Urdu Short Stories By M.Mubin Part Two


 

افسانہ دہشت از:۔ایم مبین
ہےبھگوان ! میں اپنےگھر والوں کےلئےرزق کی تلاش میں گھر سےباہر جارہا ہوں ۔ مجھےشام بحفاظت گھر واپس لانا ۔ میری حفاظت کرنا میری غیر موجودگی میں میرےگھر اورگھر کےافراد کی حفاظت کرنا ۔
دروازےکےقریب پہنچتےہی یہ دعا اس کےہونٹوں پر آگئی اور وہ دل ہی دل میں اس دعا کو دہرانےلگا ۔ جیسےہی اس نےدعا کےآخری الفاظ ادا کئےاس کا پورا جسم کانپ اٹھا اور پورےجسم میں ایک برقی لہر سی دوڑ گئی آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔
اس نےگھبرا کر پیچھےپلٹ کر دیکھا ۔
اس کی بیوی بچےکو لےکر معمول کےمطابق اسےچھوڑنےدروازےتک آئی تھی ۔
بیٹےپاپا کو ٹاٹا کرو ۔اس نےبچےسےکہا تو بچہ اسےدیکھ کر مسکرایا اور اپنےننھےننھےہاتھ ہلانےلگا ۔
شام کو جلدی گھر آجانا کہیں رکنا نہیں ذرا سی دیر ہوجاتی ہےتو میرا دل گھبرانےلگتا ہے ۔ بیوی نےکہا تو اس کی بات سن کر ایک بار پھر اس کا دل کانپ اٹھا پیر جیسےدروازےمیں جم گئےلیکن پھر اس نےاپنا سر جھٹک کر قوت ارادی کو مضبوط کرتےہوئےدروازےکےباہر قدم نکالے۔
گھر سےباہر نکل کر اس نےایک بار پھر مڑ کر اپنےگھر کو دیکھا بیوی بچےکو گود میں لئےدروازےمیں کھڑی تھی ۔
پتہ نہیں کیوں ایک بار پھر اس کےدماغ میں اس خیال کےناگ نےاپنا پھن اٹھایا ۔ اسےایسا محسوس ہوا جیسےوہ آخری بار اپنےگھر سےباہر نکل رہا ہےاپنےگھر اور بیوی بچےکا آخری دیدار کر رہا ہے۔ اب وہ کبھی واپس لوٹ کر اس گھر میں نہیں آئےگا نہ بیوی بچےکو دوبارہ دیکھ پائےگا ۔
گھبرا کر اس نےاپنےسر کو جھٹکا اور تیزی سےآگےبڑھ گیا ۔
اسےخوف محسوس ہورہا تھا اگر اس کی بیوی نےاس کےان خیالات کو پڑھ لیا تو وہ ابھی رو اٹھےگی اور رو رو کر خود کو بےحال کرلےگی اور اسےڈیوٹی پر جانےنہیں دےگی ۔ مجبوراً اسےچھٹی لینی پڑےگی ۔
وہ کیا کرے؟ اس کےذہن میں ان خیالوں کا جو ناگ کنڈلی مار کر بیٹھا ہےاس ناگ کو اپنےذہن سےکس طرح نکالے۔
ہر بار وہ اپنےذہن میں بیٹھےاس ناگ کو مار بھگانےکی کوشش کرتا ہےاور کبھی کبھی تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر دوبارہ وہ ناگ اس کےذہن میں آکر بیٹھ جاتا ہےاور اس کی ساری کوشش رائیگاں جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔
چار پانچ دنوں سےوہ خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ وہ اس ناگ کو مار بھگانےمیں کامیاب رہا تھا ۔ وہ اطمینان سےذہن میں بنا کوئی بوجھ لئےآفس جاتا تھا اور اسی اطمینان سےواپس گھر آتا تھا ۔
نہ تو گھر میں کوئی تناو  تھا اور نہ ہی ذہن میں کوئی تناو  تھا ۔ پھر ایک حادثہ ہوا اور وہ ناگ دوبارہ اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔
اس دن آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملند آفس نہیں آیا ۔
کیا بات ہے آج ملند آفس کیوں نہیں آیا ہے؟ اس نےپوچھا ۔
ارےتم کو معلوم نہیں ؟ اس کی بات سن کر گائیکر حیرت سےاسےدیکھنےلگا
کل اس کا قتل ہوگیا ۔
قتل ہوگیا ؟ یہ سنتےہی اس کےذہن کو ایک جھٹکا لگا ۔ قتل اور ملند کا ؟ مگر کیوں ؟ اس نےکسی کا کیا بگاڑا تھا ؟ وہ شریف آدمی کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا ؟ اس بےچارےکا تو مشکل سےکوئی دوست تھا تو بھلا دشمن کیسےہوسکتا ہے؟
نہ وہ دوستوں کےہاتھوں مرا اور نہ دشمنوں کے! وہ تو بےموت مارا گیا ۔ گائیکر بتانےلگا ۔ آفس سےوہ گھر جارہا تھا ۔ لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس اچانک دو گینگ والوں میں ٹکراو  ہوا ۔ دونوں طرف سےگولیاں چلنےلگیں ۔ ان گولیوں سےپتہ نہیں ان گینگ کےافراد مارےگئےیا زخمی ہوئےلیکن ایک گولی اس جگہ سےگذرتےملند کی کھوپڑی توڑتی ضرور گزر گئی ۔
اوہ …….. نو ! یہ سن کر وہ اپنا سر پکڑ کر کرسی سےٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔
بےچارہ ملند !
کل کتنی پیاری پیاری باتیں کررہا تھا ۔
اننت بھائی ! اپنےکمرےکا انتظام ہوگیا ہےاب کمرہ کہاں لیا کتنےمیں لیا یہ مت پوچھو بس لےلیا ۔ یہ سمجھو گھر والےبہت خوش ہیں کہ میں نےکوئی کمرہ لےلیا ہے۔ سالا اتنےچھوٹےسےگھر میں سارےخاندان والوں کو رہنا پڑتا تھا ۔ میرےکمرہ لینےسےسب سےزیادہ خوش نینا ہے۔ میں نےجیسےہی اسےیہ خوش خبری سنائی گارڈن میں سب لوگوں کےسامنےاس نےمیرا منھ چوم لیا ایک بار نہیں پورےتین بار اور بولی اب جلدی سےگھر آکر میرےباپو سےہماری شادی کی بات کرلوویسےوہ تیار ہیں ۔ ان کی ایک ہی شرط تھی اور وہ یہ کہ تم رہنےکےلئےکوئی کمرہ لےلو ۔
بےچارہ ملند ! وہ سوچنےلگا ۔ کل جب وہ آفس سےنکلا ہوگا تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ گھر کی طرف نہیں موت کی طرف جارہا ہے۔ کیا سویرےگھر سےنکلتےوقت اس نےسوچا ہوگا کہ وہ آخری بار آفس جارہا ہے؟ اس کےبعد اسےکبھی گھر سےآفس کےلئےنکلنےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ یا اب کبھی وہ لوٹ کر گھر نہیں آئےگا ۔ کیا وہ جس موت کا شکار ہوا ہےیہ اس کی فطرتی موت ہے؟ نہیں نہیں …. ! نہ یہ اس کی فطرتی موت تھی اور نہ اس کی قسمت میں اس طرح کی موت لکھی تھی ۔ وہ تو بےموت مارا گیا ۔
دو گینگ والےآپس میں ٹکرائے۔ ایک دوسرےکو ختم کرنےکےلئےگولیاں چلیں اور ختم ہوگیا بےچارہ ملند ۔
جس طرح ملند کی کہانی ختم ہوگئی ممکن تھا اگر وہ بھی اس جگہ سےگزرتا تو اس کی زندگی کا بھی خاتمہ ہوجاتا ۔ مانا وہ اس کا راستہ نہیں تھا لیکن یہ ضروری نہیں ہےکہ گینگ وار صرف لوکھنڈ والا کامپلیکس کےپاس ہی ہوتی ہیں ۔
وہ دادر میں بھی ہوسکتی ہے کرلا میں بھی ملنڈ میں بھی اور تھانےاسٹیشن کےباہر بھی ۔ یہ تو اس کا رستہ ہے۔ جس گولی نےملند کی جان لی تھی اس طرح کی کوئی گولی اس کی بھی جان لےسکتی ہے۔
ناگ دوبارہ آکر اس کےذہن میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا ۔ اور اب چاہ کر بھی وہ اس ناگ کو اپنےذہن سےنہیں نکال سکتا تھا ۔
گذشتہ ایک سال سےوہ اس ناگ کی دہشت سےخوف زدہ تھا ۔ گذشتہ ایک سال سےروزانہ اسےاس ناگ کا لہراتا ہوا پھن دکھائی دیتا تھا ۔ روزانہ وہ جس راستےسےبھی گزرتا تھا وہاں سےموت اسی کی تاک میں بیٹھی محسوس ہوتی تھی ۔
اسےصرف اس دن ناگ سےنجات ملتی تھی جس دن وہ آفس نہیں جاتا تھا اور گھر میں ہی رہتا تھا ۔
گھر میں وہ اپنےبیوی بچوں کےدرمیان خود کو بےحد محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےپورا اطمینان ہوتا تھا کہ جب تک وہ اپنےگھر میں ہےاپنےخاندان کےافراد کےدرمیان ہےمحفوظ ہے۔
ہاں جس لمحےاس نےگھر سےباہر قدم رکھا اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔صرف وہ اکیلا ہی اس دہشت سےخوفزدہ نہیں تھا جب وہ غور کرتا تو اسےاپنےساتھ سفر کرتا ہر آدمی اسےدہشت زدہ محسوس ہوتا تھا ۔ کسی کو بھی اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ۔
جب وہ اس موضوع پر لوگوں سےگفتگو کرتا تو اسےمحسوس ہوتا وہ جس خوف کےسائےمیں جی رہا ہےلوگ بھی اسی خوف کےسائےتلےجی رہےہیں ۔ سارےشہر پر وہ کالا سایہ چھایا ہوا ہے۔
ایک سال قبل تک سب کچھ کتنا اچھا تھا ۔
روزانہ وہ بلا خوف و خطر آفس جاتا اور آفس سےواپس گھر آتا تھا ۔ کسی وجہ سےاگر وہ آدھی رات تک گھر نہیں پہنچ پاتا تھا تو بھی گھر والےاس کی کوئی فکر نہیں کرتےتھے۔ وہ یہ اندازہ لگالیتےتھےکہ ضرور آفس میں کوئی کام ہوگا اس لئےگھر آنےمیں دیر ہوگئی ہوگی یا ٹرین سروس میں کوئی خلا پیدا ہوگیا ہوگا اس لئےوہ ابھی تک گھر نہیں آپایا ہے۔ وہ خود جب آفس سےنکلتا تو اسےبھی گھر پہونچنےکی کوئی جلدی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بڑےآرام سےضروری اشیا ءخرید کر گھر جاتا تھا ۔
لیکن اب تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آدھا گھنٹہ بھی لیٹ ہوجاتا تھا تو اس کی بیوی کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں ۔ وہ بےچینی سےکمرےمیں ٹہلتی پتہ نہیں کیا کیا سوچنےلگتی تھی ۔
اگر وہ گھر آنےمیں دو تین گھنٹہ لیٹ ہو جاتا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگتی تھی ۔ وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں پہونچا ؟ کیا اس کےساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے؟
اب وہ آفس سےنکلتا تھا تو سیدھا پہلی لوکل پکڑ کر گھر جانےکی سوچتا تھا وہ آفس سےباہر خود کو بڑا غیر محفوظ سمجھتا تھا ۔ اسےاگر کوئی ضروری چیز بھی خریدنی ہوتی تھی تو وہ ٹال دیتا تھا ۔
ایک دہشت ذہن میں سمائی رہتی تھی ۔ پتہ نہیں کب کہیں کوئی بم پھٹےاور اس کےجسم کےپرخچےاڑجائیں ۔
پتہ نہیں کب کہیں سےکوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاقو ، چاپڑ لئےمذہبی نعرےلگاتا ہوا آئےاور آکر اس کےجسم کےٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔
پتہ نہیں کب کہیں سےپولس کی گولی آئےاور اس زمین کو اس کےوجود سےپاک کردےپتہ نہیں کہیں دو گینگوں کی وار میں چلی کوئی گولی اچٹ کر آئےاور ملند کی طرح اس کا بھی خاتمہ کردے۔ اور نہیں تو یہ بھی ممکن ہےوہ جس لوکل ٹرین سےسفر کررہا ہو اس کےڈبےمیں بم پھٹ پڑے۔
گذشتہ ایک سال میں اس نےاپنی آنکھوں سےاپنی موت کو اپنےبہت قریب سےدیکھا تھا ۔ اپنےکئی شناساو  ں اور عزیزوں کو موت کا نوالا بنتےہوئےدیکھا تھا اور ایک دوبار تو خود موت اس کےقریب سےگزری کہ آج بھی جب وہ ان لمحات کو یاد کرتا تھا تو اس کےجسم میں کپکپی چھوٹ جاتی تھی ۔
وہ دسمبر کا ایک منحوس دن تھا ۔ بیوی اسےروک رہی تھی ۔
آج آپ ڈیوٹی پر مت جائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہےضرور آج کچھ نہ کچھ ہوگا ۔
تمہارا دل تو روز ہی گھبراتا رہتا ہےاس کا مطلب تو یہ ہوا میں روز آفس نہ جاو  ں ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا تم سوچ رہی ہو ۔ اس طرح کےواقعات تو روزانہ ہوتےرہتےہیں ۔ میرا آج آفس جانا بہت ضروری ہےکہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے میں جلد ہی واپس آجاو  ں گا ۔
بیوی روکتی رہی مگر وہ نہ مانا اور ڈیوٹی پر چلا آیا ۔
اس دن آفس میں حاضری آدھےسےبھی کم تھی ۔ آنےوالےآتو گئےتھےلیکن اس لمحےکو کوس رہےتھےجب انہوں نےآفس جانےکا فیصلہ کیا تھا ۔ سب کا یہی خیال تھا کہ اگر وہ نہ آتےتو بہتر تھا ۔ کیونکہ جو خبریں آفس پہنچ رہی تھیں اسےمحسوس ہورہا تھا آدھا شہر جل رہا ہے۔
آسمان میں دھوئیں کےبادل چھائےصاف دکھائی دےرہےتھے۔ سارےشہر پر ایک دہشت چھائی ہوئی تھی ۔ کھلی دکانیں دھڑا دھڑ بند ہورہی تھیں سڑکوں سےسواریاں اور لوگ غائب ہورہےتھے۔
یہ طےکیا گیا کہ آفس بند کرکےسب لوگ فوراً اپنےگھروں کو چلےجائیں ۔ ریلوےاسٹیشن تک آتےآتےانہوں نےکئی ایسےمناظر دیکھےتھےجس کو دیکھ کر ان کےہوش اڑ گئےتھے۔
جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں ۔ دوکانیں جل رہی تھیں ۔ لٹی ہوئی دوکانیں کھلی پڑی تھیں ۔ سڑک پر ایک دو لاشیں پڑی تھیں ۔ ایک دو زخمی کراہ رہےتھے۔ پتھروں اور سوڈا واٹر کی پھوٹی ہوئی بوتلوں کےڈھیر پڑےہوئےتھے۔
اسٹیشن پر اتنی بھیڑ تھی کہ پیر رکھنےکی بھی جگہ نہیں تھی ۔ جو بھی لوکل آتی تھی لوگ اس پر ٹوٹ پڑتےتھےاور جس کو جہاں جگہ ملتی وہاں کھڑےہوکر ، بیٹھ کر ، لٹک کر جلد سےجلد وہاں سےنکل جانےکی کوشش کرتے۔
اسےایک لوکل میں جگہ ملی تو صورت حال یہ تھی کہ وہ دروازہ میں آدھےسےزیادہ لٹکتا سفر کر رہا تھا اور راستےمیں سارےمناظر دیکھ رہا تھا ۔
لوگوں کےگروہ ایک دوسرےسےالجھےہوئےتھے۔ ایک دوسرےپر پتھراو  کررہےتھے۔ سوڈاواٹر کی بوتلیں پھینک رہےتھے۔ ۔ دوکانیں لوٹ رہےتھےچلّا رہےتھے۔
کہیں پولس اور لوگوں میںٹکراو  چل رہا تھا ۔ پولس اندھا دھند گولیاں چلا رہی تھی لاشیں سڑکوں پر گر رہی تھیں ۔
گولیوں کی ایک بوچھار اس جگہ سےگزرتی لوکل ٹرین سےبھی ٹکرائی ۔ اس کےساتھ جو آدمی لٹکا ہوا تھا گولی پتہ نہیں اس آدمی کےجسم کےکس حصےسےٹکرائی اس کےمنھ سےایک دردناک چیخ نکلی ۔ اس کا ہاتھ چھوٹا وہ ڈبہ سےگرا اور اس کےبعد ابھرنےوالی اس کی دوسری چیخ اتنی بھیانک تھی کہ جس کےبھی کانوں تک وہ چیخ پہنچی وہ کانپ گیا ۔
وہ گاڑی کےنیچےآگیا تھا ۔
ایک گولی سامنےکھڑےآدمی کو لگی اور وہ بےآواز ڈھیر ہوگیا ۔
اس کےجسم سےخون کا ایک فواّرہ اڑا اور آس پاس کھڑےلوگوں کےجسم اور کپڑوں کو شرابور کرگیا ۔
اس کےکپڑوں پر بھی تازہ خون کی ایک لکیر ابھر آئی ۔کسی طرح وہ گھر پہنچنےمیں کامیاب ہوا ۔ اس کےبعد اس نےطےکیا کہ چاہےکچھ بھی ہوجائےوہ اب آٹھ دس دنوں تک یا جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہوجائےآفس نہیں جائےگا ۔
اور وہ آٹھ دنوں تک آفس نہیں گیا ۔ گھر میں بیٹھا شہر کےجلنےکی اور لوگوں کےمرنےبرباد ہونےکی خبریں سنتا پڑھتا رہا ۔ کبھی چوبیس گھنٹےکرفیو رہتا ۔ کبھی کچھ دیر کےلئےکرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آٹھ دنوں میں صورت حال معمول پر آگئی ۔
مجبوریوں کےمارےلوگ اپنےگھروں سےباہر نکلے۔ مجبوری کےتحت آفس جاتے۔ راستےبھر سفر کےجلد خاتمےکی دل ہی دل میں دعا ئیں کرتے۔
آفس پہنچ کر آفس میں کام کرتےہوئےوہ یہی دعا کرتا کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ پیش آئے۔ اور آفس سےجلدی چھٹی لےکر جلد گھر جانےکی کوشش کرتا ۔
آدھی رات تک جاگنےاور کبھی کبھی تو رات بھر جاگنےوالا شہر پانچ بجےہی ویران ہوجاتا تھا ۔ حالات کچھ کچھ معمول پر آئےبھی نہ تھےکہ ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا ۔ اس بار تشدد کا زور کچھ زیادہ تھا ۔
ایک دن دہشت زدہ سا آفس سےدوپہر میں ہی گھر آرہا تھا کہ اچانک ایک مذہبی نعرہ لگاتا گروہ لوکل ٹرین پر ٹوٹ پڑا ۔ گروہ کےہاتھوں میں تلواریں ، چاقو اور چاپڑ تھے۔ مذہبی نعرےلگاتےوہ اندھا دھند لوگوں پر وار کررہےتھے۔ لوگ چیخ رہےتھے، بلبلا رہےتھےلیکن گروہ کو کسی پر رحم نہیں آرہا تھا ۔ تلوار کا ایک وار اس کی پشت پر ہوا اور کےبعد کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں ۔
ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک اسپتال میں پایا ۔
لوکل کسی محفوظ مقام پر رکی تھی ۔ وہاں پر زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا ۔ تین دنوں تک وہ بےہوش تھا ۔ ہوش میں آنےکےبعد گھبرا کر اس نےسب سےپہلےاپنےگھر خبر کرنےکی درخواست کی تھی ۔
اسپتال میں اسےپتہ چلا کہ اس کی بیوی خود دو دنوں سےاسپتال میں ہے۔ وہ گھر نہیں آیا تھا اس لئےرات بھر روتی پیٹتی رہی تھی ۔ جیسےجیسےدل کو دہلا دینےوالی خبریں وہ سنتی تھی اس کاکلیجہ منھ کو آتا ۔ آخر جب برداشت نہیں کرسکی تو بےہوش ہوگئی اور اسےپڑوسیوں نےاسپتال پہنچا دیا ۔
اسپتال میں جب اس کےمحفوظ ہونےکی خبر ملی تو اس کےاندر جیسےایک نئی جان سرایت کرگئی اور وہ اس کےپاس اسپتال چلی آئی ۔
وہ دس دنوں تک اسپتا ل میں رہا اس کےبعد گھر آگیا ۔ گھر آکر اس نےگھر میں کچھ دنوں تک آرام کیا پھر مجبوراً آفس جانےلگا ۔ وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ ہر لمحہ اسےمحسوس ہوتا تھا ابھی کوئی گروہ ہاتھوں میں تلوار ، چاپڑ یا چاقو لئےمذہبی نعرےلگاتا آئےگا اور اس پر ٹوٹ پڑےگا ۔ گذشتہ بار تو وہ ان کےوار سےبچ گیا لیکن اس بار بچ نہیں سکےگا وہ لوگ اس کےجسم کےٹکرےٹکڑےکرڈالیں گے۔
اس کی آنکھوں کےسامنےڈبےّسےدوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالوں کو پھینکنےکےواقعات پیش آئےتھے۔ وہ ان واقعات سےبھی خوف زدہ رہتا تھا ۔ اگر کسی دن غلطی سےوہ کسی ایسےڈبےمیں چڑھ گیا جس میں دوسرےمذہب سےتعلق رکھنےوالےمسافر زیادہ ہوئےتو وہ لوگ بھی اس کےساتھ یہی سلوک کرسکتےہیں ۔ نہیں نہیں ایسا سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھتا تھا ۔
اور پھر ایک دن ایک اور قیامت کا دن آیا ۔ اس کےآفس کےسامنےوالی عمارت میں ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا ۔ اتنا زبردست کہ اس آفس کی کھڑکیوں کےسارےشیشےٹوٹ گئےتھےاوراسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہوئےتھے۔ باہر صرف دھواں ہی دھواں تھا ۔ دھواں ہٹا تو وہاں صرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دےرہا تھا ۔ اور چیتھڑوں کی شکل میں خون میں ڈوبےمرےلوگ ان کی لاشیں ۔ اس طرح کےدھماکےشہر میں کئی مقامات پر ہوئےتھے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئےتھےسینکڑوں مارےگئےتھےکروڑوں کا نقصان ہوا تھا ۔ موت ایک بار پھر اس کی آنکھوں کےسامنےاپنا جلوہ دکھا کر رقص کرتی چلی گئی تھی ۔ اگر وہ بم تھوڑا سا اور زیادہ طاقت ور ہوتا تو اس کا آفس بھی اس کی زد میں آجاتا اور وہ بھی نہیں بچ پاتا ۔
یہیں خاتمہ نہیں تھا ۔ آئےدن لوکل ٹرینوں میں ، پلیٹ فارموں پر چھوٹےبڑےدھماکےہورہےتھے۔ مجرموں کی تلاش کےنام پر کسی پر ذرا بھی شک ہونےپر پولس اسےاٹھالےجاتی اور اسےجانوروں کی طرح پیٹ کر حوالات میں ڈال دیتی ۔ اس کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ۔ ہاتھوں کی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھا جاتا تھا ۔ کوئی چیز کہیں سےلانا یا لےجانا بھی جرم ہوگیا تھا ۔
گینگ وار میں سڑکوں پر گولیاں چلتیں۔ لاشیں گرتیں ۔ مجرموں غنڈوں جرائم پیشہ لوگوں کی بھی اور معصوم لوگوں کی بھی ۔ایسی حالت میں گھر سےنکلتےہوئےکون اعتماد سےکہہ سکتا ہےکہ اس کےساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ جس طرح گھر سےنکل رہا ہےاسی طرح محفوظ بہ حفاظت شام کو واپس گھر آجائےگا ۔ گھر سےجب وہ دعا کرکےنکلتا تو اس کا ذہن خدشات اور وسوسوں میں ڈوبا ہوتا تھا لیکن جب وہ شام گھر پہنچ کر دعا کرتا تھا تو اسےایک قلبی سکون ملتا تھا ۔
ہےبھگوان ! تیرا بہت بہت شکریہ تو نےمجھےصحیح سلامت اپنےگھر پہنچا دیا۔
ll
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر





افسانہ نئی صدی کا عذاب از:۔ایم مبین

ٹینک شہر کی سڑکوں پر گولےبرساتےآگےبڑھ ر ہےتھے،
لوگ بےتحاشہ خود کو ٹینک کےگولوں سےبچانےکےلئےاِدھر ، اُدھر بھاگ رہےتھے۔ گولےکبھی کسی بلڈنگ کی دیوار سےٹکرا کر پھٹتےاور آگ کا ایک شعلہ سا بلند ہوتا‘ اِس کےبعد پھر دُھواں ۔ دھیرےدھیرےجب دُھواں صاف ہوتا تو بلڈنگ میں پڑےشگاف صاف دِکھائی دیتے۔ کبھی کوئی خون میں لت پت زخمی یا پھر کوئی لاش
کبھی ٹینک کےگولےسڑک پر گر کر سڑک پر گڑھےپیدا کردیتےاور کبھی لوگوں کو زخمی کردیتے، کبھی ٹینک مکانوں کی دیواروں کو ڈھاتے، مکینوں کی پرواہ کئےبِنا مکانوں کو ملبےکا ڈھیر بناتےآگےبڑھ جاتے۔
کبھی آسمان پر کوئی ہوائی جہاز نمودار ہوتا اور اس بستی پر بم برساتا آگےبڑھ جاتا ۔ بم بستی میں گر تےدھماکےاور شعلےبلند ہوتے، دُھوئیں کا ایک بادل پوری بستی کو اپنی لپیٹ میں لےلیتا ۔ جب دُھواں چھٹتا تو ملبےکےڈھیر میں تبدیل مکانات دِکھائی دیتےاور ان ملبےکےڈھیروں پر ماتم کرتےمکین یا پھر کراہتےزخمی ۔
کبھی آسمان میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوتےاور ان میں سوار سپاہی ہیلی کاپٹر سےنیچےسڑکوں اور گلیوں میں آتےجاتےلوگوں پر اندھا دُھند گولیاں برساتے۔ گولیوں کی آوازیں سُن کر لوگ اِدھر اُدھر بھاگتے، کچھ گولیاں کھا کر گرتےاور زمین پر گر کر تڑپنےلگتےتو کچھ گر کر ٹھنڈےہوجاتے۔
بندوق بردار سپاہی اندھا دُھند گولیاں برساتےآگےبڑھتےبھیڑ کبھی خود کو گولیوں سےبچاتی تو کبھی گولیاں برسانےوالوں پر پتھراو
¿
کرتی ۔
گولیوں کا جواب پتھروں سےدیا جاتا ۔
ایک طرف لاشوں کےڈھیر لگتےتو دُوسری طرف کبھی کوئی وَردی والا معمولی طور پر زخمی ہوتا ۔
یہ ہےمقبوضہ فلسطین ۔ آئےدِن ہم یہاں سےآپ کےلئےاِسی طرح کی خبریں لاتےہیں
ٹی وی کےاسکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا اور پھر اسکرین پرمنظرتبدیل ہوگیا۔
دو فلک بوس عمارتیں۔آسمان کی بلندیوں کوچھوتی ہُوئی سینہ تان کر کھڑی اِن اَمارت ، شان و شوکت ، عظمت اور قوت کا مظہر ۔
اچانک ایک ہوائی جہاز اُڑتا ہُوا آیا اور اِس سےٹکرا گیا ۔
ایک پل میں ہی وہ عمارت شعلوں میں گھر گئی ۔ اب اِس عمارت سےصرف شعلےاور دُھواں اُٹھ رہا تھا ۔
اُسی وقت دُوسرا ہوائی جہاز آکر دُوسری عمارت سےٹکرایا اور وہ بھی شعلوں میں گھر گئی ۔
شعلوں میں گھری اس عمارتوں کی ایک ایک منزل ڈھنےلگی ، چاروں طرف صرف شعلےاور دُھواں تھا اور ان کےدرمیان ڈھتی اپنےوجود کھوتی دو بلند شگاف عمارتیں
__________________
داڑھی والا
پکڑو ! اِسےبچ کر جانےنہ پائے۔
مارو اِسےمارو ! یہ دہشت گرد ہے۔ اِس ساری تباہی کا ذمہ دار ہے۔
ایک بھیڑ اس کےپیچھےلگی ہوئی تھی اور وہ جان بچانےکےلئےاپنےجسم کی ساری قوت یکجا کرکےبھاگ رہا تھا ۔
لیکن اپنےآپ کو کب تک اس بھیڑ سےبچا پاتا لوگ بھوکےکتوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔
کچھ لمحوں بعد ہی سڑک پر اس کا بےجان جسم پڑا ہُوا تھا ۔
اپنےڈوبتےحواس کےساتھ اس نےصرف ایک بار آخری لمحہ میں سوچا ۔
جو کچھ میرےساتھ ہُوا ہے‘ اس وقت دُینا میں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کےساتھ ہورہا ہے۔
______________________
اذان ابھی مکمل بھی نہیں ہونےپائی تھی کہ پتھراو
¿
شروع ہوگیا ۔ وہ مستقل بھیڑ تھی جو کبھی پتھر برساتی توکبھی آگ کےگولےپھینکتی ۔ کبھی گولیاں داغی جاتی ۔ ایک حصہ تو پوری قوت لگا کر توڑا جانےلگا تو دُوسرےحصّےسےآگ کی لپٹیں اُٹھنےلگیں
______________________
اےیو مسٹر ! “
کون؟ میں ! “
ہاں تم ! طیّارےسےنیچےاُترو
مگر کیوں ؟ مجھےتو پیرس جانا ہے
نہیں ! حفاظتی اقدام کےتحت ہمیں تمھیں طیّارےسےنیچےاُتارنا پڑےگا ۔ ہمیں شک ہےکہ تم دہشت پسند ہو اور اس طیّارےکا اغوا کرکےکوئی بہت بڑا دہشت گردی کا کارنامہ انجام دینےوالےہو
اِس شک کی کوئی وجہ ؟
تمہارا یہ عربی لباس اور تمہاری یہ داڑھی ! “
کیا عربی لباس اور داڑھی دہشت گرد ہونےکی علامت ہے۔
ہم کو معلوم نہیں ۔ ہمیں ایسےہی احکامات دئےگئےہیں اور اس وقت ساری دُنیا میں اِس طرح کی احتیاطی کاروائیاں ہورہی ہیں
مطلب کا پھیر ہے۔ احتیاطی کاروائی کےنام پر دہشت گردی کی کاروائیاں
____________________
تاریک آسمان گڑگڑاہٹ سےگونج رہا تھا اور پھر دھماکوں کی آوازیں گونجنےلگیں کبھی کبھی دھماکوں میں بےبسی بھری چیخیں بھی شامل ہوجاتی
ابا ! کیا پھر حملہ ہُواہے؟
بیٹا ! اب یہ تو روز کا معمول ہے۔
لیکن ہم پر حملہ کیوں کیا جارہا ہے؟
اپنی اَنا کی تسکین کےلئے معصوم لوگوں کا خون بہا کر اُن کےگھروں کو اُجاڑ کر اُن کےملک کو کھنڈر میں تبدیل کرکے، اپنی طاقت آزما کر اپنےجھوٹےغرور کا انتقام لیا جارہا ہے۔
بابا یہ کب تک چلےگا ؟
جب تک اُن کی اَنا کی تسکین نہ ہوجائے۔
بابا ہمیں چار دِنوں سےکھانا نہیں ملا ‘ ہم بھوکےہیں ۔
اُنھوں نےبمباری سےہمارےگھروں کو تو اُجاڑا ، اناج کےگوداموں ، اسپتالوں اور راحت کاری انجام دینےوالےاداروں کےدفاتر کو بھی نہیں چھوڑا ہےبیٹا
بابا آخر وہ ایسا کیوں کر رہےہیں ؟
کہتےہیں یہ ہماری دہشت گردی کےخلاف لڑائی ہے، دہشت گردی کےخلاف جنگ ، دہشت گردی کرکے ؟
___________________
ٹرین کا جلا ہُوا ڈبہ اور جلی ہُوئی لاشیں بار بار ٹی وی پر دِکھائی جارہی ہیں ۔
لیڈروں کےاشتعال انگیز بیانات ٹی وی کےاسکرین پر اُبھر رہےہیں ۔
جلی ہُوئی لاشیں
اشتعال انگیز بیانات
عوام کےغم و غصےمیں بھرےچہرے
جلی ہُوئی لاشیں ، ٹرین کا جلا ہُوا ڈبہ
اشتعال انگیز تقریریں ، بیانات
ہزاروں کی بھیڑہےجو اشتعال انگیز اور نفرت انگیزنعرےلگاتی بڑھ رہی ہی۔پولیس چپ چاپ تماشائی بنی اُن کومسکراتےہُوئےدیکھ رہی ہےاور تمباکو مسل کر اپنےمنہ میں ڈال رہی ہی۔
دوکانوں اور مکانوںکو آگ لگائی جار ہی ہے
لوگوںکو دہکتی آگ میں ڈالا جارہا ہی
انہیں تر شولوں سےچھیدا جا رہا ہی
حا ملاو
¿
ں کےپیٹ کاٹ کر ان سےبچےنکالےجا رہےاور انہیں دہکتی آگ میں ڈالا جا رہا ہے
عصمتیںتاراج ہو رہی ہیں ۔
چن چن کر دوکانوں،مکانوں،کاروباری ٹھکانوں کوآگ لگائی جارہی ہی
یہ جو کچھ ہو رہا ہےردِّ عمل ہی۔ ” اگر وہ عمل نہیں ہوتاتواس کا رد عمل نہیں ہوتا ۔
حالات پر قابو پا نےکےلیےملٹری بلائی تو ہےلیکن ابھی شہر ملٹری کےحوالےنہیںکیا جا سکتا اس کی کچھ قانونی مجبوریاںہیں۔ ایک ایک ملٹری کی گاڑی کےساتھ ایک ایک مجسٹریٹ دیا جائےگا۔اور حالات کو دیکھتےجب وہ مجسٹریٹ گولی چلانےکا آرڈردےگاتب ہی فوج گولی چلائےگی
۔ سارا شہر فساد میں گھرا ہی۔مجسٹریٹوں کی تلاش جاری ہی۔ جب اتنےمجسٹریٹ مل گےتو پھرشہر کو فوج کےحوالےکیا جائےگا ۔
شہر میں لوٹ مار ،آتش زدگی،چھرےبازی اور ترشول بازی جاری ہی۔
لوگ مر رہےہیں ، عورتوں کی عصمتیں لُوٹی جارہی ہیں ،بچےیتیم ہورہےہیں ، مسجدوں ، درگاہوں کو مسمار کرکےوہاں منادر بنائےجارہےہیں اوران میں ہنومان جی کی مورتیاں رکھی جارہی ہیں ۔
وحشیوں کا ٹولہ پوری پوری بستیوں کو جلا کر خاک کر رہا ہے
ان بستیوں کےمکینوں کو آگ میں بھون رہا ہے
انتظامیہ تماشا ئی ہی نہیں ہے‘ ان تمام واقعات میں پوری طرح ملوث ہے
نئےقائدین کےچہرےابھر رہےہیں۔
ایڈوانی،مودی،توگڑیا،با ل ٹھا کری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کیمپ
اِس میں لاکھوں لوگ مقید
لُٹےہُوئے، شکستہ ، زخموں سےچُور
کسی نےاپنا پورا خاندان کھو دیا ہے، تو کسی کی بہن لاپتہ ہے، تو کسی کا جوان بیٹا ترشولوں سےچھید کر آگ میں بھون ڈالا گیا ۔
بےیار و مدد گار ، بھوکےپیاسے۔
وہاں نہ پینےکےلئےپانی ہےاور نہ کھانےکےلئےکچھ نہ علاج کےلئےدوائیاں
لیکن پھر بھی وہ شکر ادا کر رہےہیں ۔ اس جگہ وہ اپنےآپ کو محفوظ محسوس کررہےہیں ۔
سرکار اِس طرح کےکیمپوں کی ذمہ داری نہیں لےسکتی ، اِس طرح کےکیمپ اَمن و اَمان کےلئےخطرہ ہیں
اِس طرح کے کیمپ دہشت گردوں کےاَڈّےہیں ۔ اِن کیمپوں میں دہشت گرد پناہ لےرہےہیں ۔
یہ کیمپ ملک دشمن سرگرمیوںکےاڈّےبنتےجا رہےہیں۔ یہ آبادی بڑھانےکےکا رخانےہیں
لوٹ مار،آتش زدگی،قتل و خون جار ی ہی۔
اِن لوگوں کو غصہ نہیں آتاہی‘ لیکن جب غصہ آتاہےتو پھر وہ غصہ جلدی ٹھنڈانہیں ہو تا ہی۔ جب تک غصہ ٹھنڈا نہیں ہو تا یہ چلتا رہےگا
گورو یا تراجاری ہی۔
لوگ یاترامیں شامل اشتعال انگیز نعرےلگا رہےہیں ۔

یاترا کا میر کارواں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقریر کر رہا ہے۔
لاکھوں لوگوں کو بےگھر اُن کی زندگی کا سرمایہ اُجاڑ کر اُن معصوم لوگوں کو قتل کرکے، بچوں کو یتیم کرکے، عورتوں کو بیوہ اور عصمتوں کو تاراج کرکے، اُن کا جشن منایا جا رہا ہے۔
جگہ جگہ گورو یاترائیں نکالی جارہی ہیں ۔
اپنےاِن کارناموں پر شرم نہیں گورو کیا جارہا ہے۔
رام ، کرشن ، بدھ ، مہاویر کی نئی تعلیم ، نئی نسل کو دی جارہی ہے۔
_________________
اےرُک جا کیا نام ہے؟
عبدا لرحیم ! “
پکڑ لو اِسے‘ یہ کوئی دہشت گرد لگتا ہے۔ اِس کی داڑھی اِس بات کا ثبوت ہے۔
نہیں صاحب ! میں دہشت گرد نہیں ہُوں ۔ میں تو ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہُوں ۔
تعلیم یافتہ نوجوان ہی آج کل ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ جب تم پر پوٹا لگا یا جائےگا اور کئی سالوں تک جب تم جیل میں سڑوگےتو اگر تم دہشت گرد نہیں بھی ہو تو دہشت گرد بن جاو
¿
گے۔
اِسی طرح دہشت گرد بنائےجاتےہیں ۔
___________________
پولس کی کئی جیپیں آکر رُکیں اور اُن میں سےمسلح پولس کےساتھ ساتھ کمانڈوز بھی اُترےاور اُنھوں نےپوری بستی کو اپنےگھیر ےمیں لےلیا ۔
دیکھتےہی دیکھتےپوری بستی ایک پولس کیمپ میں تبدیل ہوگئی ۔ جو بھی سامنےآتا اُسےروک کر بندوق کی نوک پر اُس سےطرح طرح کےسوالات پوچھےجاتےاور بلا کسی شک و شبہ کےجس کو وہ چاہتےہتھکڑی ڈال کر بیٹھا دیتے۔
عورتوں کی نقابیں اُٹھا اُٹھا کر اُن کےچہرےدیکھےجاتے، چہروں پر سفّاک نظریں ڈالی جاتیں ، تلاشی کےنام پر اُن کےجسم کو چھو کر لذت حاصل کی جاتی ۔
چلتی گاڑیوں کو روک کر اُن میں بیٹھےمسافروں کو نام پوچھ پوچھ کر اُتارا جاتا اور ہتھکڑیاں پہنا کر جیپ میں بیٹھا دیا جاتا ۔
گھروں میں گھس کر بندوق کی نوک پر گھر کےمکینوں کو دہشت زدہ کیا جاتا اور تلاشی کےنام پر گھر کی ہر چیز تہس نہس کردی جاتی ۔
مکانوں کےبند دروازوں کو لات مار مار کر کھولا جاتا ۔ جو دروازےلات مارنےسےبھی نہیں کھل پاتےاُنھیں توڑ دیا جاتا ۔
جن دروازوں کو توڑنےکےبعد مکان میں داخل ہوتے‘ اُن مکینوں پر آفت آجاتی ۔ مکان کےتمام افراد یرغمال بنا لئےجاتے۔ اُس سےبچنےکےلئےلوگ خوف زدہ ہو کر ہاتھ اُٹھا کر ایک قطار میں کھڑےہوجاتے۔
قطار میں کھڑےلوگوں کےساتھ جانوروں کی طرح برتاو
¿
کرتےہُوئےطرح طرح کےسوالات کئےجاتےاور اُنھیں زد و کوب کیا جاتا ۔
یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اور ہمارےساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟
ہمیں پتہ چلا ہےکہ یہ بستی دہشت گردوں کا اڈّا ہے‘ حالیہ بم دھماکوں میں جن دہشت گردوں کا ہاتھ ہےاُن کا تعلق اِسی بستی سےہے۔ اور یہ کاروائی ہماری اُن دہشت گردوں کو تلاش کرنےکی مہم کا حصہ ہے۔
____________________
ہم دُنیا سےدہشت گردی کو اُکھاڑ پھینکنا چاہتےہیں ۔ ہماری جنگ دہشت گردی کےخلاف ہے، ہم جس ملک کو دہشت گرد قرار دےدیں ۔ دُنیا کو ماننا ہوگا کہ وہ ملک دہشت گر د ہےاور ہم اُس ملک کےخلاف جو بھی کاروائی کریں ‘ ہماری کاروائی دہشت گردی کےخلاف جنگ ہوگی ۔
_________________
رات بھر آسمان سےبم برستےرہے۔ مکان ، دُکان ، دفاتر ، سڑکیں ، چوراہے‘ سب کچھ اِن بموں کی زد میں آکر تباہ ہوتےرہے۔ دہشت سےگھروں میں سمٹےلوگ بموں کو پھٹتےاور اُن سےپھیلتی تباہی کو دیکھتےاپنی جانیں بچانےکی کوشش کرتےرہتے۔
روزانہ کا معمول رہا ۔
ساری دُنیا میں مظاہرےہوتےرہے۔
جنگ بند کی جائے، یہ جنگ ظلم ہے، ہم امن چاہتےہیں ، معصوم لوگوں کی جانیں نہ لی جائیں ، جو لوگ اِس جنگ میں ملوث ہیں وہ شیطان ہیں ۔
لیکن ساری دُنیا کےمظاہروں کا دو شیطانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔
وہ ساری دُنیا کےمظاہروں کو نظر اندازکرکےدہشت گردی کےذریعہ دہشت پھیلاتےرہے۔ اور اپنی کاروائی کو درست قرار دیتےہُوئےاپنی فتوحات کےشازیانےبجاتےرہے۔
____________________
سب کچھ ختم ہوگیا تھا ۔
اب ایک خاموشی تھی ، ایک سنّاٹا ۔
چاروں طرف ملبےکےڈھیر ہیں ۔ ٹوٹی ہُوئی عمارتوں سےدُھواں اُٹھ رہا ہے۔ اُن ملبوں کےڈھیر پر بیٹھ کر کچھ لوگ ماتم کررہےہیں ‘ تو کچھ اپنی فتح ، اپنی آزادی کا جشن منا رہےہیں ۔ کچھ اِن ملبوں میں اپنےعزیز و اقارب کو تلاش کررہےہیں ۔
______________________
جنگ ختم ہوگئی ۔ لیکن ہماری دہشت گردی کےخلاف جنگ جاری ہے۔ یہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی ‘ جب تک دُنیا سےآخری دہشت گرد ختم نہ کردیا جائےگا ۔
نئےمیزان مرتب کئےجارہےتھے۔ نئےپیمانےڈھالےجارہےتھے۔
ایسا محسوس ہوتا تھا دہشت گردی کےخلاف جنگ کی یہ دہشت گردی نئی صدی کا سب سےبڑا عذاب بن گئی ہے۔

٭٭٭

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Dharna By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Dharna, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ دھرنا از:۔ایم مبین

سب سےپہلےسیکریٹری نےانھیں اس بات سےمطلع کیا تھا ۔
آپ نےآج کا اخبار پڑھا ؟ “ فون پر اُس نےپوچھا ۔
آپ کےفون کی آواز سےجاگا ہوں ۔ تو بھلا اخبار کس طرح پڑھ سکتا ہوں ۔ کہیئے‘ کوئی خاص بات ، خاص خبر ؟
ہاں ! سرکار نےان اسکولوں کی فہرست جاری کی ہےجن کو سرکار نےمنظوری نہیں دی ہے۔ اِس فہرست میں ہماری اسکول کا بھی نام ہے۔ “ دُوسری طرف سےآواز آئی ۔
کیا ‘ کیا کہہ رہےہیں آپ سرکار نےہمارےاسکول کو منظوری نہیں دی تو کیا ہماری اتنی بھاگ دوڑ ، خط و کتابت ، وزیروں ، آفیسروں سےملنا جلنا ، اُن کی خاطر مدارات سب بےکار گیا ؟
سب بےکار گیا ‘ صدر صاحب ! مجھےپہلےہی سےڈر تھا کہ ایسا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوا ہے ہمیں پہلےہی اطلاع مل گئی تھی ۔ اِس سال بھی سرکار نےہماری اسکول کو منظوری نہیں دی ہے اور اب تو ساری دُنیا کو معلوم ہوجائےگا صدر صاحب ! طوفان
ہاں سیکریٹری صاحب ! “ وہ تشویش بھرےلہجےمیں بولے۔ ” اِس طوفان کی آمد کو میں بھی محسوس کررہا ہوں ۔
اور اِس کےبعد تو اور بھی کئی طوفان آئے۔
لوگوں کو جواب دیتےدیتےاُن کا سر چکرانےلگا
وہ تو اِس بات سےہی فکر مند تھےکہ لوگوں کو فون پر سمجھانا مشکل ہورہا ہے۔جب وہی لوگ اُن کےسامنےہوں گےتو وہ کس طرح اُن کو سمجھا پائیں گے؟
گپتاجی نےجو اسکول کھولی ہےاُسےتو ابھی تک سرکار کی منظوری بھی نہیں ملی ہے۔ اِس اسکول میں ہمارےبچےپڑھ رہےہیں ۔ یہ تو اُن کی زندگی کےساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہے۔
گپتاجی ! آپ نےتو میرےبچےکو کہیں کا نہیں رکھا ۔ آپ کی اسکول کو ابھی تک منظوری نہیں ملی ہے‘ اِس کا مطلب آپ کی اسکول سےنکلنےکےبعد میرےبچےکو کسی بھی اسکول میں داخلہ نہیں ملےگا
گپتا جی ! اسکول کھولنےکےنام پر آپ نےجنتا سےلاکھوں روپےجمع کئےہیں ۔ پیسہ تو آپ نےجمع کرلیا لیکن اسکول کو منظوری نہیں دِلائی ۔
وہ ساری باتیں سننےکےبعد ایک ہی جواب دیتے۔
آپ کو فکر مند ہونےاور جوش ، غصےمیں آنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب سرکاری داو

¿ پیچ اور ہتھکنڈےہیں ۔ ایک ماہ کےاندر ہماری اسکول کو منظوری مل جائےگی ۔
اُنھوں نےبڑےاعتماد سےہر کسی کو جواب دیا اور طےکیا کہ ہر کسی کو یہی جواب دیں گے۔ لیکن وہ اپنےاعتماد کےکھوکھلےپن کےبارےمیں سوچ سوچ کر خود ہی کانپ اُٹھتےتھے۔
دو سال سےمنظوری حاصل کرنےکی ہر ممکن کوشش کی جاچکی ہے۔ کاغذی کاروائی اور خط و کتابت سےفائلوں کا ڈھیر تیّار ہوگیا ہے۔ محکمہ تعلیم سےوِزارتِ تعلیم ‘ وِزارتِ تعلیم سےسیکریٹریٹ ‘ سیکریٹریٹ سےوزیرِ اعلیٰ کےدفتر کےچکّر لگاتےلگاتےاُن کےساتھ ساتھ سیکریٹری ، اسکول کےکچھ ممبران ، ہیڈ ماسٹر ، کلرک ، ٹیچرس کی چپلیں گھس گئی ہیں ۔
لیکن پھر بھی منظوری نہیں مل سکی ۔
فوراً منظوری حاصل کرنےکا راستہ بھی بتایا گیا تھا ۔ کچھ لےدےکر کام کرلیا جائے۔ لیکن مانگ اتنی بڑی تھی کہ اُن کےساتھ ساتھ پورےبورڈ کو سوچنےپر مجبور ہونا پڑا تھا ۔
بات یہ بھی نہیں تھی کہ جو مانگ تھی وہ پوری نہیں کی جاسکتی تھی ۔ مانگ کی رم کا انتظام ہوسکتا تھا ۔ مانگ سےکئی گنا زیادہ رقم اُن کےپاس موجود تھی ۔
لیکن وہ اپنےاُصول پر اُڑ گئے۔
ہم لوگوں سےلیتےہیں ہم بھلا دُوسرں کو کیوں دیں ۔ اور پھر ہم جو کچھ کر رہےہیں اِس میں ہمارا ذاتی مفاد تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم یہ عوام کی خدمت کےلئےکر رہےہیں ۔ ہم چاہتےہیں کہ ہماری اسکول سےجو بچےتعلیم حاصل کریں وہ اتنےقابل ہوں جو دُنیا کےہر مقابلےمیں اپنی قابلیت اور لیاقت کی بُنیاد پر کامیاب ہوکر ہمارا ، ہماری اسکول کا نام روشن کریں ۔ اِس لئےہم نےتعلیم کےمعیار پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔
اور یہ بات تو عوام سےبھی منوا لی تھی کہ اُن کی اسکول کا تعلیمی معیار دُوسری اسکولوں کےمعیار سےبہت اونچا ہے۔ ٹیچر بہت محنت کرتےہیں ۔
اِسی لئےتو ان کی اسکول میں داخلہ لینےکےلئےبچوں کےوالدین کی قطاریں لگ گئی تھیں اور وہ اپنی قطاروں کا فائدہ اُٹھاتےتھے۔
دیکھئےآپ اچھی طرح جانتےہیں ‘ ہماری اسکول کا تعلیمی معیار کتنا اونچا ہے۔ لیکن کیا کریں ‘ ہماری اسکول کو کوئی سرکاری گرانٹ تو ملتی نہیں ۔ و

¿پ سےڈونیشن ، فیس اور عوام سےاسکول چلانےکےلئےجو چندہ ملتا ہےاُسی سےیہ اسکول چلتی ہے۔ اِس لئےآپ لوگ ہماری مجبوریوں کو سمجھیں ۔ ہم ڈونیشن کےنام پر آپ سےجو مانگ رہےہیں وہ مانگ ہماری مجبوری ہے۔ ہم آپ لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہیں اُٹھا رہےہیں ۔ اِس لئےآپ ہماری مجبوریوں کو سمجھتےہوئےاور اپنےبچوں کےتابناک مستقبل کےلئےزیادہ سےزیادہ رقم دیں ‘ تاکہ اسکول چلانےمیں ہمںےکوئی دِقّت نہ ہو اور ہم آپ کےبچوں کا مستقبل بنا سکیں ۔
اپنی مجبوریاں بتا کر اور لوگوں کو اُن کےبچوں کےسنہرےمستقبل کا خواب دِکھا کر اُنھوں نےبچوں کےداخلوں کےنام پر اونچی ڈونیشن وصول کی تھی ۔
اس کا کہیں کوئی حساب کتاب نہیں تھا ۔ وہ لاکھوں روپےاُن کی تجوری میں جمع تھےاور اُن کےبزنس میں لگےہوئےتھے۔
اسکول کھولنےکےنام پر بھی اُنھوں نےعوام سےلاکھوں روپےجمع کئےتھے‘ جن سےاُن کا کاروبار بڑھا تھا ۔ اِس کےعلاوہ بھی وہ آئےدِن اسکول چلانےکےنام پر امیروں سےعطیات وصول کرتےرہتےتھے۔
اِس طرح کتنا روپیہ جمع ہوا اور اسکول کےقیام ، چلانےپر کتنا روپیہ خرچ ہوگیا ، کتنا روپیہ باقی ہے، باقی بھی ہےیا نہیں ؟ اِس بارےمیں تو اسکول کےانتظامیہ کےاراکین کو بھی علم نہیں تھا ۔
سیکریٹری کو کچھ کچھ معلوم تھا ۔ لیکن وہ تو اُن کا اپنا آدمی تھا ۔
تمام ممبران صرف یہ جانتےتھےکہ اسکول کےلئےجگہ خریدی گئی اس جگہ عمارت تعمیر کرکےاسکول قائم کی گئی اسکول شروع ہوئی اسکول چلانےکےلئےٹیچر اور ضروری عملہ متعین کیا گیا ۔ اسکول اور ٹیچر کی تنخواہ کا خرچہ دِن بہ دِن بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ تمام اخراجات وہی ادا کرتےہیں ۔ اب اتنےپیشےتو جمع ہونےسےرہے۔ ضرور گپتا جی اپنی جیب سےبھی پیسہ لگائےہوں گے‘ بڑےآدمی ہیں ۔ بھگوان نےدَھن کےساتھ ساتھ بڑا دِل بھی دیا ہے۔ اِسی لئےتو اسکول میں دِل کھول کر پیسہ لگاتےہیں ۔ ہمیں اسکول کا ممبر بنا لیا ‘ یہی اُن کا بڑا پن ہے۔ اِس ممبر شپ کےبدلےمیں وہ ایک پیسہ بھی تو نہیں مانگتےہیں نہ پہلےکبھی لیا ۔ لوگ ایسےعہدوں کو پانےکےلئےلاکھوں روپےخرچ کرتےہیں ‘ پھر بھی اُنھیں اِس طرح کےعہدےمل نہیں سکتے۔ لیکن گپتا جی نےہمیں یہ عہدہ مفت میں دیا ہے‘ یہ اُن کا بڑا پن ہے۔ ممبران اب تک اُن کےبارےمیں شاید یہی سوچتےتھے۔ لیکن جب اُنھیں پتہ چلےگا کہ ابھی تک اسکول کو منظوری بھی نہیں ملی ہے۔ تو اب وہ ضرور پوچھیں گے۔
گپتاجی ! ہماری اسکول او ابھی تک منظوری کیوں نہیں مل پائی ؟
اُنھیںسمجھانا کون سی بڑی بات ہے۔ “ اُنھوں نےاپنا سر جھٹک دیا اور بڑبڑائے۔ ” کہہ دوں گاوزیر منظوری دینےکےدس لاکھ روپےمانگ رہا ہے۔ اسکول کےاراکین کےناطےآپ لوگ ایک ایک لاکھ روپےدیں ۔ اسکول کو منظوری مل جائےگی ۔ یہ سنتےہی سب کی سٹی گُم ہوجائےگی ۔ میں نےاراکین میں ایسےایسےکنجوس جمع کئےہیں جو سگریٹ کےلئےبھی ایک روپیہ خرچ کرنےسےپہلےدس بار سوچتےہیں ۔ اُنھیں ایک لاکھ روپےچندہ دینےکےنام پر سانپ سونگھ جائےگا ۔ اِس کےبعد اُن سےصاف کہہ دوں گا ‘ آپ لوگ اتنا نہیں کرسکتےاور پھر بھی اسکول کےممبر بنےرہنا چاہتےہیں تو اسکول میں کیا ہورہا ہے؟ اِس پر دھیان نہ دیں ۔ میں سب سنبھال لوں گا
اِس کےبعد سب کی بولتی بند ہوجائےگی ۔
وہ اسکول گئےتو اسکول میں بچوں کےگھر والوں کا تانتا لگ گیا ۔
آپ کےاسکول کو ابھی تک منظوری نہیں مل سکی ۔ اِس طرح تو آپ کےاسکول میں پڑھ کر ہمارےبچوں کی زندگی برباد ہوجائےگی ۔ وہ کہیں کےنہیں رہیں گے۔ آپ اِسی طرح ہمارےبچوں کی زندگیوں سےتو نہ کھیلئے
اُن کا ایک ہی جواب ہوتا ۔
آپ بےفکر رہیئے‘ ہماری اسکول کو ایک ماہ کےاندر منظوری مل جائےگی ۔
بچوں کےماں ، باپ سےنجات ملی تو ہیڈ ماسٹر اور ٹیچرس نےاُنھیں گھیر لیا ۔
سر ! ہم ایک اُمید پر کم تنخواہ میں بھی سخت محنت کرکےبچوں کو پڑھا رہےہیں کہ گرانٹ ملنےکےبعد ہمیں اچھی تنخواہ ملےگی ‘ لیکن اسکول کو ابھی تک منظوری ہی نہیں ملی ہےتو گرانٹ کس طرح ملےگی ؟
سب ٹھیک ہوجائےگا ‘ آپ لوگ اپنی اپنی کلاس میں جائیے۔
سب چپ چاپ اپنی اپنی کلاسوں میں چلےگئے۔
اُن کےجانےکےبعد اُنھوں نےسیکریٹری ، کلرک اور ہیڈ ماسٹر کا حکم دیا ۔
بی ، ڈی ، او ، زیڈ ، پی ، ایجوکیشن چیئرمین ، محکمہ تعلیم ، وِزارتِ تعلیم اور وزیرِ تعلیم سب جگہ ایک خط بھیج دو ۔ اگر ایک ماہ کےاندر ہماری اسکول کو منظوری نہیں دی گئی تو اسکول کےانتظامیہ کےاراکین ، ہیڈماسٹر ، ٹیچر ، کلرک اور چپراسی اسکول میں پڑھنےوالےسبھی بچےاور اُن کےوالدین منترالیہ کےسامنےبھوک ہڑتال کریں گے۔ اور منظوری ملنےتک دھرنا دیں گے۔ اِس خط سےدیکھنا ہلچل مچ جائےگی اور ایک ماہ کےاندر منظوری کا خط ہمارےہاتھوں میں ہوگا ۔
اُن کی بات سن کر ہر کسی کی آنکھوں میں اُمید کی ایک نئی کرن جگمگانےلگی ۔
دھمکی بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکی ۔ کچھ جگہوں سےتو دھمکی کا کوئی جواب ہی نہیں آیا اور کچھ جگہوں سےٹکا سا جواب آیا تھا ۔
ضابطوں اور اُصولوں کےمطابق آپ کی اسکول کو منظوری نہیں دی جاسکتی ہے۔
سب کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا گیا ۔
ٹھیک ہے۔ “ پتہ نہیں کیوں پھر بھی اُن کی آنکھوں میں ایک خود اعتمادی تھی ۔ ٠٢ تاریخ کو یہاں سےمنترالیہ تک ایک مورچےکا انتظام کیا جائے۔ ٠٢ تاریخ کو تمام منجمینٹ کےاراکین ، ہیڈ ماسٹر ، ٹیچرس ، اسٹاف ، تمام بچےاور بچوں کےماں ، باپ اِس دھرنےمیں شامل ہونےچاہیئیں ۔ سب مل کر منترالیہ پر دھرنا دیں گےاور اسکول کی منظوری نہ ملنےتک بھوک ہڑتال کریں گے
جی ! “ سب نےایک ساتھ جواب دیا ۔
٠٢ تاریخ کو دو لاریوں میں ٠٢٢ سےزائد بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر بھرا گیا ۔ جگہ اِتنی تنگ تھی کہ بچےنہ کھڑےہوسکتےتھےنہ بیٹھ سکتےتھے۔ اُنھیں سانس لینا مشکل ہورہا تھا ۔ لیکن وہ کوئی فریاد نہیں کرسکتےتھے۔ فریاد سننےوالا کوئی نہیں تھا ۔
ایک بڑی سی گاڑی میں انتظامیہ کےاراکین تھے۔ دُوسری چھوٹی گاڑی میں ہیڈ ماسٹر ، ٹیچرس اور اسٹاف تھا ۔
صرف چند بچوں کےماں ، باپ مورچےمیں شامل ہونےکو تیّار ہوئےتھے۔ اُنھیں مورچےکےمقام پر پہنچنےکےلئےکہا گیا تھا۔ دو گھنٹےبعد گاڑیاں آزاد میدان میں جاکر رُکیں ۔
بچےگاڑیوں سےاُترےتو اُنھیں ایسا محسوس ہوا جیسےاُنھیں کسی جہنم سےنجات مل گئی ہے۔
سورج سر پر چڑھ آیا تھا اور آسمان آگ برسا رہا تھا ۔
مورچےکی تیّاری کی جانےلگی ۔ بچوں کےہاتھوں میں تختیاں اور بینرس دےکر اُنھیں نعرےیاد کرائےجانےلگے۔ اُنھیں ضروری ہدایتیں دی جانےلگیں ۔
سر! پانی ‘ بہت لگی ہے۔ “ کوئی بچہ ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا تو اُس کی آواز میں سیکڑوں آوازیں شامل ہوگئیں ۔
یہاں پانی نہیں ملےگا ۔ ہم یہاں بھوک ہڑتال کرنےآئےہیں ‘ کھانےپینےنہیں ۔ “ ایک ٹیچر نےاُسےسمجھایا تو بچےاپنےپھٹےہوئےہونٹوں پر زبان پھیرنےلگے۔
پیاس سےحلق میں کانٹےپڑ رہےتھے۔ گلےسےآواز نہیں نکل رہی تھی ۔ اوپر سر پر سورج آگ برسا رہا تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ پوری قوت سےنعرےلگاتےلڑکھڑاتےقدموں سےآگےبڑھ رہےتھے۔
ہماری مانگیں پوری کرو

ہماری اسکول کو منظوری دو
ہماری زندگیوں سےمت کھیلو
وزیرِ تعلیم ! ہائے‘ ہائے
محکمہ

¿ تعلیم ! ہائے‘ ہائے
وزیرِ اعلیٰ ! مُردہ باد
ٹیچرس بچوں پر نظر رکھےہوئےتھے۔
اُنھیں زور زور سےنعرےلگانےکےلئےاُکساتے۔ کوئی بچہ نعرہ نہیں لگاتا تو اُسےٹوکتے۔ آپس میں باتیں کرنےوالےبچوں کو ڈانٹتے۔ کسی کسی پر ہاتھ بھی اُٹھا دیتے۔ بچوں کو قطار میں ٹریفک سےبچ کر چلنےکی ہدایتیں دیتے۔
انتظامیہ کےاراکین ایک دُوسرےکےساتھ ہنسی مذاق کرتےچل رہےتھے۔کبھی کوئی ممبر سب کےلئےآئس کریم یا کولڈ ڈرنک لےآیا تو کوئی سافٹ ڈرنک کی بوتلیں یا پھر کھانےپینےکی کوئی چیز ۔ ان سب کا لُطف اُٹھاتےوہ مورچےکےساتھ ساتھ چل رہےتھے۔
دو گھنٹےبعد مورچہ منترالیہ پہنچ گیا ۔ منترالیہ سےپہلےہی بڑےسےمیدان میں پولس نےاُنھیں روک لیا ۔
سب میدان میں دھرنا دےکر بیٹھ گئے۔
آگےآگےگپتاجی ، سیکریٹری اور انتظامیہ کےاراکین تھے۔ اُن کےپیچھےہیڈ ماسٹر ، ٹیچر ، دیگر اسٹاف اور اُن کےپیچھےبچے۔
سب زور زور سےنعرےلگا رہےتھے۔
سب کو سختی سےحکم دیا گیا تھا کہ وہ اتنی زور سےچیخیں کہ منترالیہ کی چھتیں ہل جائیں ۔
لیکن دس کروڑ عوام کی چیخوں سےجن کا کچھ نہیں بگڑتا تھا ‘ سو دو سو بچوں کےنعرےبھلا اُن کا کیا بگاڑ سکتےتھے۔
کسی وزیر کی گاڑی آتی تو ” زندہ باد ‘ مردہ باد “ کےنعرےاور زور زور سےلگائےجاتے۔
بھوک پیاس سےبچوں کا برا حال تھا اوپر سےتپتی دھوپ جس زمین پر وہ بیٹھےتھےوہ بھی تندور کی طرح تپ رہی تھی ۔ بچوں کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا رہا تھا ۔ اچانک ایک بچہ چکرا کر گرا اور بےہوش ہوگیا ۔ سب اُس کی طرف دوڑے۔ اُسےہوش میں لانےکی کوشش کی جانےلگی ۔ لیکن بچہ آنکھ نہیں کھول رہ تھا ۔
قریب کھڑےڈاکٹر نےبچےکو چیک کیا اور متفکر آواز میں بولا ۔
اِس بچےکی حالت بہت نازک ہے۔ اِس کا بلڈ پریشر لو ہورہا ہے۔ اِسےفوراً اسپتال پہنچانا بہت بہت ضروری ہے۔
نہیں ! “ گپتاجی ڈٹ گئے۔ ” چاہےبچےکی جان چلی جائے۔ بچہ دھرنےسےنہیں ہٹےگا ۔ جب تک ہماری مانگ پوری نہیں ہوتی ‘ کوئی بھی بچہ یہاں سےنہیں ہلےگا ۔
اِس درمیان دو اور بچےچکرا کر گر گئےتھے۔
کئی بچوں نےبھوک اور کمزوری سےاپنی گردنیں اپنےساتھیوں کےکاندھوں پر ڈال دی تھیں ، کچھ کمزوری کی وجہ سےزمین پر لیٹ گئےتھے۔ ڈاکٹر اور وہاں پہرہ دینےوالےپولس والوں کےچہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔
گپتاجی اور اُن کےساتھیوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کررہی تھی ۔
خبریں منترالیہ میں پہونچیاور وہی ہوا جو ایسےموقعوں پر ہوتا ہے۔ منترالیہ ہلنےلگا ۔
ایک آدھ بچہ مر گیا تو اپوزیشن اور پریس سارا آسمان سر پر اُٹھا لیں گےاور ہماری حکومت کےدُشمن ہوجائیں گے۔ اُن سےکہہ دو کہ وہ دھرنا ختم کرکےواپس اپنےشہر چلےجائیں ۔ اُن کی اسکول کی منظوری کےبارےمیں سنجیدگی سےغور کیا جائےگا ۔
ایک سیکریٹری بولا ۔
سر وہ منظوری سےکم کسی بھی وعدےپر بات کرنےکو تیّار نہیں ہے۔ صفا کہتےہیں کہ اُن کی اسکول کو منظوری دی جائےگی تب ہی وہ دھرنےسےہٹیں گے۔
اِس درمیان چار اور بچوں کےبےہوش ہونےکی خبر اوپر پہونچی ۔ وزیرِ تعلیم کےسارےسیکریٹری گھبرا گئے۔ وزیرِ اعلیٰ کےسیکریٹری کےبھی کان کھڑےہوگئے۔
بات وزیرِ اعلیٰ تک پہونچ گئی تھی ۔ وہ غصےسےبولا
تماشہ بنا کر بات مت بڑھاو

¿ ۔ وزیرِ تعلیم سےفوراً کہو کہ میرا حکم ہے۔ اُن کی اسکول کو فوراً منظوری دےدو ۔
نیچےآکر گپتاجی کو یہ خبر دی گئی ۔
وزیرِ تعلیم نےآپ کی اسکول کو منظوری دےدی ہےاور وہ آپ سےبات کرنا چاہتےہیں ۔
گپتاجی کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اُٹھا ۔
میرےپیارےساتھیوں اور بچوں ! ہمارا دھرنا کامیاب رہا ۔ جس کام کےلئےہم نےدھرنا دیا تھا ، مورچہ نکالا تھا وہ کام ہوگیا ہے۔ وزیرِ تعلیم نےہماری اسکول کو منظوری دےدی ہے۔ اِس دھرنےمیں ہمیں جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیں ‘ وہ رنگ لائی ہیں ۔ کچھ پانےکےلئےکچھ کھونا پڑتا ہے، کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اپنےحقوق کو حاصل کرنےکےلئےجو لڑائیاں لڑی جاتی ہیں اُن میں مشکلات اور تکلیفیں تو اُٹھانی پڑتی ہیں ‘ لیکن آخر میں جیت سچائی کی ہی ہوتی ہے۔ آپ لوگ دھرنا ختم کرکےشہر واپس چلےجائیں ۔ میں اور کمیٹی کےاراکین منتری جی سےبات کرکےآتےہیں منتری جی نےہمیں چائےپر بلایا ہے۔

٭٭٭

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short Story Qatiloon Ke Darmiyan By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Qatiloon Ke Darmiyan, Short Story, Urdu

افسانہ یودھا از:۔ایم مبین

حوالات میں جو شخص داخل ہوا اُسےدیکھ کر دونوں حیرت میں پڑگئے۔
مگن بھائی ! “ دونوں کےمنہ سےنکلا ۔
اپنا نام سن کر مگن بھائی نےچونک کر اُنھیں دیکھا اور پھر گھور اُنھیںکر پہچاننےکی کوشش کرنےلگا
دونوں مگن بھائی کےلئےنا آشنا تھے۔ اِس لئےمگن بھائی کےچہرےپر کوئی تاثر نہیں اُبھرا ۔ اُس نےہاتھ میںپکڑےموبائیل فون پر ایک نمبر ڈائل کیا اور کسی سےبات کرنےلگا ۔
ہیلو میں مگن بھائی ہوں اور حوالات سےبول رہا ہوں ۔ کیا میری گرفتاری کی خبر ٹی وی پر نہیں دیکھی ۔؟ ارےحوالات مجبوری ہے۔ سی ۔ ایم سےمیں نےبات کی ہے۔ اُنھوں نےمجھےسمجھایا کہ تمہارا معاملہ بہت بگڑ چکا ہے‘ پورےملک میں اِس سےہنگامےہورہےہیں ۔ حالات کےتقاضےکےتحت تمہاری گرفتاری بہت ضروری ہے۔ اِس لئےجاکر دو تین دِن تک حوالات میں آرام کرو ۔ بعد میں سارا معاملہ کس طرح ختم کیا جائے؟ میں دیکھ لوں گا ۔ اِس لئےگرفتاری دینی پڑی اور حوالات میں ہوں ۔۔۔ ارےفکر کرنےکی کوئی بات نہیں ہی۔ یہاں مجھےہر طرح کی سہولت مہیا کی جاےگی ۔ فون کرنےکا مطلب یہ ہےکہ اگر مجھ سےملنا ہو تو آزاد نگر پولس اسٹیشن آجانا ‘سمجھے۔
ابھی مگن بھائی نےموبائیل بند بھی نہیں کیا تھا کہ دو سپاہی گادی اور ضروری سامان کےساتھ حوالات میں داخل ہوئے۔ اُنھوں نےگادی فرش پر بچھا دی ، کُرسی ایک کونےپر رکھ دی ۔
مگن بھائی اور کچھ چاہئے؟ “ دونوں نےبڑےادب سےپوچھا ۔
مگن نےجیب سےسو روپےکا نوٹ نکال کر اُن کی طرف بڑھا یا ۔
ایک 555کا سگریٹ کا پیکٹ لےآنا ‘ باقی تم رکھ لینا ۔
دونوں سپاہیوں نےمگن بھائی کو سلام کیا اور حوالات کےباہر چلےگئے۔ مگن بھائی گادی پر لیٹ کر سگریٹ پھونکنےلگا ۔
اُسی وقت موبائیل فون بجا ۔
ہاں مگن بول رہا ہوں ۔ جو کچھ دیکھا سُنا سب سچ تھا ۔ اِس وقت حوالات میں ہوں ۔ ارےیہ سب ناٹک اور دِکھاوا ہے۔ اپوزیشن اور عوام کےغصےکو ٹھنڈا کرنا ضروری تھا ۔ اگر میں چاہوں تو کل ہی گھر چلا جاو
¿
ں گا ، کاغذ پر میرا ریمانڈ رہےگا اور میں بنگلےمیں آرام کروں گا ۔ سب سیٹنگ ہوگئی ہے‘ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ۔
اس کےبعدمسلسل آٹھ دس فون آئے۔ سب سےمگن بھائی نےاِسی طرح کی باتیں کی ۔
دونوں ایک کونےمیں بیٹھےچپ چاپ مگن بھائی کا تماشہ دیکھتےرہے۔ اُنھیںمگن بھائی کو حوالات میںدیکھ کر بڑی خوشی ہورہی تھی ، وہ خوشی سےپھولےنہیں سما رہےتھے۔ وہ آج حوالات میں اُس کمرےمیں ہیں جس میں مگن بھائی بھی ہے۔ لیکن آج ایک بات دِل کو کچوک رہی تھی ۔
مگن بھائی جس طرح حوالات میں تھا اور اُسےحوالات میں جو آرائشیں میسّر تھیں ‘ اُنھیں اس پر شدید غصہ آرہا تھا ۔
حوالات میں تو وہ بھی تھے۔
سویرےاُنھیں گرفتار کرکےحوالات میں ڈالا گیا تھا لیکن اُنھیں نہ پینےکےلئےپانی ملا تھا اور نہ کھانےکےلئےکھانا ۔
اُن کےلئےگھر سےجو کھانا آیا تھا ‘ ڈیوٹی پر تعینات سپاہی چٹ کرگئےتھے۔
اور مگن بھائی کو ؟
دونوں کےجرائم میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ اُنھوں نےایک معمولی جھگڑا اور مارپیٹ کی تھی جو کوئی سنگین جرم نہیں تھا ۔ مگر جس کےساتھ مارپیٹ کی تھی اُس کا اثر و رُسوخ بہت زیادہ تھا ۔ اور اِس وقت ریاست میں سیاسی رسُوخ کا ہی راج تھا ۔ اِس لئےاُنھیں فوراً گرفتار کرلیا گیا ۔ راستےبھر پٹائی ہوتی رہی ، حوالات میں ڈالنےکےبعد تو سپاہیوں نےاُنھیں اور بھی زیادہ بےدردی سےمارا تھا ۔
سالو حرام زادو ! پریم جی بھائی سےاُلجھتےہو ‘ جانتےہو ، پریم جی بھائی کون ہے؟ سی ۔ ایم کا خاص آدمی ہے۔ تم لوگوں نےسی ۔ ایم کےخاص آدمی سےمارپیٹ کی ؟ اگر سی ۔ ایم کا فون آیا تو فساد کےالزام میں پوٹا لگا کر زندگی بھر جیل میں سڑا دیں گے۔ تمہارےایریےمیں فساد میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ سیکڑوں لوگوں کو موت کےگھاٹ اُتارا گیا ہے۔ لیکن اوپر سےآئےحکم کےمطابق ہم نےابھی تک ایک بھی فسادی گرفتار نہیں کیا ہے۔ اگر پریم جی بھائی نےکہہ دیا تو تمہیں فساد کےجرم میں گرفتار کرلیں گے۔ ہمارےلئےایک پنتھ دو کاج ہوگا ۔ لیکن تم اپنا انجام سوچ لو ! “
پریم جی بھائی سےاُلجھتےوقت اُنھیں اندازہ تھا کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ ان عام باتوں کےلئےاُنھوں نےاپنےآپ کو پہلےسےتیّار کرلیا تھا ۔ ان سےڈر کر کام نہیں چل سکتا تھا ۔ پریم جی بھائی کو سبق سکھانا بہت ضروری تھا ۔ اِس لئےوہ اُس سےاُلجھ پڑے۔
اِس لئےاُن کےساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس کو وہ برداشت کررہےتھے۔ لیکن اُنھیں یہ بات کچوک رہی تھی کہ اُنھوں نےکوئی سنگین جرم نہیں کیا تھا ۔ پھر بھی اُن کےساتھ جانوروں سا سلوک کیا جارہا ہے۔ لیکن ایک سنگین جرم کرنےوالےوحشی ، درندےکو شاہانہ ٹھاٹ باٹ سےحوالات میں رکھا گیا ہے۔
اُنھوں نےسویرےپریم جی بھائی سےمارپیٹ کی اور آدھا گھنٹےکےاندر حوالات میں تھے۔
مگن بھائی نےجو جرائم کئےاُنھیں مہینوں ہوگئےہیں پھر بھی وہ آزاد تھا ۔ ایک ماہ پہلےشکیلہ نےایک اپوزیشن لیڈر کےسامنےبیان دیا تھا کہ مگن بھائی نےاُس کےساتھ وحشیانہ غیر انسانی سلوک کیا ہے۔
شکیلہ کےاس بیان کو کئی ٹی وی چینل کےکیمروں نےقید کیا تھا ۔اور پھر اس بیان کو ساری دُنیا میں بتایا گیا تھا ۔
اس اپوزیشن کےلیڈر نےاس بات کو پارلیمنٹ میں اُٹھایا تھا اور وزیر داخلہ سےمگن بھائی کی گرفتاری کی مانگ کی تھی ۔
لیکن ریاست کےسی ۔ ایم اور خود وزیر داخلہ نےاُسےمگن بھائی کےخلاف ایک سازش قرار دےکر گرفتاری کی درخواست مسترد کردی تھی ۔
جب کئی ممبران نےاُس کےخلاف آواز اُٹھائی تو وزیر داخلہ نےاعلان کردیا ۔ ہم اِس معاملےکی تحقیقات کررہےہیں اور اگر مگن بھائی کو خطا وار پایا گیا تو اُس کےخلاف ضروری قانونی کاروائی کی جائےگی ۔
ہر کوئی جانتا تھا کہ مگن بھائی خطا وار ہے۔ اُس نےبڑےبھیانک انسانیت سوز جرائم کئےہیں کہ اگر اُسےدس بار بھی پھانسی پر لٹکایا گیا تو بھی اُس کی سزا کم ہوگی ۔
لیکن مگن بھائی کا تعلق سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ کی پارٹی سےتھا ۔ وہ اُن کی پارٹی اور اُس کی ذیلی پارٹیوں کا سرگرم رُکن تھا اور اِس بات پر فوراً عمل کرتا تھا جس کا حکم اُس کی پارٹی یا ذیلی تنظیمیں دیتی تھیں ۔ پھر بھلا ایسےسرگرم رُکن کےخلاف کس طرح کوئی کاروائی کی جاسکتی ہےاور اِن کی پارٹی اور ذیلی تنظیموں کی نظر میں تو مگن بھائی نےکوئی جرم ہی نہیں کیا تھا ۔
انسانیت اور قانون کی نظر میں مگن بھائی کےکارنامےشاید گھناونے، وحشیانہ اور سنگین جرائم ہوں گے۔ لیکن اُن کی پارٹی کی نظر میں یہ کوئی جرم نہیں تھا ۔ کیونکہ اُن کی پارٹی کی نظر میں اِس طرح کی حرکتوں کا اِرتکاب دھرم کا پالن تھا ۔ اور مگن بھائی نےپارٹی تنظیم کےدھرم کا پالن کیا تھا ۔ اِس لئےایسےدھرم یودھا کی حفاظت کےلئےپارٹی اور تنظیم فولادی دیوار بن کر کھڑی تھی ۔
دُنیا کےتمام اخلاقیات کےاُصول ، درس بالائےطاق ۔ ہمارےیودھا نےجو کچھ کیا وہ دُرست ۔ ہم بھلےاپنےآپ کو بہت با اخلاق ، باکردار ظاہر کریں لیکن اپنےمفاد ، اپنےمقصد کےحصول کےلئےسارےاخلاقی ، انسانی ، قانونی ضوابط کو روندنا ہمارا مقصد ہے۔
جس پارٹی کےاُصول ہی یہ ہوں وہ مگن بھائی جیسےیودھا کیوں نہ پیدا کریں ؟ اور یہ یودھا مگن بھائی جیسےکارہائےنمایاں انجام کیوں نہ دیں ۔
ساری دُنیا جن کاموں پر تھوکیں ‘ اُن کاموں کو انجام دینےمیں بھی نہ تو کوئی جھجھک محسوس کرےنہ دُنیا کےتھوکنےپر شرم آئے، نہ غیرت محسوس ہو ، نہ اپنےکسی کام پر پشیمانی محسوس ہو ۔ مگن بھائی جیسےیودھاو
¿
ں کو جب تیّار کیا جاتا ہےتو سب سےپہلےاُن کےضمیر کو ختم کردیا جاتا ہے۔تاکہ کسی کام کو کرتےوقت وہ اُنھیں اس کام کو کرنےسےنہ روکےاور نہ ہی وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں ۔
لبیک کہیں تو صرف پارٹی اور تنظیم کی آواز، اُن کےحکم پر ۔ اِس لئےسارےملک اور دُنیا کےکئی ممالک سےشور اُٹھتا رہا ۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں واویلا مچاتی رہی ۔ پھر بھی مگن بھائی دندناتا ہوا گھومتا رہا ۔ وزیر داخلہ سےسی ۔ ایم تک اِس کی ہر بات کا دفاع کرتےرہتے۔
روزانہ نئےنئےچینل شکیلہ کےانٹرویو دِکھاتے۔ اخبارات شکیلہ کی کہانی کو کوراسٹوری بناتےاور مگن بھائی کےگناہ تازہ ہوجاتے۔ انسانیت کےپرستار اِس حیوانیت کےخلاف آواز اُٹھاتےاور مگن بھائی اسےکتوں کا بھونکنا قرار دیتا ۔ پارٹی اپنےیودھا کا دفاع کرتی ۔
لیکن ایک دِن آخر وہ ہولناک منظر سامنےآہی گیا جس کی اب تک لوگوں نےکہانیاں سُنی تھیں۔ اب تک شکیلہ اپنےہر انٹرویو میں بتاتی تھی کہ کس طرح مگن بھائی نےاُس کےگھر کےہر فرد کو زندہ جلایا ہے۔ اُس کےبوڑھےباپ کےسینےمیں ترشول مار کر اُسےدہکتی آگ میں پھینکا۔ اُس کی ماں کو جلتی آگ میں ڈال دیا ۔ اُس کےدونوں بھائیوں کو ترشولوں سےمار مار کر جلتی آگ میں ڈھکیلا ۔ اُس کی چھوٹی بہنوں کےنسوانی اعضاءکو ترشول سےگھائل کیا اور پھر اُنھیں آگ دِکھا دی ۔
اور اس کےساتھ ۔
اس کےساتھ تیس چالیس یودھاو
¿
ں نےبلاتکار کیا ۔
اور مگن نےاپنےہاتھ سےاُس کےسینےپر چاقو سے” جےشری رام “لکھا ۔وہ اس لئےنہیں ماری گئی کیونکہ اسےیودھاو
¿
ں کی حیوانیت کو سیراب کرنا تھا ۔
وہ اس لئےبچ گئی کہ آخری یودھا جب اس سےسیراب ہوکر گیا تو دوسرےیودھا کےآنےمیں تھوڑی تاخیر ہوگئی ۔ اِس دوران اُس نےخود کو سنبھال لیا اور موقع ملتےہی اس جگہ سےبھاگ نکلی اور کسی طرح گرتےپڑتےایک اسپتال پہونچ گئی ۔
جہاں علاج کرنےکےبعد اُس کی جان بچا لی گئی ۔
لیکن اپنےاس آخری انٹرویو میں اس نےاپنا سینہ کیمروں کےسامنےکردیا ۔
ایک جوان لڑکی کا نرم گداز سینہ ۔
جس پر چاقو کی نوک سےلکھا ” جےشری رام “ صاف دِکھائی دےرہا تھا ۔
اُسےدیکھ کر ہر کوئی دہل اُٹھا ۔
یہ ہےاُس درندےمگن بھائی کےگناہ کا ثبوت جسےیودھا قرار دےکر وزیر داخلہ سےسی ۔ ایم تک بچانےکی کوشش کررہا ہے۔
اِس منظر کو دیکھ کر انسانیت کانپ اُٹھی ۔ جس نےبھی ٹی وی پر تصویروں میں شکیلہ کا سینہ دیکھا ‘ کانپ اُٹھا ۔
ایک جوان لڑکی کا گداز سینہ دیکھ کر بھی کسی کےدِل میں ہوس کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔
ہر کسی نےلعنت ملامت کی اور غم اور غصےکی ایک لہر پورےملک میں دوڑ گئی ۔ اور آخر ارباب اقتدار کو مگن بھائی کی گرفتاری کا آرڈر دینا پڑا ۔ مگن بھائی گرفتار کیا گیا اور ان کےساتھ حوالات میں تھا ، کس طرح تھا ؟ اُنھیں خود شرم آرہی تھی ۔
دونوں شکیلہ کو بہت اچھی طرح جانتےتھے۔
شکیلہ ایک اسکول میں ٹیچر تھی ، اُن کےمحلےمیں ہی رہتی تھی ۔
اور دونوں کےبچےاُس کےپاس ٹیوشن پڑھنےجاتےتھے۔
جب بھی سامنا ہوتا تھا ۔ مسکراکر ان سےملتی تھی ۔ اور اُن کےبچوں کےبارےمیں بتاتی تھی ۔
اشوک بھائی ! اتُل میتھس میں تھوڑا کمزور ہے‘ میں اسےٹھیک کرلوں گی ، لیکن گجراتی پر بھی دھیان دیں ۔
وِنےبھائی ! وِملا کی انگریزی اچھی نہیں ہے‘ بہت محنت کرنی پڑےگی ۔
اس شکیلہ کےساتھ اور اس کےخاندان کےساتھ جو کچھ ہوا وہ اچھی طرح جانتےتھے۔
اُنھیں تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ شکیلہ کےاور اس کےخاندان والوں کےساتھ کیا ہوا ہے۔ مگر اُنھیں علم تھا کہ اگر اُنھیں اس وقت بھی معلوم ہوجاتا جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو بھی وہ کچھ نہیں کرپاتی۔
یودھاو
¿
ں کی پوری فوج انسانیت کو تاراج کرکےاپنےافکار کا جھنڈا گاڑنےنکلی تھی ۔ اور اِس فوج کےساتھ حکومت ، مشنری ، اقتدار سب کچھ تھا ۔ اِس لئےجو کچھ ہوا اُس پر صبر و شکر کرلینا کافی ہے۔ شاید اس

سےبھی زیادہ کچھ ہوجاتا یا ہوسکتا تھا ۔
اِس یُدھ کاایک یودھا مگن بھائی حوالات میں تھا ۔
اور اس یودھا کو اس کی شان کےمطابق ہی اعزاز مل رہا تھا ۔
دونوں ایک دُوسرےکو کبھی بےبسی سےدیکھتےتو کبھی غصےسےمگن بھائی کو ۔ جو اِس وقت آرام سےسو رہا تھا ۔
ابھی کچھ دیر قبل اُس نےآخری موبائیل کال وصول کی تھی ۔
ارےتم فکر کیوں کرتی ہو ؟ بولا نہ کل تک سب ٹھیک ہوجائےگا ۔ ایک دو دِنوں میں گھر آجاو
¿
ں گا ۔ سی ۔ ایم اور وزیر داخلہ سےبات ہوگئی ہے۔ اِس حرامی لڑکی شکیلہ کا کچھ دِنوں کےبعد قصہ ہی ختم کرلیا جائےگا ۔ اسےآئی ۔ ایس ۔ آئی کا ایجنٹ قرار دےکر گرفتار کرلیا جائےگا دُنیا کو بتادیا جائےگا کہ مگن بھائی ، اس کی پارٹی ، تنظیم کو بدنام کرنےکےلئےیہ آئی ۔ ایس ۔ آئی کی سازش تھی ۔
دونوں دیر سےمگن بھائی کےاس کال پر غور کر رہےتھے۔
مگن بھائی نےکہہ دیا تو ایسا ہی ہوگا ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر شکیلہ انصاف انسانیت !
اُنھیں لگا جیسےچاروں طرف وحشی ناچ رہےہیں ۔ دھرتی پر وحشیوں کا راج آگیا ہے۔ اب ان کےپاس دوہی راستےہیں ۔ وہ بھی وحشی بن جائیں یا پھر انسان ہونےکا ثبوت دیں ۔
اشوک ! “
وجے ! “
ہمیں انسان ہونےکا ثبوت دیناہے۔
ہاں نہیں تو تاریخ ہم کو معاف نہیں کرسکےگی ۔
دونوں ایک دُوسرےکی آنکھوں میں دیکھ کر بولے۔
آو
¿
حساب کریں ۔
دونوں اُٹھ کر مگن بھائی کےپاس پہونچے۔ اُسےنیند سےجھنجھوڑا
کیا بات ہی‘ مجھےنیند سےکیوں جگایا ؟ اشوک ، وجے! تم کیا چاہتےہو ؟
رات کےدو بج رہےہیں سارےسپاہی سو چکےہیں تم اگر ذبح ہونےوالےبکرےکی طرح بھی چیخو تو تمہاری چیخ اُن تک نہیں پہونچ پائےگی ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو ۔ اگر تمہارےمنہ سےہلکی سی چیخ بھی نکلی تو ہم تمہیں سچ مچ کسی بکرےکی طرح ذبح کردیں گے۔ انجام جو کچھ ہوگا دیکھا جائےگا ۔
اور وہ کسی بھوکےشیر کی طرح مگن بھائی پر ٹوٹ پڑے۔
اپنےجسم کی ساری طاقت جمع کرکےمگن بھائی پر وار کرنےلگے۔
مگن بھائی کےمنہ سےہلکی سی آواز بھی نکلتی تو ان کا اگلا وار دُوگنا طاقت کا ہوتا ۔ اس وار سےبچنےکےلئےمگن بھائی نےچیخنا تو درکنار کراہنا بھی بند کردیا ۔
ایک گھنٹےتک اُنھوں نےمگن بھائی کی اتنی پٹائی کی کہ ان کےہاتھ پیر اور پورا جسم درد کرنےلگا ۔ سستانےکےلئےوہ تھوڑی دیر رُک گئے۔
اُنھوں نےطےکرلیا تھا کہ مگن بھائی کےساتھ یہ عمل اُنھیں رات بھر دہرانا ہے۔
ننگ دھڑنگ مگن بھائی حوالات کےایک کونےمیں دُبکا ، اپنےجسم پر اُبھرےزخموں کےنشان اور مار کی ٹِیسوں کو برداشت کرنےکی کوشش میں سسک رہا تھا ۔
مگن کو دی گئی کُرسی پر اشوک بیٹھا اُس کےموبائیل سےکھیل رہا تھا اور وجےمگن کو دئےگئےنرم بستر پر لیٹا سستا رہا تھا ۔

٭٭٭٭

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short story Yodha By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

0 comments:

Post a Comment


About this blog

Followers