Urdu Short Stories By M.Mubin Part One






افسانہ تریاق از:۔ایم مبین


رات بارہ بجےکےقریب میٹنگ سےجب وہ گھرآئےتو اُنھوں نےشاکرہ کو بےچینی سےڈرائنگ روم میں ٹہلتا ہوا پایا ۔ اُس کی حالت دیکھ کر اُن کا دِل دھک سےرہ گیا اور ذہن میں ہزاروں طرح کےوسوسےسر اُٹھانےلگے۔ شاکرہ کی بےچینی سےاُنھوں نےاندازہ لگایا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہےجس کی وجہ سےشاکرہ اِتنی بےچین ہے۔
وہ کمرےمیں داخل ہوتےتو شاکرہ نےسر اُٹھا کر اُن کو دیکھا‘ اُس کےہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اُبھری اور پھر اُس نےاپنا سر جھکا لیا ۔
جیسےوہ بہت کچھ اُن سےچھپانا چاہتی ہو ۔ اگر نظریں مل گئیں تو اُسےڈر ہےکہ وہ اُس کی آنکھوں سےسب کچھ پڑھ لیں گے۔
کیا بات ہے‘ تم ابھی تک سوئی نہیں ؟ “ اُنھوں نےشاکرہ سےپوچھا ۔
نہیں ‘ نیند نہیں آرہی ہے۔“ شاکرہ نےجواب دیا ۔
سب ٹھیک تو ہے؟ “ اُنھوں نےاپنےدِل پر جبر کرکےپوچھا ۔
عادل کی حالت بگڑتی جارہی ہی۔ “ شاکرہ نےایک ایک لفظ کو چبا کر کہا ۔ ”مسلسل دو گھنٹےسےچیخ چیخ کر اُس نےسارےبنگلےکو سر پر اُٹھا لیا تھا ۔ پڑوس کےبنگلوں تک اُس کی چیخیں جارہی تھیں اور وہ لوگ بھی انکوائری کےلئےآرہےتھے۔ کمرےکی ہر چیز کو اُس نےتہس نہس کردیا ہے۔ مجبوراً ڈاکٹر کو بلا کر اُسےنیند کا انجکشن دینا پڑا ‘ لیکن ڈاکٹر کہتا ہےاِس انجکشن سےمضبوط سےمضبوط آدمی دس گھنٹوں تک سویا رہتا ہے‘ لیکن عادل کی جو حالت ہے‘ وہ جس اسٹیج میں ہے‘مجھےڈر ہےکہ دو گھنٹےبعد ہی اِس انجکشن کا اثر ختم ہوجائےگا اور اِس کی حالت پھر اُسی طرح سےہوجائےگی ۔ میرا مشورہ ہےکہ اب اس پر اور زیادہ جبر نہ کیا جائے۔ وہ جو ڈوز لیتا ہےاسےدےدیا جائےاسی سےوہ نارمل ہوسکتا ہےایسی حالت میں زیادہ دِنوں تک رہنےسےاُس کی جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہی
شاکرہ کی باتیں سن کر اُن کا دِل ڈوبنےلگا ۔ اُنھوں نےشاکرہ کو کوئی جواب نہیں دیا اور بےاِختیار عادل کےکمرےکی طرف بڑھ گئے۔
عادل پلنگ پر بےخبر سورہا تھا ۔
اُس کی اور کمرےکی حالت دیکھ کر وہ کانپ اُٹھے۔
کمرےمیں کوئی بھی چیز ٹھکانےپر نہیں تھی ۔ ہر چیز بکھری یا ٹوٹی ہوئی تھی ۔ عادل کےسر کےبال نچےہوئےتھےاُس کےچہرےاور جسم پر کئی مقام پر زخموں کےنشانات تھے۔
اُنھیں پتہ تھا جنون کےعالم میں عادل نےاپنےآپ کو ہی زخمی کیا ہوگا ۔ ایسی حالت میں خود کو اذیّت پہنچانےسےہی اُسےسکون ملتا ہے۔
زیادہ دیر وہ اور عادل کو دیکھ نہیں سکےاور تیزی سےکمرےکےباہر آگئے۔ شاکرہ کےضبط کا باندھ ٹوٹ گیا تھا ۔ اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ اُس نےاپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا چہرہ چھپا لیا تھا ۔
خداکےلئےاب عادل پر اور کوئی جبر مت کیجئے۔ وہ جس حالت میں جیتا ہےاُسےاُسی حالت میں زندہ رہنےدیجئے۔ کم سےکم وہ ہماری آنکھوں کےسامنےتو رہےگا ۔ ورنہ ایسی حالت میں وہ ایک دِن مرجائےگا ۔ اگر اُسےکچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا ؟ میری ایک ہی تو اولاد ہے۔ یہ ہماری زمین ، جائداد ، دھن ، دولت سب عادل ہی کا تو ہے۔ وہ اکیلا ہی اِن سب کا وارث ہے‘ جب وہی نہیں ہوگا تو پھر اِن چیزوں کا کیا فائدہ ؟ آپ نےکس کےلئےیہ سب کمایا ہے‘ عادل کےلئےہی نا ؟ پھر عادل کی زندگی کےدُشمن کیوں بن رہےہیں ، وہ جو چاہتا ہےاُسےدےدیجئے۔
تم مجھےعادل کی زندگی کا دُشمن کہہ رہی ہو ؟
شاکرہ کی بات سن کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
عادل میری اکلوتی اولاد ہے۔ یہ سب کچھ میں نےاُسی کےلئےتو کمایا ہے۔مجھ سےاپنی اولاد کا پل پل مرنا دیکھا نہیں جاتا ۔ اُس کی پل پل موت میرےلئےاِتنی بڑی سزا ہےجسےمیںبیان نہیں کرسکتا ۔ مجھ سےاِس کی تڑپ دیکھی نہیںجاتی اور بس اِسی لئےاپنےآپ پر جبر کرتا ہوں ‘ باپ ہوں نا۔سوچتا ہوں وہ اسی طرح تِل تِل مرنےکےبجائےایک بار مر جائےتو اسےبھی اس عذاب سےنجات مل جائےاورہم بھی صبر کرلیں گے۔
آپ ایسا کیوں سوچتےہیں ؟ خدا ہمارےبچےکو شفا دےگا ۔
اُن کی بات سن کر شاکرہ تڑپ اُٹھی ۔
اگر خدا ہمارےبچےکو کوئی بیماری دیتاتو اُس کی ذات سےہمیں شفا یابی کی اُمید ہوتی ۔ لیکن یہ روگ تو ہمارےبیٹےنےخود پالا ہےاور میں سمجھتا ہوں ‘ اِس کا ذمہ دار ہےتمہارا بےجا لا ڈ و پیار اور میری کاروباری مصروفیات
میرےکاروبار نےمجھےاِتنا وقت نہیں دیا کہ میں اپنےکاروبار کےساتھ ساتھ اپنی توجہ اپنےبیٹےپر بھی دےسکوں اور تمہارےلئےتو وہ تمہاری اکلوتی اولاد تھی ۔ اُس کی ہر جائز ، ناجائز فرمائش تمہارےسر آنکھوں پر تھی ۔ بس یہی زہر تھا جو اُس کی شریانوں میں بہتا گیا اور اُس کےوجود کا ایک حصّہ بن گیا ۔
شاکرہ نےکوئی جواب نہیں دیا وہ سسکتی رہی ۔
اُنھوں نےاندازہ لگالیا تھا عادل کی کیا حالت ہوگی ۔
ڈوز کا وقت پورا ہوگیا تھا اور اُسےاس کی سخت ضرورت تھی ۔
وہ ٹال رہےتھے‘چاہ رہےتھےکہ عادل خود میں قوتِ اِرادی پیدا کرےاور وہ اس نشےکی گرفت سےباہر نکلنےکی کوشش کرے۔
دو دِن سےعادل اُن کےسامنےگڑگڑا رہا تھا ۔
ڈیڈی ! مجھےپیسےچاہیے، مجھےپانچ ہزار روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔ پلیز مجھےپانچ ہزار روپےدےدیجئے، میں آپ سےوعدہ کرتا ہوں ، میں مہینہ بھر آپ سےپیسہ نہیں مانگوں گا ۔
لیکن اُنھوں نےپیسہ نہیں دیا ۔
اِس بار اُنھوں نےاِس بات کا بھی خاص خیال رکھا تھا کہ عادل کےپاس کوئی قیمتی چیز نہ رہے، جسےفروخت کرکےوہ پانچ ہزار روپےحاصل کرلےاور اُس سےاپنی من چاہی مراد حاصل کرلے۔
اُنھوں نےشاکرہ کو بھی سخت تاکید دےرکھی تھی ۔
خبردار ! اگر تم نےاُسےپیسےدئےتو ۔ اگر مجھےپتہ چلا کہ تم نےاُسےپیسےدئےتو میں تمہیں گھر میں نہیں رکھوں گا ۔
وہ دیکھنا چاہتےتھےکہ عادل اِس زہر کےبنا کتنےدِنوں تک رہ سکتا ہے۔
لیکن ایک دِن میں ہی عادل کی وہ حالت ہوگئی تھی کہ اُسےدیکھ کروہ خود بھی گھبرا گئےتھے۔
اُنھوں نےڈاکٹر کو فون کرکےاِس سلسلےمیں گفتگو کی ۔
باقر صاحب ! آپ کی کوشش بےکار ہے، عادل آخری حدوں کو پار کرچکا ہے۔ اب وہ زہر ہی اُسےزندہ رکھےگا ۔ آپ اپنےبیٹےکی زندگی چاہتےہیں تو اسےوہ زہر دےدیجئے۔ اُس کی زندگی بڑھ جائےگی۔ آپ جتنےدِنوں تک اُسےاس زہر سےدُور رکھیں گے‘ اُس کی زندگی کم سےکم ہوتی جائےگی ۔
ڈاکٹر ! قیمتی سےقیمتی نشہ آور شراب ، گرد ، چرس ، افیم اور اسمیک ’ کیا کسی سےبھی کام نہیں چل پائےگا ؟
باقر صاحب ! ناگ کےزہر میں جو نشہ ہوتا ہےوہ ایک ہزار شراب کی بوتلوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جو شخص ناگ کےزہر کےنشےکا عادی ہو آپ اُسےشراب کی بوتل سےبہلانےکی کوشش کررہےہیں ؟ آپ کی یہ کوشش بےکار ہےباقر صاحب ! اپنےبیٹےکی زندگی سےمت کھیلئے۔ اگر آپ اُسےزندہ دیکھنا چاہتےہیں تو اُسےزہر دیجئے زہر ناگ کا زہر ! “
عادل کےلئےاُنھوں نےدُنیا کےبڑےبڑےڈاکٹروں سےرابطہ قائم کیا تھا ۔
لیکن اُنھیں ہر طرف مایوسی ہی ملی تھی ۔ ایک دو ڈاکٹروں نےدِلاسہ دیا تھا مگر اِس بات کی اُمید نہیں دِلائی تھی کہ عادل اچھا ہوجائےگا۔
اپنےکمرےمیں آنےکےبعد وہ کمرےمیں ٹہلنےلگے۔
نیند اُن کی آنکھوں سےکوسوں دُور تھی ۔ شاکرہ بستر پر لیٹی تھی ، نیند اُس کی آنکھوں میں بھی نہیں تھی ۔
اُنھیں پتا تھا سوکر کوئی فائدہ نہیں ۔
تھوڑی دیر بعد ہی اُنھیں اُٹھنا پڑےگا ۔
نیند سےجاگنےکےبعد عادل وہ ہنگامہ مچائےگا کہ سارا محلہ جاگ جائےگا ۔
سب کچھ کیسےہوگیا۔ اب سوچتےہیں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ڈاکٹروں کاکہنا ہےکہ عادل کو ٢١ ، ٥١ سال کی عمر سےنشہ کی لت ہے۔
وہ باقاعدگی سےاسکول اور کالج جاتا تھا ۔ دِن ، دِن بھر گھر سےغائب رہتا تھا اور رات دیر سےگھر آتا تھا ، ماں پوچھتی تو بتادیتا تھا کہ اس دوست کےساتھ تھا یا اُس دوست کےساتھ تھا ۔ شاکرہ عادل کی یہ آوارگیاں اُن سےچھپاتی رہتی تھی ۔
عادل کو خرچ کےلئےوہ بھی پیسےدیتےتھےاور شاکرہ بھی ۔بس ان ہی پیسوں کی وجہ سےوہ غلط صحبت میں پڑ گیا ۔
پہلےدوستوں نےاُسےبیئر پلائی پھر وہسکی ۔
پھر اسےچرس ، افیون ، گانجا ، اسمیک اور گرد کا چسکہ لگایا ۔ ایل ۔ ایس ۔ ڈی اور دُوسری نشہ آور چیزوں کےٹیکےوہ لینےلگا ۔
اور انھیں اِس کا پتہ ہی نہیں چل سکا ۔
اسکول میں کبھی فیل ہوتا تو کبھی ان کےرسوخ ، وسیلےسےپاس ہوجاتا ۔
کالج میں بھی یہی حال تھا ۔ اُنھوں نےاُسےکوئی ٹیکنیکل یا بڑےکورس میں داخل نہیں کیا تھا ۔
وہ اُس کی ذہنی سطح سےاچھی طرح واقف تھے۔
اِن کا خیال تھا اگر عادل گریجویشن بھی کرلےاور اُن کا کاروبار اگر سنبھال نہ سکےتو کم از کم اس میں اُن کاہاتھ ہی بٹائےتو کافی ہے۔ اُنھوں نےاُسےاچھےکالج میں داخل کیاتھا ۔
لیکن اس کی کارکردگی مایوس کن ہی رہی ۔ ایک ہی کلاس میں دو دو تین تین سالوں کا قیام اس کا معمول بن گیا ۔
جب وہ اُس کےبارےمیں اپنےدوستوں سےبات کرتےتو دوست اُسےتسلّی دیتےتھے۔
بچوں میں جب تک ذمہ داری کا احساس نہ ہو وہ دِل سےکوئی کام نہیں کرپاتےہیں ۔ ہمارےبچوں کو پتہ ہےکہ پڑھنےکےبعد کچھ کرکےہی وہ اپنا اور ہمارا پیٹ بھر پائیں گے۔ اِس لئےوہ پڑھائی میں دھیان لگاتےہیں ۔ عادل کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہے، اُسےپتہ ہےکہ اُس کےباپ نےاُس کےلئےاتنا کمایا ہےکہ اُس کی سات پشتیں بھی بیٹھ کر کھائیں گی ۔ اس لئےلاپرواہ ہوگیاہے۔پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا ۔ کاروبار میں لگادو سب ٹھیک ہوجائےگا ۔
لیکن اُنھیں عادل کو کاروبار میں لگانےکی نوبت نہیں آسکی ۔
اِس دوران اُنھیں پتا چلا کہ عادل ڈرگس لیتا ہےاور نشےکا عادی ہوگیا ہے۔
کئی بار نشےکی وجہ سےیا نشہ نہ ملنےکی وجہ سےاس کی حالت خراب ہوئی ۔
ڈاکٹروں کو بتایا گیا ۔ کئی بار اسےاسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ لیکن ڈاکٹروں نےصاف جواب دےدیا تھا ۔
عادل نشےکی آخری حد پار کرچکا ہے‘ اُس سےنشہ چھڑانا بہت مشکل ہے۔ اب اگر یہ کوشش کی گئی تو اُس کی زندگی کو خطرہ پیداہوسکتا ہے۔
ایک دوبار مہنگےاسپتالوں میں رکھ کر عادل کےنشےکی لت چھڑانےکی کوشش کی گئی ۔
جب تک وہ اسپتال میں رہا ،نشےسےدُور رہا ‘ لیکن گھر آتےہی سب کی نظریں بچاکر آخر نشےکےاڈّےپر وہ پہنچ ہی گیا اور سارےکئےکرائےپر پانی پھیر گیا ۔
وہ بڑی اُلجھن میں تھے۔
عادل پر توجہ دیتےتو کاروبار بدنظمی کا شکار ہوتا ۔
کاروبار پر توجہ دیتےتو عادل کی حالت بگڑتی جاتی تھی ۔
شاکرہ کو تو وہ بالکل خاطر میں نہیں لاتا تھا ۔ کئی بار وہ اُس پر ہاتھ اُٹھا کر جانوروں کی طرح مار چکا تھا ۔ یہ بات شاکرہ نےاُن سےچھپائی تھی ۔ نشےمیں اُسےکچھ ہوش نہیں رہتا تھا ۔ کہ سامنےاُس کی ماں ہےیا باپ ہے۔ اور نشہ نہ ملنےپر بھی وہ پاگل ساہوجاتا تھا ۔
شاکرہ سےوہ نشہ کےلئےپیسہ لیا کرتا تھا ۔شاکرہ بھی ترس کھاکر اُس کو پیسےدےدیتی تھی ۔ کم سےکم نشےمیں تو وہ سکون سےرہے، لیکن آخر وہ نشےکی آخری حد کو پہونچ گیا ۔
نشہ حاصل کرنےکےلئےوہ اپنےآپ کو ناگ سےڈسوانےلگا ۔
ناگ سےڈسوانےکےبعد ایک ماہ تک وہ بالکل نارمل رہتا ۔ ناگ کےزہر کا نشہ ایک ماہ تک اُسےمسرور رکھتا ہےلیکن زہر کا اثر ختم ہوتےہی اُس کی حالت پاگلوں سی ہونےلگتی اور جب تک وہ اپنےآپ کو ناگ سےڈسوا نہیں لیتا اُسےسکون نہیں ملتا تھا ۔
اور خود کو ناگ سےڈسوانےکےلئےوہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تک دیتا تھا ۔
پچھلی بار اُس نےجب خود کو ناگ سےڈسوایا ہوگا اُسےشاید ایک ماہ ہوگیا ہوگا ۔ نشہ اُتر گیا تھا اِس لئےاُس کی حالت پاگلوں سی ہورہی تھی
دو گھنٹےبعد انجکشن کا اثر ختم ہوگیا تھا ۔
عادل پھر جاگ اُٹھا تھا اور اُس نےہنگامہ کھڑا کردیا تھا ۔
اُنھوں نےاُسےکمرےمیں ہی بند کرکےرکھا ۔
وہ جانتےتھےکہ اکیلا کمرےمیں بند ہونےپر وہ اپنےآپ کو مار مار کر زخمی کرلےگا ۔
لیکن اُسےکھلا چھوڑنا اُس سےبھی زیادہ خطرناک ہوگا ۔ وہ سویرا ہونےکی راہ دیکھنےلگے۔
دِن نکلتےہی جیسےہی اُنھوں نےعادل کےکمرےکا دروازہ کھولا ‘ عادل اُن کا گلا دبانےکےلئےدوڑا ۔
عادل ! چلو میں تمھیں ناگ سےڈسوانےلےچلتا ہوں ۔
یہ سنتےہی عادل کا سارا غصہ ، جوش ٹھنڈا پڑگیا ۔
وہ اُسےکار میں بٹھا کر چل پڑے۔ عادل اُنھیں راستہ بتاتا رہا ۔
ایک جھونپڑپٹّی کےپاس تنگ و تاریک گلیوں سےہوکر وہ ایک ٹوٹےجھونپڑےکےپاس پہونچے۔
ارےعادل سیٹھ ! اِس بار لیٹ ہوگیا ؟
چلو جلدی لاو
¿ !
مجھ سےبرداشت نہیں ہورہا ہے۔ “ عادل چیخا ۔
پہلےمال نکال ! “ وہ آدمی بولا ۔ عادل نےاُن کی طرف دیکھا ۔ اُنھوں نےپانچ ہزار روپےاُس آدمی کی طرف بڑھادئے۔
وہ آدمی اندر گیا ‘ واپس آیا تو اُس کےہاتھ میں ایک سانپ کی پٹاری تھی ۔ عادل زبان باہر نکال کر کھڑا ہوگیا ۔
اُس آدمی نےپٹاری کا ڈھکن کھولا ۔اُس میں سےایک کالےناگ نےپھن اُٹھایا ‘ اُس نےچاروں طرف دیکھا اور پھر عادل کی زُبان پر ڈس لیا ۔
اُن کےمنہ سےچیخ نکل گئی ۔
عادل کےمنہ سےبھی چیخ نکلی مگر یہ مسرت اور لذت بھری چیخ تھی ‘ وہ سر سےپیر تک پسینےمیں نہاگیا اور پھر لہراتا ہوا اُن کےساتھ چل دیا ۔
اُنھوں نےجاتےہوئےمڑ کر اُس آدمی اور پٹاری کےناگ کو دیکھا ۔
جس کا زہر اُن کےبیٹےکےلئےتریاق تھا ۔

٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Masihai By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Masihai, Short Story, Urdu

افسانہ مسیحائی از:۔ایم مبین

شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر بابوجی کوچیک کرکےاُن پربھڑک اُٹھا ۔
اِن کو ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ اِن کا فوراً خون ، شُوگر ، یورین ٹیسٹ کیجئے، سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونو گرافی اور چھاتی کےایکسرےکی رپورٹ آنےکےبعد صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہوگا ۔ میں ابتدائی علاج شروع کروادیتا ہوں ۔
ڈاکٹر نےکہتےہوئےدو تین پُرزےاُن کی طرف بڑھا دئے۔
اور مڑ کر اپنےپاس کھڑی نرسوں کو ہدایتیں دینےلگا ۔ نرسوں نےوارڈ بوائز کو آواز دی اور اِس کےبعد وارڈ بوائز کی ہلچل شروع ہوگئی ۔
وہ ایک اسٹریچر لےآئےاور پیروں پر چل کر اسپتال آنےوالےبابوجی کو اسٹریچر پر ڈال کر لےجایا جانےلگا ۔
ڈاکٹر جنرل وارڈ میں جگہ نہیں ہے۔ “ ایک نرس نےآکر اطلاع دی ۔
ٹھیک ہےمریض کو کسی پرائیویٹ روم میں شفٹ کردو ۔ “ ڈاکٹر نےحکم دیا ۔
افسوس ڈاکٹر کوئی پرائیویٹ روم بھی خالی نہیں ہے۔ “ نرس بولی ۔
اوہو ! مریض کو ایڈمٹ کرکےاس کا علاج کرنا بہت ضروری ہے‘ ٹھیک ہے! کسی اے۔ سی روم میں ہی شفٹ کرد و ۔ “ ڈاکٹر بولا
ڈاکٹر کی بات سن کر نرس اُس کا منہ دیکھنےلگی ۔
اِس طرح میرا منہ کیوں دیکھ رہی ہو ؟ “ ڈاکٹر چِڑ کر بولا ۔
اے۔ سی روم کےچارجز ! آپ مریض کےرشتہ داروں سےبھی تو پوچھ لیجئے ! “نرس رُک رُک کر بولی
اب پوچھنےکی کیا ضرورت ہے؟ “ ڈاکٹر غصہ سےبولا ۔ ” مریض میرا ہے‘ میں مریض کی پوزیشن اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ یہ لوگ مریض کا علاج کرنےکےلئےیہاں آئےہیں ۔ اگر وہ فوراً اِس سلسلےمیں کوئی فیصلہ نہیں کرتےہیں تو مریض کی جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
کہتا وہ تیز تیز قدموں سےایک طرف چل دیا ۔
وہ سب ایک دُوسرےکا منہ دیکھنےلگے۔
اِس درمیان وارڈ بوائز بابوجی کو لےکر پتہ نہیں کہاں چلےگئےتھے۔ ڈاکٹر کےچلےجانےکےبعد اُنھیں ہوش آیا کہ ابھی تک اُنھیں اِس بات کا بھی علم نہیں ہےکہ بابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ تو وہ گھبرا کر ایک طرف دوڑ پڑے۔ اور اُنھوں نےایک نرس کو روک کر پوچھا ۔
سسٹر ! ہمارےبابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے؟
بابوجی کو اوپر والےفلور پر اے۔ سی روم نمبر ٠١ میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ دو اسپشلسٹ ڈاکٹر آئےہیں اور وہ آپ کےبابوجی کی جانچ کررہےہیں ۔ ابھی آپ اُن سےنہیں مل سکتے، اُن کا علاج شروع ہوچکا ہے۔ “ نرس بولی۔ نرس کی بات سن کر وہ سب ہکّا بکّا رہ گئے۔
ہےبھگوان ! اُنھیں کیا ہوگیا ہے؟ ابھی تک تو اچھےبھلےتھے۔“ ماں نےاپنا دِل تھام لیا ۔
اور وہ یہ طےنہیں کرپارہا تھا کہ بابوجی سچ مچ اچھےتھےیا اُن کی حالت اِتنی غیر ہوگئی تھی کہ اگر وہ تھوڑی دیر اور اُنھیں یہاں نہیں لاتےتو اُن کی جان کو خطرہ پیدا ہوجاتا ؟
دو دِن سےبابوجی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔
ویسےوہ جب سےریٹائر ہوئےتھے، تب سےہی اُن کی طبیعت نرم گرم رہتی تھی ۔ اِس بار بھی طبیعت خراب ہوئی تو اِسی ڈاکٹر کی دوائی شروع کی تھی جس کا وہ علاج کرنےآئےتھے۔
سویرےبابوجی نےبتایا ۔
اِس بار مجھےکوئی فرق محسوس نہیں ہورہا ہے۔ تکلیف بڑھتی جارہی ہے، سانس لینےمیں دُشواری ہورہی ہے، سر درد سےپھٹا جارہا ہے، بار بار آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھا جاتا ہےاور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ “ بابوجی کی بات سُن کر اُس نےاُن کا علاج کرنےوالےڈاکٹر سےبات کی ۔
دیکھئےعمر کا تقاضہ ہے۔ اِس طرح کی بیماریاں اور شکایتیں تو ہوں گی ، اِس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ اچھا ہےآپ کسی بڑےاسپشلسٹ کو دِکھا دیں ۔ میں ایک ڈاکٹر کےنام چٹ لکھ دیتا ہوں ‘ وہ مرض کو بہت جلدی پرکھ لیتاہے۔
اور وہ بابوجی کو اُس ڈاکٹر کےپاس لےکر آئےتھے۔
پورےتین گھنٹےتک لائن میں بیٹھ کر اُنھوں نےاپنی باری کا انتظار کیا تھا ۔
جب اُن کا نمبر آیا تو آدھےگھنٹےتک ڈاکٹر نےطرح طرح کےآلات سےبابوجی کو اچھی طرح سےچیک کیا تھا اور اُن سےاور بابوجی سےسیکڑوں سوالات کئےتھے۔
اور اِس کےبعد فیصلہ صادر کردیا تھا ۔
بوجھل قدموں سےچلتےوہ اوپر کےفلور پر آئےاور روم نمبر ٠١ کےسامنےایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ ماں زار و قطار رو رہی تھی ۔ پونم اور وِدیّا اُسےتسلّی دےرہی تھیں ۔
ماںجی ! آپ اپنےآپ کو سنبھالئے، بابوجی کو کچھ نہیں ہوا ہے‘ وہ جلد ٹھیک ہوجائیں گے، اُن کی تکلیف دُور کرنےکےلئےہی تو ہم اُنھیں اسپتال میں لائےہیں ۔ ایک دو دِن میں وہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔
وہ اور اشوک ایک دُوسرےکا منہ تک رہےتھے۔ چاہ کر بھی ایک دُوسرےسےکچھ کہہ نہیں پارہےتھے۔
سوچا کہ رینوکا اور وِشاکھا کو بھی بابوجی کی حالت سےمطلع کیا جائے۔
لیکن ماں نےاُنھیں منع کردیا ۔
بابوجی کی بیماری کی خبر سُن کر دونوں پریشان ہوجائیں گی ۔ اور بال بچوں کو چھوڑ کر دوڑی آئیں گی ۔ وِشاکھا تو خیر ٠١ کلومیٹر دُور رہتی ہے‘ لیکن رینوکا ٠٠١ کلومیٹر دُور رہتی ہے۔ ۔ اُنھیں پریشان نہ کیا جائے۔
ماں تمہارا کہنا دُرست ہے‘ لیکن بعد میں وہ ہم پر الزام لگائیں گی کہ بابوجی کی طبیعت اِتنی خراب ہوگئی اور ہم نےاُنھیں مطلع بھی نہیں کیا ۔ “ پونم اور وِدیّا بولیں
اور اُن کےچہروں کو کچھ اِس طرح تاکنےلگیں ، جیسےاُن سےسوال کرر ہی ہو کہ اِس بات کی روشنی میں وہ دونوں فوراً کوئی فیصلہ لیں ۔
اندر ایک گھنٹےتک پتہ نہیں کیا کیا چلتا رہا ۔ کبھی کوئی نرس باہر آتی تو کوئی اندر جاتی،کبھی کوئی ڈاکٹر کسی نرس کو ہدایتیں دیتا باہر آتا تو کبھی دُوسراکوئی ڈاکٹر نرس سےباتیں کرتا کمرےمیں جاتا ۔
ڈیڑھ گھنٹےکےبعد جب اُنھیں بابوجی کو دیکھنےکی اجازت ملی تو بابوجی کو دیکھ کر اُن کا کلیجہ دھک سےرہ گیا اور ماں تو دہاڑیں مار مار کر رونےلگیں ۔
بابوجی بےہوش پلنگ پر لیٹےتھے۔ اُن کی ناک پر ماسک لگا ہوا تھا ۔ آس پاس ایک دو مشینیں لگی تھیں ‘ جن کےوائر اُن کےدماغ اور دِل کےقریب کےمقامات سےجڑےتھے۔مشینوں پر ایک برقی رو بجلی سی لہرا رہی تھی ۔ دونوں ہاتھوں میں سرنج لگی تھی ۔
شش! ماں جی آپ شور مت کیجئے، مریض کو تکلیف ہوگی ، آپ انھیں دیکھ کر چلےجائیے۔ اُن کی دیکھ بھال کرنےکےلئےہم موجود ہیں ۔ “نرس نےماں کو پیار سےڈانٹا ۔ اُنھیں زیادہ دیر بابوجی کےپاس رُکنےنہیں دیا گیا ۔
ایک نرس دواو
¿
ں کی ایک لمبی لسٹ اُسےتھما گئی ۔
یہ دوائیں فوراً لےآئیے۔ نیچےمیڈیکل میں مل جائیں گی ۔
اُس نےوہ لسٹ اشوک کی طرف بڑھادی ۔ اشوک دوائیں لانےکےلئےنیچےچلا گیا ۔
آدھےگھنٹےبعد وہ واپس آیا ۔
کیا بات ہے؟ “ اُس نےاشوک سےپوچھا
دوائیوں کا بل ساڑےچار ہزار روپیہ ہوا ہے۔“ اشوک بولا ۔ ” اور میری جیب میں اِس وقت صرف تین ہزار روپےہی ہیں ۔
اُس نےجیب میں ہاتھ ڈال کر پیسےنکالےاور ٥١ سوروپےگن کر اشوک کی طرف بڑھادئے
اشوک کےجانےکےبعد ایک نرس ایک چٹھی لےکر آئی ۔
آپ مسٹر دیانند بھارگو کےبیٹےہیں ؟
جی ہاں ! “
آپ ٥١ ہزار روپےکیش کاو
¿
نٹر پر جمع کرادیں ۔ اِس اسپتال میں مریض کو داخل کرنےکےساتھ ٥١ ہزار روپےپیشگی جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔
لیکن میں تو اِتنےپیسےلےکر نہیں آیا ہوں ؟ “ وہ ہکلایا ۔
تو گھر جاکر لےآئیے۔ ہمار کیش کاو
¿
نٹر رات میں ٢١ بجےتک کھلا رہتا ہے۔
لیکن سسٹر رات کے٠١ بج رہےہیں ‘ اِتنی بڑی رقم گھر میں تو موجود نہیں ہوسکتی جو میں جاکر لےآو
¿
ں ؟ کل بینک کھلنےپر رقم میں لاکر جمع کرادوں گا ۔ “ وہ بولا ۔
دیکھئے! آپ کا مریض ایڈمٹ کرلیا گیا ہے، اِس لئےاُصولوں کےمطابق پیشگی رقم جمع کرانا بہت ضروری ہے۔ آپ کسی سےاُدھار لےآئیے، سویرےاسےلوٹا دینا ۔ اگر ممکن نہیں ہےتو آپ ڈاکٹر سےبات کریں ۔ “ نرس کہہ کر چلی گئی ۔
نہ تو گھر میں اتنی بڑی رقم تھی اورنہ ہی اِتنی بڑی رقم کا انتظام ممکن تھا ۔
اس نےاِس سلسلےمیں ڈاکٹر سےبات کرنی ہی مناسب سمجھی ۔ ڈاکٹر سےاس نےجب اِس سلسلےمیں بات کی اور یقین دِلایا کہ سویرےگیارہ بجےتک وہ ٥١ ہزار روپےلاکر جمع کرادےگا تو ڈاکٹر نےاُسےرعایت دےدی ۔
ایک گھنٹےکےبعد اُنھیں گھر جانےکےلئےکہا گیا ۔ نرسوں کا کہنا تھا کہ مریض کےپاس کسی کو بھی رُکنےکی ضرورت نہیں ۔ مریض کی دیکھ بھال کےلئےوہ ہیں ۔ لیکن جب اُنھوں نےبہت زیادہ اصرار کیا تو وہ اِس بات کےلئےراضی ہوگئےکہ چاہےتو وہ یا اشوک رات کو اسپتال میں بابوجی کےپاس رُک سکتےہیں ۔
اشوک نےاُسےگھر جانےکےلئےکہا ۔ وہ بابوجی کےپاس رُک گیا ۔ وہ ، پونم ، وِدیّا اور ماں گھر واپس آگئے۔
ماں بابوجی کےپاس رُکنےکےلئےضد کررہی تھی ۔ بڑی مشکل سےاُنھوں نےاُسےسمجھایا ۔
دُوسرےدِن ٢١ بجےکےقریب وہ پیسوں کا انتظام کرکےاسپتال گیا ۔ اُ س نے٥١ ہزار روپےکیش کاو
¿
نٹر پر جمع کرادئےاور اشوک سےبابوجی کی طبیعت کےبارےمیں پوچھا ۔
رات بھر تو بےہوش رہےیا سوتےرہے‘ کچھ سمجھ میں نہیں آسکا ۔ سویرےہوش آیا تو اُن کا سٹی اسکین اور سونو گرافی اور ایکسرےلیا گیا ، خون وغیرہ تو رات میں ہی ٹیسٹ کرلیا گیا تھا ۔ سب کی رپورٹ شام تک آجائےگی ۔ ڈاکٹر نےکہا ہےکہ شام کو وہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر صحیح طور پر بتا سکےگا کہ بابوجی کو کیا بیماری ہے؟
ٹھیک ہےاب تم گھر جاو
¿ ‘
میں بابوجی کےپاس رہتا ہوں ۔ “ اُس نےاشوک سےکہا ۔
گھر جاکربھی کیاکروں گا ؟ “ اشوک بولا ۔ ” آج تو آفس سےچھٹی ہی لینی پڑی ۔ دوپہر تک رُکتا ہوں ۔
اُسےبھی آفس سےچھٹی کرنی پڑی تھی ۔ جب تک بابوجی اسپتال میں ہیں تب تک آفس جانےکےبارےمیں وہ دونوں سوچ بھی نہیں سکتےتھے۔
سویرےوِشاکھا اور رینوکا کو بھی بابوجی کی بیماری کےبارےمیں مطلع کردیا گیا تھا ۔
شام تک دونوں بھی آگئیں ۔
رات کو ایک بار پھر پورا خاندان اسپتال میں جمع ہوگیا ۔ بابوجی اُس وقت سورہےتھے، دوپہر میں جاگےتھے۔ اُس سےایک دوباتیں بھی کی تھیں لیکن پھر شاید دواو
¿
ں کےغلبہ سےپھر اُنھیں نیند آگئی ۔
رات میں ڈاکٹر رپورٹ دینےوالاتھا ۔
دس بجےکےقریب ڈاکٹر اُنھیں خالی ملا تو سب نےاُسےگھیر لیا ۔
ہاں مجھےسب رپورٹیں مل گئی ہیں ۔ دراصل آپ کےبابوجی کےدماغ میں ایک گانٹھ ہےجس سےاُن کےدماغ کو خو ن کی سپلائی رُک جاتی ہے۔ اگر اس کا وقت پر علاج نہیںکیا جاتا تو اس سےبرین ہیمریج ہونےکا بھی خطرہ تھا ۔اس کی وجہ سےآپ کےبابوجی کو یہ تکلیفیں تھیں ۔ ہم نےعلاج شروع کردیا ہے۔ بھگوان نےچاہا تو آپ کےبابوجی آٹھ دس دِن یہاں رہنےکےبعد ٹھیک ہوجائیں گے۔

اور دو دِن کس طرح گذرےکچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ گھر کا ہر فرد اسپتال کےچکّر لگاتا تھا ۔ بابوجی کبھی بےخبر سوئےرہتےکبھی ہوش میں آتےتو چیخنےلگتے۔
تم لوگوں نےمجھےیہاں کیوں ایڈمٹ کر رکھا ہے؟ میں بالکل ٹھیک ہوں ، مجھےگھر لےچلو ۔
تیسرےدِن نرس نےتین دِنوں کےاخراجات کا بل اُسےتھما دیا ۔ اُس کےمطابق اس وقت تک کل ٩١ ہزار روپےبل ہوچکا تھا ۔ ابھی مریض کو اور آٹھ دس دِن اسپتال میں رہنا تھا ۔ اِس لئےوہ فوراً اور ٥١ ہزار روپےجمع کردیں ۔ اس نےحساب لگایا اس وقت تک ٤٢ ہزار سےزائد خرچ ہوچکا تھا اور آٹھ دس دِن رہنا ہی‘ اُس کےحساب سےجو حاصل جمع خرچ آیا۔ اُسےدیکھ کر اُسےچکّر سےآنےلگے۔
اِدھر بابوجی نےسارا اسپتال اپنےسر پر لےلیا تھا ۔
وہ یہی کہتےتھے۔
میں بالکل ٹھیک ہوں ، مجھےکچھ نہیں ہوا ہے۔ تم لوگ میری جان کےدُشمن بنےہوئےہو ، تم مجھےمارنےکےلئےیہاں لےآئےہو ۔ مجھےفوراً یہاں سےنکال کر گھر لےچلو ۔
خرچ اور بابوجی کی ضد کو دیکھتےہوئےاُنھوں نےبابوجی کو اسپتال سےگھر لےجانےکا فیصلہ کرلیا ۔
لیکن ڈاکٹر نےصاف کہہ دیا کہ وہ مریض کو ایسی حالت میں گھر لےجانےنہیں دےگا ۔ اگر مریض کو کچھ ہوگیا تو اس کا دمہ دار کون ؟
چِڑ کر اُس نےاشوک سےکہہ دیا کہ ساری ذمہ داری وہ اپنےسر لیتےہیں ۔
اس کےپاس اِتنا مہنگا علاج کرنےکےلئےاور پیسہ نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر نےزبردستی بابوجی کو اسپتال میں رکھا تو وہ اب ایک پیسہ بھی بل ادا نہیں کرسکتے۔
اُن کی دو ٹوک بات سن کر ڈاکٹر نےبابوجی کو اسپتال سےڈسچارج کردیا ۔
بابوجی گھر آئےتو بھلےچنگےتھے۔
وہ دونوں اِس بات کا حساب لگارہےتھےکہ بابوجی کےعلاج پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے، اُنھوں نےکتنےدِنوں میں ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کیا تھا
ایک دِن پھر بابوجی کی حالت خراب ہوئی ۔
پھر بابوجی کو ایک ڈاکٹر کےپاس لےجانا پڑا ۔
شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے؟ “ ڈاکٹر بابوجی کو چیک کرکےان پر بھڑک اُٹھا ۔ ” ان کو فوراً ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ ان کا فوراً خون ، شوگر ، یورین ٹیسٹ کیجئے۔ سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونوگرافی اور چھاتی کےایکسرےکی رپورٹ آنےکےبعد ہی صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہوپائےگا ۔ میں ابتدائی علاج شروع کروادیتا ہوں ! “

٭٭٭

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Inkhala By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ انخلا از:۔ایم مبین
رات کا کون سا پہر تھا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ۔
فضا میں مسلسل دھماکےگونج رہےتھےاور اُن کی آوازوں سےکلیجہ پھٹا جارہا تھا ۔
گھر کےتمام افراد جاگ گئے، اُن کےچہروں پر خوف رقصاں تھا ۔ وہ اپنےاندر ہی اند رخوف سےسمٹےجارہےتھے۔
لگتا ہےجنگ شروع ہوگئی ۔ “ بابا دھیرےسےبڑبڑائے۔
ہےرام ‘ اِس جنگ کو بھی ابھی شروع ہونا تھا ۔
سرحد تو ہمارےگاو
¿
ں سےکافی دُور ہے‘ لیکن یہاں تک دھماکوں کی آوازیں آرہی ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں دُشمن ہمارےملک کی سرحد میں آگھسےہوں ۔ “ ماں نےکہا ۔
نہیں ‘ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ “ وہ جھٹ سےبولا ۔ ” سرحد پر ہماری فوجیں تعینات ہیں ۔ وہ دُشمن کےہرحملےکا منہ توڑ جواب دےگی ۔ دُشمن اگر اپنی ساری طاقت بھی لگادےتو وہ ہمارےملک کی ایک انچ زمین میں نہیں گھس سکتا ۔
بھگوان کرےایسا ہی ہو ۔ جس رفتار سےگولا باری ہورہی ہےایسا لگ رہا ہےجیسےگھمسان کی جنگ جاری ہے۔
دادا یہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ “ اُس کےلڑکےنےبابا سےپوچھا ۔
بیٹے‘ جنگ بہت بری چیز ہوتی ہے۔ یہ بوڑھی آنکھیں دو جنگ دیکھ چکی ہیں اور بھگوان سےدُعا ہےکہ تمہاری آنکھیں وہ نہ دیکھیں ۔
رات بھر گولہ باری اور دھماکوں کی آوازیں گونجتی رہیں ۔ ان دھماکوں اور گولہ باری سےسارا گاو
¿
ں جاگ گیا تھا ۔ لیکن ہر فرد گھر میں دُبکا ہوا تھا ۔ کسی میں بھی گھر سےباہر آنےکی جرا
¿
ت نہیں تھی ۔
صبح ہوتےہوتےسورج کی پہلی کرن کےساتھ گولہ باری اور دھماکوں کی آوازیں بند ہوگئیں ۔
لوگ اپنےاپنےگھروں سےباہر نکلےاور رات کےواقعات پر ایک دوسرےسےتبادلہ خیال کرنےلگے۔
خاموشی کا مطلب ہےجنگ نہیں چھڑی ‘ صرف دُشمنوں نےگولہ باری کی تھی اور ہماری فوجوں نےاُس کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
اُف !لیکن کس قدر خوفناک گولہ باری ! ایسی تو جنگ کےزمانےمیں بھی نہیں ہوتی تھی ۔
جنگ ہوئےعرصہ بیت گیا ہےاس درمیان بےشمار مہلک ہتھیار اور گولہ بارُود ایجاد ہوچکےہیں ۔ پہلےجنگ میں ان معمولی چیزوں کا استعمال ہوتا تھا ‘ اب ان مہلک ہتھیاروں کا استعمال ہوتا ہے۔
بھگوان کی کرپا ہے‘ ہمارا گاو
¿
ں محفوظ ہے، گاو
¿
ں تک گولہ نہیں آیا ۔ “ رات کی گولہ باری کا کیا اثر ہوا ابھی وہ اِس بارےمیں پتہ لگانےکی کوشش کر رہےتھےکہ کیا کیا نقصانات ہوئےہیں ؟
اُنھیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ۔
تھوڑی دیر بعد خبریں آنی شروع ہوگئیں ۔
ایک گولہ بھیکو کےکھیت میں آکر پھٹا جس سےساری فصل جل گئی ۔ ایک گولہ چھندو کےکھیت والی دیوار سےٹکرایا ‘ دیوار ڈھہ گئی اور مکان بھی گر گیا ۔
ان باتوں سےسارےگاو
¿
ں میں اور زیادہ سراسیمگی پھیل گئی ۔
ان لوگوں کےکھیت گاو
¿
ں سےزیادہ دُور نہیں تھے۔
اگر گولےوہاں تک آسکتےہیں تو گاو
¿
ں تک بھی پہنچ سکتےہیں اور ان گولوں کا گاو
¿
ں میں گرنےکا انجام ؟
اس کےتصور سےہر کوئی کانپ اُٹھتا تھا ۔
حالات بہت خراب ہوگئےہیں ‘ لگتا ہےاِس بار جنگ ہوکر ہی رہےگی ۔ “ ہر کوئی تشویش آمیز لہجےمیں کہہ رہا تھا ۔ وہ فکر مند تو اُسی وقت ہوگئےتھےجب اُنھوں نےسامان ، فوجیوں اور گولہ بارود سےلدےٹرکوں کو گاو
¿
ں سےگذر کر سرحد کی طرف جاتےدیکھا تھا ۔
یوں تو سال بھر سرحد کی طرف فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ سارا سامان ، فوجی اور اُن کےٹرک گاو
¿
ں سےہی گذر کر سرحد کی طرف جاتےتھے۔ لیکن اب مہینہ میں کبھی کبھی ہوتا تھا ۔ اِس وجہ سےوہ لوگ کبھی اِس بات کی طرف دھیان بھی نہیں دیتےتھے۔ لیکن گذشتہ چند مہینوں سےفوج اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حرکت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی ۔ اس کی وجہ اُنھوں نےجاننےکی کوشش نہیں کی تھی ۔ ہر کوئی اس کی وجہ جانتا تھا ۔ کیونکہ گاو
¿
ں میں بیشتر افراد کےگھروں میں ٹی وی تھےاور کئی اخبارات گاو
¿
ں میں آتےتھے۔
ہر اخبار روزانہ دونوں ملکوں کےدرمیان تناو
¿
کی خبریں اپنےساتھ لاتا تھا تو ہر ٹی وی چینل تناو
¿
کی چھوٹی سےچھوٹی خبر کو اہم بنا کر اپنےانداز میں پیش کرتا تھا ۔
ملک کےہر فرد کےذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ سرحد پر سخت تناو
¿
ہےاور اس تناو
¿
کی وجہ سےکبھی بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اور ان کا گاو
¿
ں تو ایک سرحدی گاو
¿
ں تھا ۔
سرحد اُن کےگاو
¿
ں سےکچھ کلومیٹر کےفاصلےپر تھی اور سرحد کی طرف فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کےجانےکا مطلب بھی وہ سمجھتےتھے۔ سرحدوں پر تناو
¿
ہے۔ سرحد پر کہیں بھی جنگ چھڑ سکتی ہےاور اس جنگ کےچھڑنےسےساری سرحدیں سُلگ سکتی تھیں ۔ اگر سرحدیں سُلگ اُٹھیں تو اُن کےشعلوں سےاُن کا گاو
¿
ں بھی محفوظ نہیں رہےگا ۔
دو تین گھنٹوں بعد ٹی وی چینلوں سےبھی خبریں آرہی تھیں ‘ جن سےگاو
¿
ں والےناواقف تھے
خبروں سےپتہ چلا کہ رات دشمن کےفوجیوں نےگولہ باری کی جس کا ملک کی فوجوں نےمنہ توڑ جواب دیا ۔ اِس گولہ باری میں دُشمن کے٥١ فوجی مارےگئے، ٠١ بنکر تباہ کردئےگئے، دُشمن کی گولہ باری سےگاو
¿
ں متاثر ہوا ، بارُودی گولےگاو
¿
ں کےدرمیان آکر پھٹے، جس میں چار شہری مارےگئےاور ٥١ کےقریب زخمی ہوئےاس کےعلاوہ کئی مکانوں کو نقصان پہونچا ۔دُشمن ملک کی اِس بلاوجہ اشتعال انگیز گولہ باری کےخلاف وزیر دفاع نےسخت احتجاج کرتےہوئےکہا کہ اس کا منہ توڑ جواب دیا جائےگا
ٹی وی چینلوں پر ان خبروں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔
ہمارےگاو
¿
ں میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہےنہ کوئی گولہ پھٹا نہ کوئی زخمی ہوا نہ مرا ‘ پھر یہ خبریں؟
ارےیہ ہمارےگاو
¿
ں کی نہیں کسی اور گاو
¿
ں کی خبریں ہیں ۔
لیکن خبروں میں تو ہمارےگاو
¿
ں کا نام لیا جا رہا ہے۔
اتنی بڑی سرحد ہے‘ ممکن ہےہمارےگاو
¿
ں کےنام والا کوئی اور گاو
¿
ں سرحد پر ہوگا اور وہاں یہ واقعہ ہوا ہو ۔
لیکن رات میں گولہ باری تو ہمارےگاو
¿
ں پر ہی ہوئی تھی ؟
ممکن ہےاُس گاو
¿
ں میں بھی ہوئی ہو ۔
وہ خبروں پر اِس طرح کےتبصرےکرتےرہےلیکن اُن کی تہہ تک نہیں پہونچ سکے۔
ابھی دوپہر بھی نہیں ہوئی تھی کہ پورےگاو
¿
ں کو آکر ملٹری نےگھیر لیا ۔
گاو
¿
ں والوں کو مطلع کیا جاتا ہےکہ کل رات دُشمن نےگاو
¿
ں کی سرحد پر سخت گولہ باری کی تھی ‘ جس کا ہماری فوجوں نےمنہ توڑ جواب دیا ۔ لیکن دُشمن کےارادےنیک دِکھائی نہیں دیتےہیں ۔ ممکن ہےوہ آج رات یا بعد میں نہ صرف دوبارہ گولہ باری کری، بلکہ حملہ بھی کردے۔جنگ کبھی بھی چھڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں گاو
¿
ں والوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اِس لئےگاو
¿
ں والےفوراً ایک گھنٹےکےاندر اندر گاو
¿
ں خالی کردیں اور محفوظ مقامات پر چلےجائیں ۔وہ کےمحفوظ مقامات سرحد سےکم سےکم دو ڈھائی سو کلومیٹر دُور ہیں ۔ اگر اُنھوں نےگاو
¿
ں خالی نہیں کیا تو ملٹری زبردستی اُن سےگاو
¿
ں خالی کرائےگی اور حکم عدولی کرنےوالوں کےساتھ سختی سےنپٹےگی ۔ اِس لئےاِس اعلان کو سنتےہی گاو
¿
ں والےگاو
¿
ں خالی کرنےکی تیّاریوں میں لگ جائیں اورفوراً عمل در آمد کریں ۔
کیا ! ہم گاو
¿
ں خالی کردیں ‘؟گاوں خالی کر کے ہم کہاں جائیں؟
اعلان سُن کر ہر کوئی سکتےمیں آگیا ۔ ہر کوئی احتجاج کرنا چاہتا تھا ۔
ہم گاو
¿
ں چھوڑ کر کہاں جائیں ‘ ہمارا گھر بار ، ہمارےکھیت ہیں ، کھیتوں میں فصل تیار ہے، یہ فصل ہمارا سال بھر کا سہارا ہے، اگر ہم ان تیار فصلوں کو چھوڑ کر چلےگئےتو سال بھر ہمارا گذر بسر کس طرح سےہوگا ؟
لیکن کوئی بھی اُن کا احتجاج سننےوالا نہیں تھا ۔
بندوق کی سنگینوں کےزور پر اُنھیں گاو
¿
ں چھوڑنےکےلئےمجبور کیا گیا تھا ۔
اپنےگھروں سےضروری سامان جمع کرنےاور لینےکےلئےاُنھیں دس پندرہ منٹوں کی بھی مہلت نہیں دی گئی ۔ اِن دس پندرہ منٹوں میں وہ جو کچھ جمع کرسکتےتھےاُنھوں نےجمع کیا اور گاو
¿
ں چھوڑ کر انجان منزل کی طرف چل پڑے۔ ایک گھنٹےکےاندر پورا گاو
¿
ں خالی ہوگیا تھا ۔ گاو
¿
ں میں ایک بھی آدمی نہیں رہا تھا ۔ صرف ملٹری کےجوان تھے‘ جنھوں نےسارےگاو
¿
ں کو گھیر رکھا تھا ۔
کچےراستوں سےہوکر گاو
¿
ں کے٠٠٥ سےزائد افراد انجان منزل کی طرف بڑھےجارہےتھی۔ ان میں زیادہ تر لوگ پیدل تھے۔ اُنھوں نےاپنا ضروری اسباب ،سامان اپنےسروں اور کاندھوں پر لاد رکھا تھا ۔ کچھ لوگوں نےاپنےجانور بھی ساتھ لئےتھے، سامان اُن جانوروں پر بھی لدا تھا ۔
جن لوگوں کےپاس بیل گاڑیاں تھیں اُن کا سامان اور گھر کےافراد اُن بیل گاڑیوں پرسوار تھے، پیدل چلنےوالےاور بیل گاڑیوں کی رفتار مساوی تھی ‘ پورا گاو
¿
ں ساتھ چل رہا تھا ۔ کوئی بھی ایک دوسرےسےجدا نہیں ہونا چاہتا تھا ۔
رات ہوئی تو اُنھوں نےایک جگہ ڈیرہ ڈالنےکا سوچا ۔
نہیں ! “ جو فوجی اُن کےساتھ ساتھ گاو
¿
ں سےآرہےتھےوہ گرجے۔
ابھی ہم گاو
¿
ں سےصرف ٠٢ کلومیٹر دُور آئےہیں ، یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے، یہاں بھی خطرہ ہے، جنگ کی صورت میں دُشمن کی فوجیں یہاں تک پہونچ سکتی ہیں۔ یہ جگہ اُن کی توپوں کی مار کی زد میں ہے‘ یہاں پر بھی آپ لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں ‘ یہاں نہ رُکا جائےآگےبڑھا جائے۔ “ فوجیوں کی حکم عدولی وہ بھلا کس طرح کرسکتےتھے‘ اندھیرےمیں بھوکےپیاسےچل پڑے۔ کسی نےنہ ایک دانہ کھایا تھا نہ ایک گلاس پانی پیا تھا ۔ بچےبھوک پیاس سےبلبلا رہےتھے۔ مائیں اُنھیں تھپک ، تھپک کر سُلانےکی کوشش کر رہی تھیں ۔ باپ اور دُوسرےرشتہ دار سوئےہوئےبچوں کو اپنی گود یا کاندھوں پر اُٹھائےہوئےتھے۔
چاروں طرف تاریکی اور ہُو کا عالم تھا ۔ صرف فوجی گاڑی کی سرچ لائٹ تھی جس کی تیز روشنی میں وہ راستہ تلاش کرکےآگےبڑھ رہےتھے۔
پَو پھٹنےپر وہ کوئی گاو
¿
ں کےقریب پہونچے۔
آپ لوگ اب محفوظ علاقےمیں آگئےہیں ۔ آپ لوگ یہاں رُک سکتےہیں ۔ “ فوجیوں نےکہا اور وہ واپس چلےگئے۔ گاو
¿
ں کےقریب ایک بڑا سا میدان تھا ۔ اُس میدان میں جس کو جہاں جگہ ملی اُس نےاُس جگہ قبضہ کرکےاپنا ڈیرا جما دیا ۔ گاو
¿
ں والےبھی آئےاُنھوں نےاُن کو گھیر لیا اور طرح طرح کےسوالات کرنےلگے۔
آپ لوگ کہاں سےآئے، کیا جنگ چھڑ چکی ہے، آپ کےگاو
¿
ں کو کتنا نقصان پہونچا ؟ “ وہ اپنےطور پر جواب دیتے۔ رات بھر سفر کرنےکی وجہ سےوہ تھکن سےچُور تھے۔ کتنےتو زمین پر گرےاور گرتےہی سو گئے۔
جن لوگوں کو بھوک پیاس ستا رہی تھی وہ گاو
¿
ں سےساتھ لایا ہوا کھانےپینےکےسامان میں پیٹ بھرنےکےلائق کوئی چیز تلاش کرنےلگے۔
سورج کےچڑھنےکےساتھ اُس کی تمازت بھی تیز ہونےلگی تھی ۔ اُس کی گرمی جسم میں سوئیاں چبھونےلگی تھی اور جسم سےپسینےکی نہریں اُبلنےلگی تھیں ۔
آس پاس کوئی سایہ دار پیڑ بھی نہیں تھا جس کےسائےتلےپہونچ کر سورج کی تمازت سےنجات حاصل کرسکتے۔ جو اِکّےدُکّےپیڑ تھےخار دار پیڑ ‘جن کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔
دھوپ سےبچنےکےلئےلکڑیوں کےسہارےکپڑوں کےسائبان تیار کئےجارہےتھے۔ دِن سورج کی تمازت میں جھلستےہوئےگذرا ‘ رات آئےتو برفیلی ہوائیں چلنےلگیں ۔
بند کمروں میں سردی اور برفیلی ہواو
¿
ں کا احساس کم ہوتا ہوگا لیکن کھلےمیدان میں وہ سرد ہوائیں جسم میں سوئیاں چبھونےلگیں ۔ ناکافی بستر اور کپڑوں کےدرمیان دُبک کر گھر کےکچھ افراد سونےکی ناکام کوشش کرنےلگےتو کچھ لوگ جاگ کر آس پاس سےسوکھی لکڑیاں اور پتےجمع کرکےاَلاو جلا کر تاپنےاور آگ تاپ کر رات گذارنےکی کو شس لگے۔
سویرےایک نئی آفت منتظر تھی ۔
گاو
¿
ں والوں نےاپنےکنوو
¿
ں سےپانی لینےپر پابندی لگا دی تھی ۔
ہمارےکنوو
¿
ں میں پانی بہت کم ہےبڑی مشکل سےاِس پانی میں سال گذرتا ہےاتنےلوگ ان کنوو
¿
ں سےپانی لیں گےتو سارا پانی ختم ہوجائےگا اور ہمیں پیاسا رہنا پڑےگا ۔
اِس بات پر تنازعہ بڑھا اور جھگڑےکی نوبت آگئی ۔
فوجی تو اُنھیں وہاں چھوڑ کر چلےگئے۔ اُس کےبعد کچھ سرکاری افسر آئےجنھوں نےاُن کی تعداد وغیرہ کےبارےمیں معلومات کی ‘ پھر کچھ ٹی وی والےبھی آئےجو اپنےطور پر اُن کی تصویریں لےکر اورکچھ سوالات پوچھ کر چلےگئے۔
اُن کےپاس نہ تو کچھ کھانےکےلئےتھا اور نہ پینےکےلئے۔
پیسےبھی نہیں تھےجس سےکھانےپینےکی اشیاءخرید سکے۔
وہ کام کرنا چاہتےتھےتاکہ جو پیسےملیں اُن سےاپنی ضروریاتِ زندگی کی چیزیں خرید سکیں ۔
لیکن اُس گاو
¿
ں کےلوگوں کو مشکل سےکام مل پاتا تھا تو بھلا اتنےلوگوں کو کام کس طرح مل سکتا تھا ؟
اِن مصیبتوں سےنجات حاصل کرنےکےلئےاُنھوں نےواپس جانےکی ٹھانی لیکن گاو
¿
ں جانےکا راستہ بند ہوچکا تھا ۔
راستےمیں ایک فوجی چوکی بن گئی تھی اُس کےآگےجانےکی کسی کو بھی اجازت نہیں تھی ۔ پتہ چلا کہ اُن کا پورا گاو
¿
ں ایک فوجی کیمپ بن چکا ہےاور پورےگاو
¿
ں میں بارُودی سُرنگیں بچھائی جارہی ہیں ‘ تاکہ اگر دُشمن اِس طرف آجائےتو اُسےسبق سکھایا جاسکے۔
سرحدوں پر بدستور تناو
¿
تھا ۔
فوجوں کی نقل و حرکت اور گولہ باری بڑھتی جارہی تھی ۔ ہر لمحہ لگتا تھا جنگ شروع ہوجائےگی لیکن جنگ شروع نہیں ہورہی تھی ۔
بھوکےپیاسےمصیبتوں میں گھرےوہ میدان میں پڑےتھے۔
سرکاری آفسر آئےتو وہ سب اُس پر برس پڑے۔
ہمیں ہمارےگاو
¿
ں سےنکال کر یہاں لاکر ڈال دیا گیا ہے۔ ہمارےپاس نہ کھانےکےلئےاناج ہےنہ پینےکےلئےپانی نہ پہننےکےلئےکپڑےہیں اور نہ دوائیں ‘سرکار نےگاو
¿
ں سےہمارا انخلاءکرایا ہےتو وہ ہماری خبر کیوں نہیں لیتی ؟۔ ہمیں بےیار و مدد گار یہاں لاکر چھوڑ دیا ہے۔ ہم پانی کی ایک ایک بوند اور اناج کےایک ایک دانےکےلئےترس رہےہیں ۔ ہمارےکھانےپینےکا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا ؟۔
صرف تم لوگ اِس عذاب میں گرفتار نہیں ہو ‘ جنگ کےخوف سےسیکڑوں گاو
¿
ں کا انخلاءکیا گیا ہے۔ ہم لوگ اُن سب کی رپورٹ تیار کر رہےہیں ایک مہینےکےاندر سرکار کو رپورٹ پیش کر دیں گے۔ اُس کےبعد شاید سرکار آپ لوگوں کی مدد کےلئےکوئی قدم اُٹھائے۔
تو گویا ایک ماہ تک ہم بھوکےپیاسےیہاں رہیں گے؟ !
ہمیں ایسی بےبسی کی موت مرنےکےلئےیہاں لاکر چھوڑا گیا ہے؟ اِس سےتو بہتر تھا کہ ہم دُشمن کی فوج کی گولہ باری کا شکار ہوکر مر جاتے۔
ll
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)
Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist. Thane ( Maharashtra)
Mobile:-09322338918
Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story 30 Bachchoon Ki Maan By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : 30 Bachchoon Ki Maan, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ ٠٣ بچوں کی ماں از:۔ایم مبین
گھر سےنکلنےمیں صرف ٠١ منٹ کی تاخیر ہوئی تھی اور سارےمعمولات بگڑ گئےتھے۔
اُسےاندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ پورےایک گھنٹہ تاخیر سےڈیوٹی پر پہونچےگی اور اِس ایک گھنٹہ میں کیا کیا فسانےبن گئےہوں گے‘ اُسےاِس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔
سندھیا سےکسی بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا کرےجس سےکوئی نئی کہانی نہ بن پائے۔
چنٹو نےرو رو کےپورا کمرہ سر پر اُٹھا رکھا ہوگا ۔ رونےکی وجہ سےاُس کی آنکھیں سُرخ ہوکر سوج گئی ہوں گی جو شام تک سوجی رہےگی ۔
اُس کی آنکھوں کو دیکھتےہی شوانی اُس پر برس پڑےگی ۔
آج پھر چنٹو کو رُلادیا ؟ میں تم کو الگ سےپیسےکس بات کےدیتی ہوں ؟ اگر تم چنٹو کےساتھ بھی عام بچوں کا سا سلوک کرو تو پھر عام بچوں میں اور چنٹو میں فرق کیا ہی؟ میں تمہاری سسٹر سےشکایت کردوں گی کہ تم مجھ سےالگ سےپچاس روپےلیتی ہو ۔
دھمکی ایسی تھی کہ جس کےتصور سےہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
اگر سسٹر کو پتہ چلا کہ وہ شوانی اور دُوسری عورتوں سےبھی الگ سےپیسہ لیتی ہےتو وہ ایک لمحہ بھی اُسےکیئر ہوم میں رکھنےنہیں دےگی ۔
اُس کی نوکری جاتی رہےگی ۔ اور نوکری چلی گئی تو ؟
اس تصور سےہی اُس کےماتھےپر پسینےکی بوندیں اُبھر آئیں ۔ چنٹو کی عادت سی بن گئی تھی کہ وہ جیسےہی ماں سےبچھڑتا تھا ‘ دہاڑیں مار مار کر رونےلگتا تھا ۔ صرف اُسی کی گود میں بہل پاتا تھا ۔
آج شوانی اُسےسندھیا کےپاس یہ سوچ کر چھوڑگئی ہوگی کہ وہ تو تھوڑی دیر میں آجائےگی اور روتےچنٹو کو بہلا لےگی ۔
لیکن بدقسمتی سےوہ آج ایک گھنٹہ لیٹ پہونچ رہی ہے۔
تھوڑی دیر سےآنکھ کھلی جس کی وجہ سےگھر سےنکلنےمیں دس منٹ لیٹ ہوگئی تھی جس کی وجہ سےجو بس اُسےریلوےاسٹیشن تک لےجاتی تھی ‘چھوٹ گئی ۔
دُوسری بس آنےمیں ٥١ منٹ لگ گئے۔
اسٹیشن پہونچی تو لوکل چھوٹ گئی تھی ۔ دُوسری ٹرین ٥١ ۔ ٠٢ منٹ لیٹ آئی جو راستےمیں دس منٹ لیٹ ہوگئی ۔ پھر ریلوےاسٹیشن سےکیئر ہوم کےلئےبس کاانتظار
ہر جگہ تاخیر تاخیر تاخیر !
اُسےپتا تھا اُس کےدیر سےآنےسےنہ تو سسٹر اُسےکچھ بولےگی اور نہ سندھیا ۔
دونوں کو پتا تھا کہ وہ کافی دُور سےآتی ہے۔ سات بجےہوم پہونچنےکےلئےاُسےرات ساڑھےپانچ بجےگھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِس کےباوجود وہ کبھی کبھار ہی لیٹ ہوتی تھی ۔ اس میں اِس کا عمل دخل نہیں ہوتا تھا ۔ لوکل یا بس لیٹ ہونےکی وجہ سےہی تاخیر سےکیئر ہوم پہونچ پاتی تھی ۔
اور پھر دِن بھر ٠٣ بچوں کی ماں بن کر اُن کا خیال رکھتی تھی ۔کبھی کبھی تو بچوں میں اِتنی اُلجھ جاتی تھی کہ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی ۔
روزانہ کا یہ معمول تھا جب بھی وہ دوپہر کا کھانا کھاتی تھی ۔ اُس کی گود میں کوئی نہ کوئی روتا ہوا بچہ ضرور ہوتا تھا ۔ وہ کھانا بھی کھاتی اور بہلاتی بھی ۔
کیئر ہوم میں جتنےبھی گاہک تھےسب اُس سےخوش تھے۔
چھوٹےبچےتو زبان سےاِس کی خدمت کےبارےمیں اپنےماں باپ کو کہہ نہیں پاتےتھے۔ لیکن جب وہ اُسےدیکھ کر ماں کی گود سےاُس کی طرف ہاتھ پھیلا کر مسکراتے، لپکتےتھےتو ماں باپ اندازہ لگا لیتےتھےوہ اُن کےبچوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔
ہاں بڑےبچےجو بول سکتےتھےوہ ماں باپ سےتعریف کرتےتھے۔
رادھا آنٹی بہت اچھی ہیں ، ہم سےبہت پیار کرتی ہیں ، ہمارا بہت خیال رکھتی ہے، ہم سےبڑی اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں ۔
اِس وجہ سےگاہکوں میں اُس کی امیج بہت اچھی تھی ۔
لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوجاتی تھی جس کی وجہ سےاُس کی امیج کو دھکّا پہونچنےکا خطرہ پیدا ہوجاتا تھا ۔بلکہ اُسےاپنی نوکری بھی خطرےمیں محسوس ہوتی تھی ۔
اور نوکری خطرےمیں پڑنےکےتصور سےہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
بوڑھےماں باپ ، دو جوان بہنیں اور دو نکمّے، آوارہ بھائیوں کی نگہداشت کا سارا بوجھ اُسی پر تھا ۔ سسٹر اُسےتنخواہ کےطور پر ٣ ہزار روپےدیتی تھی ۔
اُسےاِس بات کا علم تھا کہ وہ اچھی سےاچھی غیر سرکاری نوکری بھی کرتی تو شاید اُسےاِتنی تنخواہ نہیں ملتی ۔ اِس کےعلاوہ بچوں کےماں باپ اُسےخوشی سےچالیس پچاس روپےہر مہینہ دےدیتےتھے۔ یہ سوچ کر کہ اِس لالچ سےشاید وہ اُن کےبچےکا اچھی طرح سےخیال رکھےگی ۔
اس نوکری کےچھوٹ جانےکا مطلب تھا پھر سےایک بار بےکاری کےغار میں بھٹکنا ، ماں باپ کی جھڑکیاں ، بہنوں کےطعنےاور بھائیوں کی گالیاں سننا ۔
گھر کےحالات کچھ ایسےہوگئےتھےکہ اگر اُسےکسی کےگھر میں برتن مانجھنےکا کام بھی مل جاتا تو وہ بھی کرنےکےلئےتیّار ہوجاتی ۔
اس کےمقابلےتو یہ کافی اچھا ، مختلف اور آمدنی والا کام تھا ۔
اُسےکیئر ہوم میں ٠٣ بچوں ک دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی ۔
شہر کی ایک بڑی سی رہائشی کالونی میں سسٹر روزی نےیہ چلڈرن کیئر ہوم جاری کر رکھا تھا ۔
اِس کالونی میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ تھے۔ ان میں سےکئی ایسےبھی تھے۔ دونوں میاں بیوی نوکری کرتےتھے۔ ان کےگھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنےوالا کوئی نہیں تھا۔
بچےدو ماہ سےلےکر دس سال تک تھے۔
اُن بچوں کو وہ کس کےسہارےاکیلےگھر میں چھوڑ کر دُور دراز کےعلاقوں میں نوکری کےلئےجائیں ؟
پورےوقت کےلئےوہ نوکرانی نہیں رکھ سکتےتھے۔ کیونکہ ایسےکاموں کےلئےنوکرانیاں اتنی تنخواہ کی مانگ کرتی تھیں جو اُن کی کل تنخواہ کےنصف سےبھی زائد ہوتی تھی ۔
ایسےتمام نوکری پیشہ افراد کا وہ واحد سہارا سسٹر روزی کا چلڈرن کیئر ہوم تھا ۔
مائیں اپنےبچےڈیوٹی پر جاتےہوئےکیئر ہوم میں چھوڑ جاتی تھیں اور شام کو ڈیوٹی سےواپس آتےہوئےاُنھیں واپس اپنےگھروں کو لیکر جاتی تھیں ۔
اِس طرح اس کیئر ہوم میں روزانہ سیکڑوں بچےآتےاور دِن بھر وہاں رُک کر شام کو واپس اپنےگھروں کو چلےجاتےتھے۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کےلئےسسٹر روزی نےکئی نوکرانیاں رکھی تھیں ۔وہ بھی اُن میں سےایک تھی۔ اس کےساتھ ساتھ سندھیا بھی تھی ۔ دونوں مل کر ٠٣ بچوں کا خیال رکھتی تھیں ۔
سندھیا اور اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
وہ ایک گریجویٹ ، سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔
لیکن سندھیا ایک جاہل ، اُجڈ اور گنوارقسم کی عورت تھی۔
وہ سویری٧ بجےسےرات کے٨ / ٩ بجےتک ڈیوٹی دینےپر یقین رکھتی تھی، بچوں کا کس طرح خیال رکھا جائےاُس نےسیکھا نہ تھا اور نہ اُسنےسیکھنےکی ضرورت محسوس کی تھی ۔
ارے! میں اپنےبچوں کا اِس طرح سےخیال نہیں رکھتی ہوں تو کیا اِن لوگوں کا خیال رکھوں۔ اُن کےماں باپ نےکیا اُنھیں ہمارےلےجنا ۔ پیدا کیا اُنھوں نےاور یہاں ہمارےپاس لاکر چھوڑ گئے۔
سندھیا تم اس کام کےپیسےبھی تو لیتی ہو ؟
بی بی میں پیسےان بچوں پر نظر رکھنےکےلیتی ہوں ۔ یہ کمرےکےباہر تو نہیں جارہےہیں ۔ کوئی اُنھیں اغوا کرنےکی کوشش تو نہیں کررہا ہے؟ رات دِن ان کی خدمت کرنےکےنہیں ؟
سندھیا کی باتوں اور حرکتوں سےاسےاُلجھن ہوتی تھی ۔ اسےسندھیا کی نہ تو کوئی بات پسند تھی اور نہ کوئی حرکت ۔ کبھی کبھی دِل میں آتا تھا کہ وہ سسٹر سےاس کی شکایت کردےیا پھر سسٹر سےکہہ کر سندھیا کےبدلےمیں کسی اور کو اپنےمعاون کےطور پر مانگ لے۔
مگر اس کا انجام کیا ہوگا اُسےاس بات کا اندازہ تھا ۔
ار وہ سسٹر سےسندھیا کی شکایت کرتی تو سسٹر اُےفوراً اُسےاِس کام سےنکال دیتی ۔
یا وہ سندھیا کےبدلےمیں کسی اور کو مانگ لیتی تو سندھیا جس کسی کےساتھ رہتی اُ س کی حرکتوں کی وجہ سےوہ سسٹر سےاُس کی شکایت ضرور کرتی اور سسٹر اُسےکام پر سےنکال دیتی ۔
اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ سندھیا کی نوکری جائے۔
کیونکہ اُسےپتا تھا سندھیا بھی اُسی کی طرح بہت ضرورت مند ہے۔
اِسی نوکری پر اُس کا گھر چلتا تھا ۔
اُس کا ایک آوارہ شرابی شوہر تھا جو کام نہیں کرتا تھا لیکن روزانہ شراب پینےکےلئےاُس سےلڑجھگڑ کر پیسےضرور لےجاتا تھا ۔ اُس کےچار بچےتھے۔ سب سےچھوٹا لڑکا ٢ سال کا تھا ۔وہ اُن سب کو اکیلا اپنےگھر چھوڑ کر آتی تھی ۔ ان سب کا خیال اس کی بڑی لڑکی رکھتی تھی ۔ جس کی عمر ٠١ سال کےقریب ہوگی ۔
سندھیا کا اس نوکری سےنکال دیا جانا ان سب کےلئےبھکمری کا پیغام لےکر آتا ۔ اس لئےوہ سندھیا اور اس کی حرکتوں کو برداشت کئےجارہی تھی ۔
ان کےپاس جو ٠٣ بچےتھےان میں سےتقریباً دس بچےایک سال سےبھی کم عمر کےتھے۔چنٹو اور رنیتو صرف دو ماہ کےتھے۔ دس بچےپانچ سال سےکم کےتھےباقی پانچ سال سےبڑےتھے۔
بڑےبچےان کےلئےکوئی مسئلہ نہیں تھے۔
جب ان کےماں باپ اُنھیں چھوڑ کر جاتےتھےتو ان کا اسکول کا بستہ ان کےساتھ ہوتا تھا ۔وہ بچےایک کونےمیں بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتےتھے، جب ان کی اسکول کا وقت ہوجاتا تو وہ دونوں ان بچوں کو یونیفارم پہنا کر تیار کرتیں اور اسکول کی بس یا رکشاتک چھوڑ آتیں ۔
ان میں سےکچھ بچےاسکول چھوٹنےکےبعد سیدھےگھر چلےجاتےتھے۔کیونکہ تب تک ان کےماں باپ گھر واپس آجاتےتھے۔کچھ بچےاسکول سےدوبارہ کیئر ہوم میں آجاتےتھے۔ کیونکہ ان کےماں باپ دیر سےگھر آتےتھے۔ اِس لئےوہ ڈیوٹی سےآکر اُنھیں کیئر ہوم سےلےکر جاتےتھے۔
پانچ سال کےبچےآپس میں یا پھر کمرےمیں رکھےکھلونوں سےکھیلا کرتےتھے۔
سب سےبڑا مسئلہ ٢ ماہ سے١ سال کی عمر کےجو بچےتھے‘ ان کا تھا ۔ ایک ایک لمحہ ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔ اُنھیں وقت پر دُود ھ ، دو ائیں یا دُوسری چیزیں دینا ۔ پیشاب ، پاخانےکی صورت میں اُن کےکپڑےتبدیل کرنا ، رونےکی صورت میں اُنھیں بہلانا ۔
پھر عام طور پر اس عمر کےبچےصرف ماں باپ سےہی بہلتےہیں ۔ ایک بار اگر رونا شروع کردیں تو پھر اُنھیں بہلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بڑےبچوں کو تو مار کےخوف سےچپ کرایا جاسکتا ہے۔
لیکن اِس عمر کےبچوں کےسامنےیہ ہتھیار بھی ناکارہ ثابت ہوتا تھا ۔ ایسی بچوں کا وہ ماں بن کر خیال تو رکھ سکتی تھی لیکن ماں نہیں بن سکتی تھی ۔ بچےماں کےلمس سےہی چپ ہوجاتےہیں ۔ بھلےوہ اُنھیں لاکھ ماں سا لاڈ ، پیار ، دُلار دےلیکن ماں کا لمس کیسےدےسکتی تھی ۔جس سےوہ آشنا تھے۔
اُسےپتا تھا اگر اس نےکسی بھی بچےکو سنھالنےمیں ذرا بھی لاپرواہی کی تو اِس کی سزا اسےہی بھگتنی پڑےگی۔
راہیہ کو ہر ایک گھنٹےکےبعد دوا دینی پڑتی تھی ۔ اگر اس نےاسےباقاعدگی سےدوا نہیں دی تو وہ بیمار ہوجائےگی ۔ راہیہ کی ماں صرف رات بھر اسےسنبھالےگی ۔دُوسرےدِن وہ اس کےپاس چھوڑ کر جائےگی اور دُوسرےبچوں کےساتھ بیمار راہیہ کو اسی کو سنبھالنا پڑےگا ۔ گوتم کو ہر ایک گھنٹےپر دُودھ دینا پڑتا تھا ۔ اگر اُسےدودھ نہ ملےتو وہ رو رو کر سارا کمرہ سر پر اُٹھا لیتا تھا ۔ اور اُسےروتا دیکھ کر دوسرےبچےبھی رونےلگتےتھے۔بچوں کو یہ عادت ہوتی ہےکہ اگر وہ کسی کو روتا ہوا دیکھتےہیں تو خود بھی رونا شروع کردیتےہیں ۔
اِس سےبہتر تھا کہ ٥١ ۔ ٠٢ روتےہوئےبچوں کو سنبھالنےکےبجائےگوتم نہ روئےاس بات کی ترکیب کی جائے۔
نِکیتا صرف ٨ مہینےکی ہے۔اس کا باپ اسےوہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اور اسےلینےکےلئےبھی آتا ہے۔اس کی ماں جب وہ ٥ مہینےکی تھی تو کسی کےساتھ بھاگ گئی تھی ۔ ا ب اس کا باپ ہی ماں بن کر اس کی پرورش کررہاہے۔
اشونی کی صرف ماں ہے۔اُس کےباپ نےکسی اور کےساتھ دُوسری شادی کرلی ہے۔ مجبوراً اپنا گھر چلانےکےلئےاس کی ماں کو نوکری کرنی پڑی ۔ وہ آٹھ مہینےکا ہے۔اس کی ماں اس کےپاس اشونی کو چھوڑ کر نوکری کرنےجاتی ہے۔
جب ماں باپ کیئر ہوم میں بچےچھوڑ کر جاتےہیں تو ان کےلئےسیکڑوں ہدایتیں دےجاتےہیں ۔
ہر دوگھنٹےکےبعد دُودھ پلاتی رہنا ، دوا باقاعدگی سےدینا ، اگر پاخانہ یا پیشاب کرےتو فوراً صاف کردینا ، زیادہ دیر کھلا رہنےسےاُسےسردی ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر نےسختی سےمنع کیا ہےتو بچےکو سردی نہیں ہونی چاہیئے۔ اس بار سردی ہوئی تو اسےنمونیہ ہونےکا ڈر ہے۔ دوپہر کو کپڑےبدل کر کاجل پاو
¿ڈر لگادینا ۔ شام کو بچہ اچھی حالت میںہونا چاہیئے۔ اسےراہل سےدُور رکھنا ، راہل بیمار ہےکہیں اس کی بیماری اسےنہ لگ جائے۔
چھوٹےبچوں کےلئےتو ہدایتیں تھیں ۔ بڑےبچوں کےلئےکوئی ہدایتیں نہیں ہوتی تھیں ۔ کیونکہ بچےخود ہدایت دیتےتھے۔
ممی نےکہا ہے۔ ١١ بجےدوائی دیجئےگا ۔
ممی نےکہا ہے۔٠١ بجےوہ چاکلیٹ کھالینا جو اُنھوں نےدی ہے۔
ممی نےکپڑےبدل کر نہلانےکےلئےکہا ہے۔
بچےخود فرمائش کرتے، ایسےبچوں کی فوراً فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی ۔ نہ کرنےکی صورت میں وہ باپ سےشکایت کردیتے، ماں باپ اُسےباتیں سناتےاور سسٹر روزی کو بھی شکایت کردیتےاور اسےسسٹر روزی کی بھی باتیں سننی پڑتیں ۔ ان تمام خوف اور ڈر سےبےنیاز کوئی تھا تو وہ سندھیا ۔
ہر بچےسےوہ پوچھتی ۔
اےآج ٹفن میں کیا لایا رے؟
اگر بچےکےٹفن میں کوئی اچھی چیز رہتی تو وہ اسےخود کھاجاتی تھی ۔ بچوں کےچاکلیٹ بسکٹ بھی آدھےسےزیادہ خود کھالیتی تھی ۔ ذرا ذرا سی بات پر بچوں کو بری طرح مارتی تھی اور اُنھیں دھمکاتی بھی تھی ۔ اگر اُنھوں نےاپنےماں باپ سےشکایت کی تو کل اس سےزیادہ مار پڑےگی ۔
اس دھمکی کےبعد بچےشکایت نہیں کرتےتھے۔اگر کسی نےکچھ کہہ دیا اور اسےباتیں سننی پڑتی تھی تو دُوسرےدِن اس بچےکو اس بری طرح مارتی تھی کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرتا تھا ۔
اُسےیہ سب اچھا نہیں لگتا تھا ۔
اُس کی سوچ الگ تھی ۔
اُسےماں باپ کےدِلوں کا پتا تھا ۔
ماں باپ اپنےبچوں کو ایک لمحہ کےلئےبھی کبھی جدا نہیں کرتےتھے۔ اگر وہ جدا کرتےبھی ہیں تو ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے۔ جو ماں باپ اپنےبچوں کو ان کےپاس چھوڑ جاتےہیں وہ سب مجبور ہیں ۔ پیٹ کی خاطر ، روزی ، روٹی کی خاطر وہ اتنا بڑا پتھر اپنےدِل پر رکھتےہیں ۔
ایسےمیں ان ماں باپ کےجذبات سےکیوں کھیلا جائے۔
سسٹر روزی ان بچوں کو سنبھالنےکےاسےپیسےدیتی ہے۔
پھر اپنےکام سےایمانداری کیوں نہ برتی جائے۔ بےایمانی برت کر کیا حاصل ؟
اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔
وہ ماں نہیں بنی تھی ۔ لیکن ان ٠٣ بچوں کو سنبھالتےہوئےکب وہ ان ٠٣ بچوں کی ماں بن گئی تھی اسےبھی پتہ نہیں چل سکا تھا ۔
٭٭٭
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)
Contact:-
M.Mubin
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist. Thane ( Maharashtra)
Mobile:-09372436628
Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Rehai By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ
رہائی
از:۔ایم مبین
دونوں چپ چاپ پولس اسٹیشن کےکونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنےکا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹےہوگئےتھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کریں ۔جب بھی دونوں ایک دوسرےکو دیکھتےاور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرےکو مجرم تصور کرتے۔
دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کرپائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کےگناہ کی پاداش میں دوسرےکو سزا مل رہی ہی۔ وقت گذاری کےلئےوہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کےلئےیہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہوگا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔
سامنےلاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازےاور ان دروازوں کےچھوٹےچھوٹےکمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ‘ کوئی آپس میں باتیں کررہا تھا تو کوئی سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوالےسپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔
ان میں سےکچھ کےچہرےاتنےبھیانک اور کرخت تھےکہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سےہےیا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرےبالکل ان سےملتےجلتےتھے۔ معصوم بھولےبھالے۔ سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ” تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتےہو ۔ تم لوگ یہاں کیسےآن پھنسے؟ “وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتےتو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سےتو یہ بھولےبھالےمعصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتےہیں یہکیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔
باہر دروازےپر دو بندوق بردار پہرہ دےرہےتھے۔ لاک اپ کےپاس بھی دو سپاہی بندوق لئےکھڑےتھے۔ کونےوالی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آکر اس کی میز کےسامنےوالی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سےباتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانےکےبعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔
اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کےبریف کیس رکھےہوئےتھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوےاسٹیشن سےپکڑ کر لائےگئےتھےان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھےلیکن کسی میں اتنیہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کرسکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نےآپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنےکھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔
اےخاموش ! آواز مت نکالو ‘ شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ “ اس کےبعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرےسےباتیں کرنےکی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرےکےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرےکےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سےکام کرتےتھےاور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئےتھے۔
آج جب دونوں آفس سےنکلےتھےتو دونوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔
آفس سےنکلتےہوئےاشوک نےکہا تھا ۔ ” میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلوگی؟ ایک چھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہےلیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہورہا ہے۔
چلو ! “ اس نےگھڑی دیکھتےہوئےکہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہےہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتےہیں ۔ “ وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔
ایک دوکان سےانہوں نےچھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کےبعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔
قیمت ادا کرکےاشوک نےسیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتےہوئےریلوےاسٹیشن کی طرف چل دئے۔ اسٹیشن پہنچےتو سات بجنےمیں بیس منٹ باقی تھےدونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کےآنےمیں پورےبیس منٹ باقی تھے۔
فاسٹ ٹرین کےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنےکی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سےجانا پسند کررہےتھے۔
اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پرپولس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نےپلیٹ فارم کےہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کردیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرےمیں لےلیتےان سےپوچھ تاچھ کرکےان کےسامان اور سوٹ کیس ‘ اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتےیا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولس جیپ میں بٹھا آتے۔
انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔
کیا بات ہےحولدار صاحب ؟ “ اس نےپوچھا ۔ ” یہ تلاشیاں کس لئےلی جارہی ہیں ؟
ہمیں پتہ چلا ہےکہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لےجارہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکےلئےیہ کاروائی کی جارہی ہے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
وہ کل آٹھ لوگ تھےجنہیں ان سپاہیوں نےگھیرےمیں لےرکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہوچکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔
جسمانی تلاشی لینےکےبعد اشوک کوبریف کیس کھولنےکےلئےکہا گیا ۔ کھولتےہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکےبعد جیسےہی ان کی نظریں چھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ” باپ رےاتنی چھریاں ؟ صاب ہتھیار ملےہیں ۔ “ ایک نےآواز دےکر تھوڑی دور کھڑےانسپکٹر کو بلایا ۔
حولدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنےکی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانےکی کوشش کی ۔
ہاں حولدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہےہم نےابھی بازار سےخریدا ہے۔ “ اس نےبھی اشوک کی صفائی پیش کرنےکی کوشش کی ۔
تو تُو بھی اس کےساتھ ہے‘ تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟“ کہتےہوئےایک سپاہی نےفوراً اسےدبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلےہی اشوک کو دبوچ چکےتھے۔ ” ہم سچ کہتےہیں حولدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔
چپ بیٹھ ! “ ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پرپڑا ۔
حولدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ “ اشوک نےاحتجاج کیا ۔
ماریں نہیں تو کیا تیری پوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئےپھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنےکا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سےہوگا ۔ “ ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈےبرسانےلگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈےپڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈےاس پر پڑنےکےبعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسےہی کچھ کہنےکےلئےمنہ کھولتا اس پر ڈنڈےبرسنےلگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔
کیا بات ہے؟“ اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔
صاب اس کےپاس ہتھیار ملےہیں ۔
اسےفوراً تھانےلےجاو
¿ اور گھسیٹتےہوئےپلیٹ فارم سےباہر لےجانےلگے۔ باہر ایک پولس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھےتھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نےاپنی حفاظت میں لےرکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔
آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ “ جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سےپوچھنےکی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرےپر پڑا ۔
چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ “ اس آدمی کےمنہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنےلگا ۔
پولس اسٹیشن لاکر انہیں اس کونےکی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچےتو مسلسل لکھنےوالےنےلانےوالےسپاہیوں سےپوچھا ۔
یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلارہےہو ؟
ریلوےاسٹیشن پر چھاپےکےدوران پکڑےگئےہیں ان کےپاس سےمشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئےہیں ۔
پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہےہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔
صاحب نےکہا ہےکہ انہیں باہر بٹھا کررکھو وہ آکر ان کےبارےمیں فیصلہ کریں گی۔“بینچ پر بٹھانےسےپہلےان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرےانسپکٹر نےپکڑا تھا اس لئےانہیں دوسرےکمرےمیں بٹھایا گیا۔ اور بھی اس طرح کےکتنےلوگ لائےگئےانہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرےکی سرگرمیاں دیکھ پا رہےتھےجس میں وہ مقیّد تھے۔
نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرےساتھیوں سےپوچھ لیتے۔ ”یہ کہاں سےپکڑےگئےہیں ۔ جُوئےگھر سے‘ بلیو فلم دیکھتےہوئےیا طوائفوں کےاڈوں سے؟
ہتھیاروں کی تلاش میں ۔ آج ریلوےاسٹیشن پر چھاپا مارا تھا ۔ وہاں پر پکڑےگئےہیں ۔
کیا کچھ برآمد ہوا ؟
خاطر خواہ تو کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکا ۔ تلاش جاری ہے۔صاب ابھی نہیں آئےہیں ۔ آئیں تو پتہ چلےگا کہ خبر صحیح تھی یا غلط اور اس چھاپےسےکچھ حاصل ہوا ہےیا نہیں ؟
جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔ اشوک کی حالت غیر تھی ۔ اس کی
چہرےپر اس کےدل کی کیفیت ابھر رہی تھی ۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسےوہ ابھی چکرا کر گرجائےگا ۔ اسےاندازہ تھا جن خدشات سےوہ ڈر رہا ہےاشوک کےخدشات کچھ زیادہ ہی ہوں گی۔ اسےاس بات کا اطمینان تھا تلاشی میں اس کےپاس سےکوئی بھی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئےنہ تو پولس اس پر کوئی الزام لگا سکتی ہےنہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اشوک کےساتھ گرفتار ہوا ہے۔ اشوک پر جو بھی فردِ جرم عائد کی جائےگی اس میں اسےبھی برابر کا شریک قرار دیا جائےگا ۔ کبھی کبھی اسےغصہ آجاتا ۔
آخر ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ کس جرم میں ہمارےساتھ عادی مجرموں سا ذلت آمیزسلوک کیا جا رہا ہےاور یہاں گھنٹوں سےبٹھا کر رکھا گیا ہےاور ہماری تذلیل کی جارہی ہے؟ ہمارےپاس سےتو ایسی کوئی مشکوک قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ہے۔ وہ چھریوں کا سیٹ ؟ وہ تو گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں ۔ انہیں اپنےپاس رکھنا یا کہیں لےجانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اشوک ان چیزوں سےکوئی قتل و غارت گری یا دنگا فساد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو انہیں اپنےگھر اپنےگھریلو استعمال کےلئےلےجانا چاہتا تھا ۔ “ لیکن وہ کس سےیہ باتیں کہے‘کس کےسامنےاپنی بےگناہی کی صفائی پیش کرے۔ یہاں تو آواز بھی منہ سےنکلتی ہےتو جواب میں کبھی گالیاں ملتی ہیں تو کبھی گھونسے۔ اس مصیبت سےکس طرح نجات پائیں دونوں اپنی اپنی طور پر سوچ رہےتھےجب ان سوچوں سےگھبرا جاتےتو سرگوشی میں ایک دوسرےسےایک دو باتیں کرلیتی۔
انور اب کیا ہوگا ؟
کچھ نہیں ہوگا اشوک ! تم حوصلہ رکھو ۔ ہم نےکوئی جرم نہیں کیا ہے۔
پھر ہمیں یہاں یوں کیوں بٹھاکر رکھا گیا ہے۔ ہمارےساتھ عادی مجرموں کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟
یہاں کےطور طریقےایسےہی ہیں ۔ ابھی ہمارا کیس کسی کےسامنےگیا بھی نہیں ہے۔
میرا سالہ مقامی ایم ۔ ایل ۔ اےکا دوست ہے۔ اسےفون کرکےتمام باتیں بتادوں گا وہ ہمیں اس جہنم سےنجات دلادےگا ۔
پہلی بات تو یہ لوگ ہمیں فون کرنےنہیں دیں گے۔ پھر تھوڑا حوصلہ رکھو انسپکٹر کےآنےکےبعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہےاس وقت اس بارےمیں سوچیں گے۔
اتنی دیر ہوگئی گھر نہ پہنچنےپر بیوی متفکّر ہوگی ۔
میری بھی یہی حالت ہے۔ ایک دو گھنٹےلیٹ ہوجاتا ہوں تو وہ گھبرا جاتی ہی۔ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ نہ ملنےکی صورت میں کسی بھی الزام میں پھنسا دیں گے۔
ارےسب ان کا پیسہ کھانےکےلئےیہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ “ بغل میں بیٹھا آدمی ان کی سرگوشیوں کی باتیں سن کر پھسپھسایا ۔ ” کڑکی لگی ہوئی ہےکسی مجرم سےہفتہ نہیں ملا ہوگا یا اس نےہفتہ دینےسےانکار کردیا ہوگا ۔ اس کےخلاف تو کچھ نہیں کرسکتےاس کی بھرپائی کرنےکےلئےہم شریفوں کو پکڑا گیا ہے۔
تمہارےپاس کیا ملا ؟ “ اس نےپلٹ کر اس آدمی سےپوچھا ۔
تیزاب کی بوتل ۔ “ وہ آدمی بولا ۔ ” اس تیزاب سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں جو کئی مہینوں سےبستر پر ہے۔ اس کی بیماری کےجراثیم مرجائیں ان سےکسی اور کو نقصان نہ پہنچےاس کےلئےڈاکٹر نےاس کےسارےکپڑےاس ایسڈ میں دھونےکےلئےکہا ہے۔ آج ایسڈ ختم ہوگیا تھا وہ میڈیکل اسٹور سےخرید کر لےجارہا تھا ۔ مجھےکیا معلوم تھا اس مصیبت میں پڑجاو
¿
اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔
ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔
ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔
فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔
شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟
انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔
صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟
جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔
زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔
اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔
نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔
اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
تم ؟
صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔
تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو
¿
نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنےبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی،
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
M.Mubin
Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI_ 421302
Dist.Thane Maharashtra India)
Mob:- 09322338918) )
mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 20-11-2010

0 comments:

Post a Comment


About this blog

Followers