارکو جب مجھےچھٹی ہوتی تھی میں سوامی جی کےساتھ مندر جاتا تھا ۔
مسلمان ہونےکےناطےمندر میں تو نہیں جاسکتا تھا ‘ مندر کےباہر گھنٹوں بیٹھ کر مندر میں ہوتا سوامی جی کا پاٹھ سنتا تھا ۔ سوامی جی کی محبت ،بھائی چارے، اُخوت ، مساوات ، انسانیت کا سبق دینےوالی باتیں ۔ مجھےوہ انسان کےرُوپ میںفرشتہ محسوس ہوتےتھے۔
اُنھوں نےایک سال ہمارےپڑوس میں گذارا ہوگا ۔ لیکن اُن کی حالت غیر رہی ۔ کسی دوکان کےافتتاح کی پوجا ہو یا کسی کا شرادھ ، تین چار گھنٹےپوجا کرنےپر بھی ١١ روپیہ یا ١٥ روپیہ ہی ملتا تھا ۔ اس میں سوامی جی اپنا خرچ بھی چلاتےاور اپنےبچوں کو بھی پیسہ بھیجتےجو بنارس میں تھے۔
ہر روز کہیں نہ کہیں کسی موضوع پر پاٹھ دیتےلیکن ان کےمطابق اس پاٹھ کو سننےوالےدس بارہ لوگ بھی نہیں ہوتےہیں ۔
ایک دِن اُنھیں ایک نئی قسم کی پیش کش ملی۔
ایک سیاسی پارٹی نےگئو رکشا کےموضوع پر ایک جلسہ رکھا تھا ۔ اُنھیں اِس جلسہ میں اِس موضوع پر بولنا تھا۔ سیاسی پارٹی والوں نےان سےکہا تھا کہ وہ دھرم کےساتھ ساتھ کچھ سیاست پر بھی بولیں۔ اِس جلسےمیں وہ بولےاور سیاسی پارٹی کےافکار کےمطابق بولے، جلسےمیں تالیاں بجتی رہیں اور وہ لوگوں پر چھاگئے۔ سیاسی پارٹی والوں کو لگا کہ اس آدمی کےذریعہ وہ اپنی سیاسی دوکان چلا سکتےہیں ۔ انھوں نےاسےایک نیا نام سوامی وشنو پنت جی دیتےہوئےان سے٠١ ، ٢١ جلسےکرائے۔
تمام جلسےکامیاب رہے‘ ہر جلسےمیں سوامی جی کی تقریر کا انداز جارحانہ ہوتا جاتا تھا ۔ اور لوگوں کی بھیڑ بڑھتی جارہی تھی اور مقبولیت بھی ۔
چند مہینوں کےاندر وہ ایک مشہور و معروف شخصیت بن گئے۔ اور اپنا پرانا مکان چھوڑ کر ایک مشہور علاقےمیں رہنےچلےگئے۔ اس کےبعد سوامی جی نےاس پارٹی کےلئےصرف اشتعال انگیز تقاریر کیں ۔
کار ایک بہت بڑےبنگلےمیں جاکر رُکی تھی ۔ میں کار سےاُترا تو اِس بنگلےکی شان و شوکت دیکھ کر میری آنکھیں چوندھیا گئیں ۔
یہ میرا بنگلہ ہے۔ “ سوامی جی فخر سےبولے۔ ” ملک کےکئی حصوں میں اس طرح کےمیرےکئی بنگلےہیں ، میرےبچےبڑےبڑےکالجوں میں پڑھتےہیں ، میرےکئی دھندےہیں ۔
میں صوفےپر بیٹھ کر سوامی جی کی امارت کا اندازہ لگانےکی کوشش کرتا رہا ۔
اکبر بابو ! آج اگر میں کسی کی دوکان یا بزنس کا افتتاح کرتا ہوں تو اسےبہت بڑی سعادت سمجھتا ہےاور اس کےبدلےمیں مجھےلاکھوں روپیہ دیتا ہے۔ بڑےبڑےلوگ اپنےمردہ رشتےداروں کےدھارمک کاریہ مجھ سےکروانےمیں فخر سمجھتےہیں اور اس کےبدلےمجھےلاکھوں روپیہ دیتےہیں ۔ جس جگہ میرا جلسہ ہوتا ہےلوگ مجھےپیسوں میں تولتےہیں ۔ کل ان ہی کاموں کےبدلےمجھےدس روپیہ مشکل سےمل پاتےتھے۔ آج میرےچاروں طرف دولت رہتی ہے۔ “ سوامی جی بولے۔
فرق صرف اتنا ہوا ہےکہ میں لوگوں کےمیزان کےمطابق بولتا ہوں اور عوام کا میزان کیا ہے‘ جانتےہو ؟ جب میں لوگوں کو اخوت ، بھائی چارے، انسانیت اور دھرم کا اُپدیش دیتا تھا تو میری باتوں کو سننےوالےدس بیس آدمی نہیں ہوتےتھےاور میں کوڑی کوڑی کا محتاج تھا ۔ لیکن آج جب میں لوگوں کو فرقہ پرستی ، نفرت ، اشتعال انگیزی کی ترغیب دیتا ہوں تو لاکھوں لوگ میرےجلسوں میں شریک ہوتےہیں ۔ میرےماننےوالےکروڑوں ہیں ۔ میرےایک ایک بول کےبدلےمجھےلاکھوں روپیہ دیا جاتا ہے، کل میں ایک ایک لفظ اپنےدِل سےبولتا تھا تو کوڑی کوڑی کا محتاج تھا ۔ آج جب ایک ایک لفظ اپنےدِماغ سےبولتا ہوں تو کروڑوں میں کھیلتا ہوں ۔ “ سوامی جی کی بات سن کر میں کسی سوچ میں ڈوب گیا ۔
کس سوچ میں ڈوب گئےاکبر بابو ! “ سوامی جی نےپوچھا ۔
دُنیا کےمیزان کےبارےمیں سوچ رہا ہوں سوامی جی ‘ جس پرآپ تُلےہیں ۔

٭٭٭

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Qurbatein Fasle By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Qurbatein Fasle, Short Story, Urdu

افسانہ قربتیں فاصلی از:۔ایم مبین

کمپیوٹر اسٹارٹ کرکےاُس نےانٹر نیٹ کا کنکشن شروع کیا ۔
خلاف معمول کنکشن جلد مل گیا ۔ ورنہ اِس وقت کنکشن ملنےمیں کافی دِقّت پیش آتی تھی ۔ کنکشن ملنےکےبعد اس نےمانیٹر پر لگا چھوٹا ساویب کیمرہ درست کیا ۔
کیمرےمیں نظر آنےوالا اپنا عکس اُس نےزاویےسےصحیح کیا ، جب اُسےپورا اطمینان ہوگیا کہ کیمرہ اس کی تصویریں صحیح زاویےسےلےرہا ہےتو اُس نےاپنی پسندیدہ ویب سائٹ اوین کی اور اُس میں چیٹنگ کےآپشن پر کلک کیا ۔
مونیٹر پر سیکڑوں نام اور اُن کےدرمیان چلنےوالی گپ شپ کےنتائج اُبھرنےلگے، اُس نے میسنجر پروگرام میں اپنےساتھی کا نام لکھ کر تلاش کیا ۔
معمول کےمطابق اس سائٹ پر اس کا شوہر جاوید موجود تھا ۔ اس نےجاوید کےنام پر کلک کرکےاُسےخصوصی چیٹ روم میں آنےکی دعوت دی ۔
سامنےمونیٹر پر جاوید کا مسکراتا ہوا چہرا اُبھرا ، کانوں میں لگےمائیکروفون میں اُس کی شوخ آواز گونجنےلگی ۔
ہائے! بڑی دیر کی مہرباں آتےآتے؟
نہیں تو میں نےتو معمول کےوقت کےمطابق کمپیوٹر آن کیا ہے، لگتا ہےآج آپ زیادہ فری تھےجو
ہاں آج آفس کا کام جلد ختم ہوگیا تھا اِس لئےنیٹ پر بیٹھ کر تمہارا انتظار کرنےلگا ۔
میرا انتظار کرنےلگےیا پھر کسی اور کےساتھ چیٹ کرنےلگے؟ “ اُس نےمسکرا کر پوچھا ۔
جب اتنی اچھی اپنےگھر والی چیٹ chatکرنےکےلئےساتھ ہوتو پھر دُوسروں کےپیچھےوقت برباد کرنےسےکیا فائدہ ؟
رات میں تو آپ کےپاس وقت ہی وقت ہوتا ہےنا ؟ میں تو ایک دو گھنٹےہی آپ کےساتھ ہوتی ہوں میرےآف لائن ہونےکےبعد ؟
تمہارےآف لائن ہوتےہی گھنٹوں تک ذہن کےپردےپر تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ رقص کرتا رہتا ہے، کانوں میں تمہاری سُریلی آواز گونجتی رہتی ہے۔ میں اسی کےتصور میں کھویا رہتا ہوں اور کب نیند آجاتی ہےپتا ہی نہیں چلتا ہےاور کبھی کبھی تو میں ہماری ساری گفتگو ریکارڈ کرلیتا ہوں اور پھر آف لائن گھنٹوں اسےدیکھتا رہتا ہوں ۔
بہت یاد آتی ہے؟ “ شوہر کی بات سُن کر وہ کچھ جذباتی سی ہوگئی ۔
روزانہ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اس لئےیہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ بہت یاد آتی ہےلیکن وہ جو قربت کی چاہ ہےنا کبھی کبھی بےچین کردیتی ہے۔ “ جاوید نےجوا ب دیا ۔
اس کےبعد باتوں کا سلسلہ چل پڑا ۔
ہزاروں طرح کی باتیں تھیں ۔
جاوید نےپہلےبچوں کےبارےمیں پوچھا ۔ اس نےبچوں کی دِن بھر کی سرگرمیوں کی رپورٹ دی ۔ اس کےبعد آس پاس پڑوسیوں کی باتیں ، ملک کےحالات وغیرہ پر گفتگو ۔
یہ روز کا معمول تھا ۔
وہ روزانہ ایک دو گھنٹےانٹرنیٹ پر بیٹھ کر باتیں ضرور کرتےتھے۔ باتیں کرتےہوئےاُسےمحسوس ہوتا تھا جیسےوہ بالکل اُس کےقریب ہے‘ اُس سےہزاروں میل دور نہیں ہے۔
اُس کا چہرہ جاوید کو اپنےکمپیوٹر کےمانیٹر پر دِکھائی دیتا تھا ، مائیک کےذریعہ اُس کی آواز جاوید کےہیڈ فون تک پہونچتی تھی اور اس کےہیڈ فون سےجاوید کی آواز اُس کےکانوں میں اترتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہےجیسےوہ پلنگ پر لیٹےایک دُوسرےسےباتیں کر رہےہیں ۔
فرقت کا احساس جو برسوں تک کچوکےدیتا تھا یک بہ یک ختم سا ہوجاتا تھا ۔
زمانہ کس تیزی سےبدلا اور حالات بھی کتنےبدل گئے۔ سوچیں تو حیرت ہوتی ہے۔
جاوید دس سالوں سےگلف میں ہے۔
دو سال میں ایک بار دو مہینےکےلئےآتا ہےاور اس کےبعد پھر پورےدو سالوں کی جدائی ۔
شادی ہونےکےبعد دونوں کو ساتھ ساتھ رہنےکا زیادہ موقع نہیں مل سکا تھا ۔ جب اُس کا جاوید کےساتھ رشتہ طےہوا تھا اس وقت اس نےجاوید کو دیکھا بھی نہیں تھا ۔ جاوید اس وقت گلف میں تھا ‘ دو مہینےکےلئےوطن واپس آنےوالا تھا ۔ اُس کےماں باپ جاوید کےلئےکسی اچھی لڑکی کی تلاش میں تھے۔ جاوید کےآتےہی آٹھ دس دِنوں میں اُس کی شادی کرنی تھی ۔
شادی کےبعد چھٹیوں میں وہ دو ماہ وطن میں رہ کر واپس گلف جانا چاہتا تھا ۔
کسی نےاُنھیں اس بارےمیں بتایا کہ وہ اس کےگھر رشتہ لےکر آئے۔ اس کےامی ابا کو بھی اس کےلئےجاوید سےمناسب کوئی اور لڑکا نظر نہیں آیا ۔
اِس لئےفوراً رشتہ طےہوگیا ۔
نہ تو اس نےجاوید کو دیکھا اور نہ جاوید نےاس کو ۔
اس نےصرف جاوید کی تصویر دیکھی تھی اور جاوید نےبھی صرف اس کی تصویر دیکھی تھی ۔
چھٹیوں میں جاوید آیا اور آٹھ دِن بعد ان کی شادی ہوگئی ۔
شادی سےپہلےجاوید کےبارےمیں کئی وسوسےاس کےذہن میں تھے۔
اس نےنہ تو جاوید کےبارےمیں کسی سےسنا تھا نہ کبھی دیکھا تھا ۔ پتا نہیں کس طرح کےمزاج کا ہوگا ، اسےپسند کرےگا بھی یا نہیں ؟ ماں باپ نےتو زندگی بھر کا رشتہ باندھ دیا لیکن یہ رشتہ نبھ پائےگا یا نہیں ؟ یہ طےہوا ہےکہ جب تک جاوید پوری طرح سیٹل نہیں ہوجاتا گلف میں نوکری کرتا رہےگا ۔ دوسال بعد دو مہینےکےلئےآتا رہے گا ۔
تو اس کا مطلب ہےاس کا شوہر اسےدوسالوں میں صرف دو ماہ کےلئےملےگا ۔ باقی کے٢٢ مہینےاسےاکیلےرہنا پڑےگا ‘ کیا وہ اکیلی رہ پائےگی ؟
اکیلی رہنےکی کوئی بات نہیں تھی ۔ اس کی سہیلیاں اسےسمجھاتی تھیں ۔ تو ٢٢ مہینےسمجھ لےکہ تیری شادی ہی نہیں ہوئی ہے، وقت اسی طرح گذرےگا جس طرح فی الحال گذر رہا ہے۔
لیکن وہ ذہنی طور پر اس کےلئےبھی تیّار نہیں تھی ۔ اس وقت وہ نئےلوگ نئےرشتے۔ کیا وہ وہاں رہ پائےگی ؟
لیکن شادی کےکچھ دِنوں بعد ہی اس کےسارےخدشات اور وسوسےبےبنیاد ثابت ہوئے
اس نےجاوید میں ایسا کچھ بھی نہیں پایا جن خدشات کےبارےمیں وہ سوچتی رہی تھی اور سسرال میں تو اُسےاپنےگھر سےاچھا ماحول ملا ۔ وہاںاسےاپنےگھر سےزیادہ آزادی محسوس ہوئی ۔
شادی کےبعد وہ ایک ماہ تک ہنی مون کےسلسلےمیں سارےہندوستان کی سیر کرتےرہے۔ ٥١ دِنوں تک رشتہ داروں کی دعوتیں اُڑاتےرہےاور ٥١ دِنوں تک گھر میں رہے۔
دو ماہ بعد جاوید واپس چلا گیا ۔
جاوید کےجانےکےبعد اُسےمحسوس ہونےلگا جیسےاُسےکسی محل سےنکال کر قید خانےمیں قید کردیا گیا ہے۔
وہی گھر تھا جہاں وہ رہتی تھی ، وہی لوگ تھےجن کےدرمیان وہ رہتی تھی ۔لیکن ایک جاوید کےنہ ہونےکی وجہ سےاس ماحول میںکتنی زبردست تبدیلی آگئی تھی ۔
اُسےلگتا تھا اس کی زندگی کا بہت کچھ اس سےچھین لیا گیا ہے۔ دو مہینےمیں اسےلگتا تھا جسےاسےساری دُنیا کی خوشیاں مل گئی ہیں ۔ لیکن دو ماہ بعد اس سےجیسےاس کی ایک ایک خوشی چھینی جارہی ہے۔ گھنٹوں وہ تنہائی میں بیٹھ کر اِن باتوں کےبارےمیں سوچ سوچ کر آنسو بہاتی رہتی تھی ۔
اس کی سہیلیاں آکر اسےسمجھاتی تھیں لیکن پھر بھی اس کا دِل بہل نہیں پاتا تھا ۔
گلف جانےکے٠١ دِنوں بعد جاوید کا خط آیا ۔
خط اِتنا جذباتی تھا کہ اسےپڑھ کر اُس کا دِل بھر آیا اور ایک نیا احساس اسےکچھ کہنےلگا کہ جو حالت اُس کی ہے‘ جاوید کی بھی وہی حالت ہے۔ جواب میں اُس نےبھی جاوید کو خط لکھا وہ جاوید کےخط سےبھی زیادہ جذباتی تھا ۔
کیونکہ اُس کےجواب میں جاوید نےبھی اِسی طرح کا جذباتی خط لکھا تھا ۔
دو سالوں تک خطوط کا سلسلہ چلتا رہا ۔
اِس دوران وہ ایک بچےکی ماں بن گئی ۔ اعراف کےآجانےسےاس کی تنہائی کچھ کم ہوئی تھی ۔ کیونکہ سارا وقت اس کی دیکھ بھال میں گذرتا تھا ۔ لیکن رات میں جاوید کی یاد نہ آئےایسا ہو نہیں سکتا تھا ۔ رات بھر وہ بستر پر کروٹیں بدلتی تھی ۔ اُسےپتا تھا ہزاروں میل دُور جاوید بھی اِسی طرح کروٹیں بدلتا ہےکیونکہ اس کےخطوط سےیہ صاف پتا چلتا ہے۔
دونوں کےدرمیان ہزاروں میل کےفاصلےہیں ۔
دو مہینےکےلئےجاوید چھٹیوں میں واپس وطن آیا تو وہ فاصلےپھر سمٹ کر قربتوں میں تبدیل ہوگئے۔
لیکن وہ قربتیں صرف دو مہینےکی تھیں۔
اور پھر درمیان میں ٢٢ مہینوں کےفاصلےحائل ہوگئے۔
دونوں کےدرمیان خط و کتابت ہی ایک دُوسرےکا حال احوال جاننےکا واحد ذریعہ تھا ۔
٠١ ، ٥١ دِنوں میں جاوید کا خط آتا تھا ۔ جواب لکھنےکےبعد جاوید کےجواب کا انتظار رہتا تھا
روزانہ نگاہیں گلی میں ڈاک تقسیم کرتےپوسٹ مین پر لگی رہتی تھی ۔ اُس کو دیکھتےہی دِل دھڑک اُٹھتا تھا اور دِل میں اُس کی ایک لہر دوڑ اُٹھتی تھی ۔ شاید وہ جاوید کا کوئی پیغام لےآئے۔ لیکن وہ روزانہ پیغام لانےسےتو رہا ۔ جاوید کےخطوط تو ٠١ ، ٥١ دِنوں میں ہی آتےتھے۔
جاوید کےآنےکی تاریخ کا پتا چلتےہی دِل کی حالت عجیب پاگلوں سی ہوجاتی تھی ۔
ایک ایک لمحہ انتظا ر اور منصوبہ بندی میں گذرتا تھا ۔
مہینےدو مہینےکا ایک ایک لمحہ کا پورا شیڈول تیّار کرلیا جائےکہ کب کیا کرنا ہےتاکہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو اور کام ادھورا نہ رہ جائے۔
دو مہینہ کےلئےجاوید آتا تو یہ بات ضرور زیر بحث آتی کہ وہ واپس نہ جائے۔
لیکن جاوید کا جواب ہوتا ۔
ثوبی میں خود واپس جانا نہیں چاہتا ہوں ۔ لیکن یہاں رہ کر کیا کروں گا؟ مجھےیہاں ہزار دو ہزار روپیہ کی نوکری ملنی مشکل ہےیا کسی کام سےبھی اتنی آمدنی مشکل ہے‘ اس میں تو زندگی گذر نہیں سکتی ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہاں کام کرکےاتنا پیسہ جمع کرلوں کہ پھر ہم ساری زندگی آرام سےاس کےسہارےگذار دیں پھر ہمیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو ۔
وہ کہتی ‘ وہ جتنا لاکر دےگا اُسی میں گذارا کرلےگی لیکن واپس نہ جائے۔ تو اُسےسمجھاتا کہ اس طرح زندگی نہیں گذر سکتی ۔ ان کےسامنےپوری زندگی ہے، اپنےبچوں کا مستقبل ہے۔
اسےہتھیار ڈالنےپڑتےاور جاوید واپس چلا جاتا ۔
پھر وہی فاصلے، وہی خطوط کےذریعہ فاصلوں کو کم کرنےکی ناکام سعی ۔
کچھ دِنوں بعد پڑوس میں فون آگیا تھا تو یہ آسانی ہوگئی تھی کہ جاوید دو تین مہینےمیں ایک آدھ بار فون کرلیتا تھا ۔ یا وہی کبھی کبھی جاوید سےفون پر بات کرلیتی تھی ۔
لیکن فون کا بل اتنا آتا تھا ۔ زیادہ دیر اور بار بار باتیں کرنا ممکن نہیں تھا ۔
لیکن اس وجہ سےیہ آسانی تو ہوگئی تھی کہ کم سےکم اُنھیں ایک دُوسرےکی شناسا آواز تو سنائی دیتی تھی ۔
اس کےبعد جاوید آکر گیاتو سفینہ آگئی ۔
اب اسے دو دو بچوں پر دھیان دینا پڑتا تھا ۔ اس لئےجاوید کی یادوں کےلئےوقت کم ملتا تھا ۔
اس دوران اُنھوں نےاپنےگھر میں فون لگا لیا ۔
اب جاوید کےفون کےلئےاُسےپڑوسی کےگھر جانا نہیں پڑتا تھا ۔ گھر میں ہی اطمینان سےبیٹھ کر جاوید سےباتیں کرلیتی تھی ۔ یا اگر دِل میں آتا اور اسےمحسوس ہوتا تو جاوید اس وقت مل سکتا ہےتو جاوید کو خود ہی فون کرلیتی ۔ اب خطوط کا تبادلہ کچھ کم ہوگیا تھا ۔
کبھی کبھار وہ ایک دُوسرےکو خط لکھتےتھے۔ ایسی باتیں جو ٹیلی فون پر نہیں ہوپاتی یا پھر ٹیلی فون بند ہونےکی وجہ سےرابطہ نہیں ہوسکا تو خطوط کےذریعہ آدھی ملاقات کی پرانی رسم نبھائی جاتی ۔
اب کی بار جاوید آکر گیا تو ملاقات کا ایک اور ذریعہ وجود میں آگیاتھا ۔
وہ اسےایک سائبر کیفےلےگیا اور اسےای میل کرنا اور چیٹنگ کرنا سکھا گیا ۔
اب ان کی باتیں فون کےساتھ ساتھ ای میل پر بھی ہونےلگی ۔ جاوید بچوں کی تصویریں مانگتا تو وہ تصویر کو اسکین کرکےای میل سےاسےبھیج دیتی ۔ جاوید اپنی تازہ تصویریں ای میل سےاسےروانہ کردیتا تھا ۔
کبھی جاوید ای میل سےاطلاع دےدیتا کہ وہ کس وقت چیٹنگ کی ویب سائٹ پر آن لائن ہوگا ۔
اس وقت کسی سائبر کیفےمیں جاکر وہ سائٹ کھولتی ، جاوید آن لائن ہوتا تو پھر گفتگو شروع ہوجاتی ۔ اور اس گفتگو میں گھنٹوں گذر جاتے۔
وہ ای میل چیک کرنےکےلئےاور جاوید سےچیٹنگ کرنےکےلئےہفتےمیں دو تین بار سائبر کیفےمیں جاتی تھی ۔ اب ٹیلی فون کا اتنا استعمال نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ انٹرنیٹ سب سےآسان اور سستا ذریعہ تھا ۔
اس بار جاوید واپس گلف گیا تو اسےکمپیوٹر کا تحفہ دےگیا ۔ کمپیوٹر تمام جدید آلات اور سہولیات سےلیس تھا ۔ اب اسےچیٹنگ میں کی بورڈ سےٹائپ نہیں کرنا پڑتا تھا ۔ مونیٹر پر لگےکیمرےسےاس کی تصویر جاوید کو دِکھائی دیتی تھی ۔ جاوید کی تصویر اُس کےمونیٹر پر اُبھرتی تھی ۔ مائیک کےذریعہ اُس کی آواز جاوید کےکانوں تک پہونچتی تھی اور جاوید کی آواز اُس کےکانوں تک ۔
جب وہ آن لائن ہوتےتو ایسا محسوس ہوتا ۔ سارےفاصلےسمٹ گئےہیں یا فاصلےسمٹ کر قربتوں میں تبدیل ہوگئےہیں ۔
روزانہ کا ایک معمول بن گیا ہے۔
روزانہ وہ ایک دو گھنٹہ انٹرنیٹ کےذریعہ ملاقات کرلیتےہیں ۔ اس طرح اُنھیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک دُوسرےسےہزاروں میل دور ہیں اور کئی سالوں سےنہیں ملےہیں۔ اسےپتا ہوتا جاوید نےآج کون سا کپڑاپہنا ہے۔ ، آج کیا کھایا ہے۔ تو جاوید کو علم ہوتا تھا کہ آج گھر میں کیا پکا ہے، بچےکب اسکول گئےاور اُنھوں نےآج کیا کیا شرارتیں کیں ۔
اس دِن بھی معمول کےمطابق گفتگوہوتی رہی ۔
باتوں میں جاوید نےکہا ۔
میری چھٹیوں کےدِن نزدیک آرہےہیں ۔ کمپنی والےکہتےہیں اگر اِس بار میں نےچھٹیاں نہیں لی تو کام کی دوگنا تنخواہ دیں گے۔ دوگنا تنخواہ اور آنےجانےکا خرچ بھی بچےگا ۔ لاکھوں کی بچت ہوسکتی ہے کہو کیا ارادہ ہے؟
اگر لاکھوں کی بچت ہوسکتی ہےتو آپ اِس بار مت آئیے۔ “ اُس کےمنہ سےبےساختہ نکلا ، ویسےبھی یہاں اب کچھ نہیں جو آپ یہاں آکر جاننا اور دیکھنا چاہتےہیں ۔ روزانہ ایک دُوسرےکےحالات کا پتہ تو چل ہی جاتا ہے۔
ہاں ‘ میں بھی سوچتا ہوں اِس بار وطن نہیں آو
¿
ں۔ “ جاوید نےجواب دیا ۔ کمپیوٹر بند کرکےجب اُس نےاپنےجواب پر غور کیا تو سوچ میں پڑگئی ۔
کہاں وہ جاوید کےآنےکےلئےایک ایک لمحہ گنتی تھی ۔ کہ کب یہ فاصلےسمٹے۔
اور آج خود کہہ رہی ہےآنےکی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ
فاصلےقُربتیں بن گئےہیں ‘ قُربتوں میں بھی فاصلوں کا احساس جاتا رہا ہے۔

٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Tariki By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Tariki, Urdu

�po p �\u p�w span>
¿
اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔
ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔
ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔
فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔
شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟
انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔
صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟
جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔
زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔
اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔
نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔
اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
تم ؟
صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔
تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو
¿
نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنےبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی،
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
M.Mubin
Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI_ 421302
Dist.Thane Maharashtra India)
Mob:- 09322338918) )
mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 20-11-2010

0 comments:

Post a Comment


About this blog

Followers