Urdu Short Stories By M.Mubin Part Four


 

افسا نہ تاریکی از:۔ایم مبین

راستےمیں رگھو ویر مل گیا تھا ۔
رگھو ویر کو دیکھ کر وہ پہچان ہی نہیں سکے۔ وہ اتنا بدل گیا تھا۔ جب وہ ان کےساتھ کام کرتا تھا تو دبلا پتلا ہوا کرتا تھا۔ جسم پر ٹھیک ڈھنگ کےکپڑےبھی نہیں ہوتےتھی۔
لیکن اسوقت اس کےجسم پر کافی قیمتی کپڑےتھی۔ اور جسم کےحجم میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔
انھوں نےہی اسےآواز دی ۔
ارےرگھوویر ! “
کون ارےشندےصاحب ! “رگھوویر اُنھیں دیکھ کر حیرت میں پڑگیا ۔
یہ آپ ہیں ؟
ہاں میں ہی ہوں ۔ “ اُن کےچہرےپر ایک پھیکی مسکراہٹ اُبھر آئی ۔
یہ آپ نےاپنی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ “ رگھو نےحیرت سےاُنھیں دیکھا ۔
بولا ۔ ” آپ کتنےدُبلےہوگئےہیں ، آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں ۔ کیا آپ بیمار ہیں ؟
دُنیا میں بیکاری سےبڑھ کر اور کیا بیماری ہوسکتی ہے؟ “ اُنھوں نےتاسف سےکہا ۔
کیا آپ کےکیس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا ؟ “ اس نےحیرت سےپوچھا ۔
نہیں ‘ ‘ اُنھوں نےکہا پھر موضوع بدلنےکےلئےپوچھا ۔ ” اور بتاو
¿ ‘
کیسےبیت رہی ہے؟
بھگوان کی دیا ہےشندےصاحب ۔ “ رگھو بولا ۔ ” ترقی ہوگئی ہے، ترقی کرکےہیڈ بن گیا ہوں ۔ بڑےلڑکےکو سوفٹ ویر کروا دیا تھا ‘ وہ ایک فرم میں لگ گیا ہے۔چھوٹا ہارڈ ویر کر رہا ہی۔ اس کی اپنی دوکان کھولنےکا اِرادہ ہے، چھوٹی لڑکی کالج کےآخری سال میں ہی، لال باغ والا کمرہ چھوڑ دیا ، وسئی میں ایک فلیٹ لےلیا ہوں ۔
گذشتہ پانچ سالوں کی کہانی رگھو نےچند جملوں میں بیان کردی اور باقی کا اندازہ اُنھوں نےاس کی حالت سےلگالیا ۔
پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنےکےبعد رگھو نےآخر تیر چلا ہی دیا ۔
شندےصاحب ! میں آپ کو بار بار سمجھاتا تھا ۔ مانا ہم جہاں کام کرتےہیں وہاں پیسہ ہی پیسہ ہے۔ وہاں بیٹھ کر ہم اپنی کُرسی کےذریعہ بےشمار دولت کماسکتےہیں ۔لیکن وہ پیسہ ہمیں سکون نہیں دےسکتا ۔ کبھی نہ کبھی تو اس کا انجام برا ہی ہونا ہے۔ اور ہوا بھی وہی ۔ آپ رشوت لیتےپکڑےگئےاور معطل کردئےگئے۔ آپ کا کیس ابھی تک چل رہا ہےاور اب آپ خود کہتےہیں کہ اس کیس میں آپ کا بچنا مشکل ہے۔ آپ کو رشوت لینےکےجرم میں پانچ ، چھ سال کی قید ہوجائےگی ۔ نوکری سےنکال دئےجانےکےبعد آپ کا گھر ٹوٹ کر بکھر گیا ۔ میں وہ راستےپر نہیں چلا جس پر آپ جاتےتھے۔ آج بھی اپنےاُصولوں پر قائم ہیں‘ پہلےتکلیف کےدِن تھے، آج بھگوان نےراحت دےدی ہے۔ کاش آپ بھی میری رائےپر چلتے۔
گھر آکر وہ بہت دیر تک رگھو کےبارےمیں سوچتےرہے۔
کیا رگھو کی راہ پر چل کر اُنھیں وہی راحت ملتی جو رگھو کو ملی ہے؟ ممکن ہےمل جاتی ۔
اُنھوں نےجو راستہ اپنایا تھا اُس وقت اُنھوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا انجام ایسا ہوسکتا ہے۔ کل ہی وہ اپنےوکیل سےمل آئےتھے۔
وکیل نےفیس کا مطالبہ کیا تھا ۔ جب اُنھوں نےاسےاپنی حالت بتائی تو وہ اُن پرغصہ ہوگیا تھا
شندےصاحب ! آپ کا کیس آخری اسٹیج پر ہےاور اس اسٹیج پر آپ کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ ہر فیصلہ آپ کو اپنےحق میں کروانا ہےتاکہ آپ باعزت طریقےسےدوبارہ ڈیوٹی پر جوائنٹ ہوجائیں اور آپ پر لگا رشوت لینےکا الزام جھوٹا ثابت ہوجائے۔ اس کےلئےعدالت کےکلرک ، چپراسی سےجج تک ہر کسی کو پیسہ دےکر فیصلہ آپ کو اپنےحق میں کرنا ہوگا اور آپ کہہ رہےہیں کہ آپ کےپاس پیسہ نہیں ہے۔ یاد رکھئےاس وقت آپ کےپاس پیسےکی کمی آپ کو مجرم ثابت کرسکتی ہی۔ آپ کو رشوت لینےکےجرم میں سزا ہوجائےگی اور آپ دوبارہ پھر کبھی نوکری پر جوائن نہیں ہوپائیں گے۔
لیکن وہ اسےکیا بتائیں۔اس وقت وہ پینےکےلےایک سگریٹ کےمحتاج ہیں۔ تو بھلا فیصلہ اپنےحق میں کروانےکےلیےاتناپیسہ کہاں سےلائیں۔
واپس گھر آتےوقت راستہ بھر ان کےدماغ میں وکیل کی باتیں گونجتی رہیںاور آنکھوں کےسامنےجیل کی سلاخیں منڈلاتی رہی ۔ اُس وکیل کو اُنھوں نےگذشتہ پانچ سالوں میں چار پانچ لاکھ روپیہ فیس کےطور پر دیا ہوگا ۔ لیکن وہ اب بھی فیس مانگ رہا ہےاور صاف کہہ رہا ہےاگر اُنھوں نےفیس کا انتظام نہیں کیا تو فیصلہ اُن کےخلاف ہوسکتا ہے۔
گھر واپس آئےتو بیوی نےترش لہجےمیں پوچھا ۔
وکیل کےپاس گئےتھے؟
ہاں ! “
اس نےکیا کہا ہے؟
کہہ رہا ہےاگر ہم نےفیس کا انتظام نہیں کیا تو فیصلہ ہمارےحق میںنہیں ہوپائےگا ۔
گھر میں کھانےکےلالےپڑےہیں ، میں کس طرح گھر چلا رہی ہوں ‘ میرا حال مجھ کو معلوم ہے۔ ایسےمیں بھلا فیس کا انتظام کہاں سےہوسکتا ہے۔ اس کیس سےتو اب طبیعت بیزار ہوگئی ہے۔ دوٹوک جو بھی فیصلہ ہوجائےتو چھٹی مل جائےگی ۔ رشوت لیتےوقت آپ کو یہ سوچنا چاہیئےتھا کہ اس برےکام کی وجہ سےآپ پر ہمارےگھر پر یہ برا وقت بھی آسکتا ہے۔
بیوی کی باتیں اُنھیں سوئی کی طرح چبھتی محسوس ہوئی ۔
اب بیوی بار بار اُنھیں کوستی ہےکہ اُنھوں نےرشوت کیوں لی ۔ رشوت لینےکا غلط کام کیوں کیا۔ جس کی وجہ سےوہ اِس مصیبت میں پڑےہیں ۔
لیکن جب وہ اِس کےلئےنئی نئی ساڑیاں ، بچوں کو اچھےاچھےکپڑے، گھر کےلئےقیمتی سامان لائےتھےاُس وقت بیوی نےنہیں پوچھا کہ آپ کی تنخواہ تو اتنی کم ہے‘ ہماری آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہےپھر یہ اتنا قیمتی سامان اور اِس کےلئےاتنا پیسہ کہاں سےآتا ہے؟ جب لوگ گھر پر ان سےملنےکےلئےآتےتھےتو وہ ان کی چائےپانی اور خوب خاطر مدارات کرتی تھی ۔ کبھی اس نےانھیں اس بات کےلئےنہیں ٹوکا کہ یہ لوگ ان سےملنےگھر پر کیوں آتےہیں ۔ آفس کا کام ہےتو آفس میں کیوں نہیں ملتے؟
بڑی بڑی رقمیں جب وہ بیوی کےپاس رکھنےکےلئےدیتےتھےتو بیوی نےکبھی نہیں پوچھا تھا کہ اِتنی بڑی رقم کہاں سےآئی ؟ اور اب بات بات پر اُنھیں اِس بات کےلئےطعنہ دیتی ہے۔ شاید اس وقت وہ اُنھیں ایک بار بھی ٹوک دیتی تو جس راستےپر وہ چل رہےتھےاس سےواپس مڑنےکےبارےمیں سوچتے۔
پانچ سال میں وہ کتنی بدل گئی تھی ۔
صرف بیوی کو کیوں دوش دیں ؟ گھر کا ہر فرد بدل گیا تھا ۔
تینوں بچےبھی اب اُنھیں خاطر میں نہیں لاتےتھے۔
جب انھیں رشوت لیتےگرفتار کیا گیا ہےاور سروس سےمعطل کردیا تھا ‘ اُس وقت بڑےلڑکےنےایس ۔ ایس ۔ سی پاس کیا تھا ۔ وہ پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار تھا ۔ اسےوہ انجینئر بنانا چاہتےتھےاور اس کےلئےاُنھوں نےپورا انتظام کرلیا تھا ۔ ایک بڑےکالج کی پوری فیس اُن کےپاس تیّار تھی ۔
مگر وہ گرفتار کرلئےگئےاور حوالات جانےسےبچنےکےلئےاُنھیں پولس کو وہ ساری رقم دینی پڑی ۔ رقم دینےکا صرف یہ فائدہ ہوا کہ ان کےخلاف آگےاور کوئی انکوائری نہیں ہوسکی ۔ ورنہ ان کی ہر چیز کی انکوائری کا آرڈر تھا ۔
لڑکا انجینئرنگ کالج نہیں جاسکا ، اُس نےگیارہویں میں داخلہ لےلیا ۔ لیکن چھ مہینےکےبعد ہی ایسےحالات پیدا ہوگئےکہ اسےکالج چھوڑنا پڑا اور گھر چلانےکےلئےمجبوراً وہ چھوٹےموٹےکام کرنےلگا ۔ چھوٹا لڑکا دسویں میں فیل ہوگیا ۔ اس کی وجہ سےوہ آگےتعلیم جاری نہیں رکھ سکا ، نہ کوئی کام کرسکا ۔ آوارہ لڑکوں کی صحبت میں پڑگیا ۔ اُس کےبارےمیں اُنھیں پتا چلا کہ وہ غلط دھندےبھی کرنےلگا ہے۔ کئی بار اُسےپولس پکڑ کر لےگئی ۔ لیکن اُسےچھڑانےکےلئےاُنھیں پولس اسٹیشن جانےکی ضرورت محسوس نہیں ہوئی وہ خود ہی چھوٹ کر اور سارےمعاملات کو نپٹا کر آگیا یا وہ جن لوگوں کےساتھ رہتا تھا اُنھوں نےہی اُسےرِہا کرالیا ۔
چھوٹی لڑکی کا دِل بھی اسکول کی پڑھائی میں نہیں لگتا تھا ۔
اُس نےپڑھائی چھوڑ دی اور سلائی سیکھنےلگی ۔ اِس کےبعد وہ چھوٹےموٹےکام کرنےلگی ۔
پھر اس کےبعد اُنھیں پتا چلا کہ وہ آوارہ لڑکوں کےساتھ بدنام جگہوں پر گھومتی ہے، رات دیر سےگھر واپس آنےلگی تو ایک بار اُنھوں نےاُسےٹوکا جس پر وہ اُن سےجھگڑا کرنےلگی ۔
میں کام کرنےکےلئےگھر سےباہر جاتی ہوں تاکہ دو پیسےملےتو گھر چل سکے۔ آپ کی طرح گھر میں بیٹھی نہیں رہتی ہوں ۔ “ ماں بھی لڑکی کی طرف داری کرنےلگی۔
خود تو کوئی کام دھندا نہیں کرتے‘ دِن بھر گھر میں بیٹھےرہتےہو ، ہم گھر چلانےکےلئےکوئی چھوٹا موٹا دھندہ کرتےہیں تو ہمارےپیچھےپڑجاتےہو ۔
ماں بیٹی کی طرف داری کررہی تھی ۔ اس کی وجہ وہ جانتےتھے۔ کیونکہ وہ بھی بیٹی کےرنگ میں بہت پہلےہی رنگ چکی تھی ۔
اُن کےمعطّل ہونےکےایک سال بعد ہی وہ چھوٹےموٹےکام کرنےکےلئےگھر سےباہر جانےلگی تھی ۔
کچھ دِنوں کےبعد ہی اُنھیں رپورٹ ملنےلگی تھی کہ وہ کام کی آڑ میں آوارہ گردی کرتی ہے۔
ایک دوبار اِس بات پر اُن کا جھگڑا بھی ہوا تھا ۔ اُس کا جواب تھا ۔
ٹھیک ہے، میں گھر میں رہتی ہوں ، تم جاو
¿
کوئی کام کرو ۔ کچھ کما کر لاکر دو اور پہلےکی طرح گھر کا خرچ چلاو
¿
۔ “ یہ ایسا جواب تھا جس کو سن کر وہ بےحس ہوگئے۔ وہ کام کرنےکےلئےگھر سےباہر جائیں یہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ کیا کام کریں ؟
آدھی زندگی سرکاری نوکری کرتےگذری تھی ۔ اب وہ دُوسرا کیا کام کرسکتےتھے، کسی دوکان پر سیلس مین کا کام کرسکتےتھےنہ کسی پرائیویٹ آفس میں کلرک کا ۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کو کام پر رکھنےسےبہتر وہ کسی نوجوان کو کام پر رکھنا پسند کرتےتھے۔
جہاں وہ پہچان لئےجاتےاُن کےساتھ جانوروں سا سلوک کیا جاتا تھا ۔
ارےشندےصاحب ! آپ ہمارےیہاں نوکری کریں گے؟ آپ تو سارےشہر کو نوکر رکھ سکتےہیں ۔ اِس لئےہمارےیہاں نوکری کرکےاپنی شان کیوں جھوٹی کرنا چاہتےہیں ؟
مایوسی سےواپس مڑتےتو ایک بازگشت پیچھا کرتی ۔
ارےایک حرامی سرکاری آفیسر ہے، بنا رشوت کےکوئی کام نہیں کرتا تھا ۔ رشوت لیتےہوئےپکڑا گیا ‘ آج کل معطل ہے۔ بہت لوگوں کو ستایا ہےاب اس کےپاپوں کی سزا اُسےمل رہی ہے۔
اُنھیں محسوس ہوتا جب وہ کُرسی پر براجمان تھےتو جو لوگ اُن کےساتھ ادب سےپیش آتےتھے، اُن کی عزت کرتےتھے، اُنھیں بار بار سلام کرتےتھے، آج اُنھیں دیکھ کر نفرت سےمنہ پھیر لیتےہیں۔اگر وہ خود سےاُن سےبات کرنےکی کوشش کرتےہیں تو وہ اُن کےزخموں کو کُرید کر اُن پر نمک چھڑکتےہیں ۔
کہیئےشندےصاحب ‘ کیسےہیں ؟ “رشوت لیتےپکڑےگئےتھےنا ؟نوکری تو جاتی رہی ‘ سنا ہےجیل کی ہوا کھانی پڑےگی ۔اب کس طرح گذر بسر ہوتی ہے؟ کیا آج کل آپ کوئی کام تلاش کررہےہیں ؟۔ اگر مل جائےتو برائےکرم وہاں بھی وہی کام مت کیجئےگا ۔ وہ سرکاری دفتر تھا ، جہاں آپ حاکم تھے، ہر جگہ آپ حاکم نہیں ہوسکتے۔
اِن طعنوں کی وجہ سےاُنھوں نےکہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ گھر میں بیٹھےرہتےاکیلے، کیونکہ گھر میں کوئی نہیں ہوتا تھا ۔ بیوی کام پر چلی جاتی تھی ۔ بڑا لڑکا بھی کام پر ہی جاتا تھا ۔ چھوٹا لڑکا اور لڑکی کہاں آوارہ گردی کرتےرہتےتھے‘ اُن کو ٹوکنےکی ان میں ہمت بھی نہیں تھی ۔
ایک زمانہ تھا ‘ ان کا بڑا دبدبہ تھا ۔
وہ ایسےمحکمےمیں تھےجہاں پیسہ ہی پیسہ تھا ۔ مجبور، ضرورت مندافراد وہاں پیسہ دےکر ہی اپنا کام کرواتےتھےاور اُنھوں نےبھی پیسہ لےکر کام کرنےکا اپنا اُصول بنالیا تھا ۔
جس سےمطلوبہ رقم مل گئی اس کا کام منٹوں میں ہوگیا جس نےپیسےنہیں دئےسالوں تک اُن کےآفس کےچکّر کاٹتا رہا ۔
وہ غلط صحیح ہر طرح کا کام کرتےتھے۔ صحیح کام کرنےکی بھی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی ۔ غلط کاموں کےلئےتو کچھ زیادہ ہی قیمت دینی پڑتی تھی ۔
گھر میں دولت کی ریل پیل تھی ۔ وہ اپنےساتھ آفس سےروزانہ ہزاروں روپیہ لاتےتھے۔
بیوی قیمتی کپڑوں اور زیورات میں لدی جارہی تھی ، گھر میں قیمتی آرائشی سامان آرہا تھا ، بچےاِس

چھوٹی سی عمر میں ہزاروں روپیہ روزانہ اُڑا دیتےتھے۔
کچھ لوگ سمجھاتےبھی تھےکہ وہ جس راستےپر جارہےہیں وہ غلط ہے۔ کسی دِن اس کا خاتمہ کسی تاریک غار میں ہوسکتا ہے۔
لیکن اُنھیں کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔
اُنھوں نےاس درمیان اپنا رُسوخ بھی بنالیا تھا ۔ اُنھیں یقین تھا اگر ان کےہاتھوں سےکوئی لغزش ہوجائےتو وہ لوگ اُنھیں بچالیں گے۔
لیکن اُنھیں کوئی بھی نہیں بچا سکا ۔
ایک سرپھرےسےاُنھوں نےکام کےلئےرشوت مانگی ‘ اُس نےانکار کیا تو اُسےاتنا مجبور کردیا کہ وہ رشوت دینےکےلئےمجبور ہوگیا ۔ رشوت لےکر اُنھوں نےاس کا کام کیا ۔
لیکن وہ اینٹی کرپشن میں رپورٹ کرچکا تھا ۔
اینٹی کرپشن والےجال بچھا چکےتھے۔ وہ جال میں پھنس گئے۔اور رشوت لیتےہوئےرنگےہاتھوں پکڑےگئے۔
فوراً معطل کردئےگئےاور کیس شروع ہوا ۔
اِس کیس کو کمزور کرنےکےلئےاور خود کو دُوسری کاروائیوں سےبچانےکےلئےاُنھوں نےگھر میں جمع سارا پیسہ لگادیا ۔ کل تک وہ لوگوں سےرشوت لیتےتھے۔
آج وہ خود کو بچانےکےلئےکورشوت دےرہےتھے۔
اُنھوں نےسب کو خرید لیا ۔
لیکن جس سےاُنھوں نےرشوت لی تھی اور جس نےاُنھیں رشوت دیتےہوئےپکڑوایا تھا وہ اڑا رہا ۔
پیسہ یا کوئی بھی دباو
¿
اُسےجھکا نہیں سکا ۔
وہ آج تک اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا جیسےاُس نےاُنھیں برباد کرنےکی ٹھان لی ہو ۔
اور ان پانچ سالوں میں اُس نےاُنھیں پوری طرح برباد کردیا تھا ۔
عزت ، گھر بار ، بیوی بچے، دولت ، شہرت سب تو لُٹ گئی تھی ۔
نیم جان تن پر بس آخری وار ہونا باقی تھا ۔
فیصلہ اُن کےخلاف جائےاور اُنھیں رشوت لینےکےجرم میں سزا ہوجائے۔
اور اُن کی دوبارہ نوکری پانےکی آخری اُمید بھی ٹوٹ جائے۔
جو اُنھوں نےراستہ اپنایا تھا وہ تاریکی بھرا تھا ۔ لیکن وہ اُنھیں روشن محسوس ہوتا تھا ۔ اِس تاریک راستےپر چلتےوہ تاریکی میں گم ہوگئے۔
اِ س لئےاُن کا خاتمہ بھی اِسی تاریکی میں ہونےوالا تھا ۔

٭٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com

Urdu Short story Virasat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Urdu, Virasat

افسانہ وراثت از:۔ایم مبین

ردّی والا اُن ساری کتابوں کو تول کر تھیلےمیں بھر رہا تھا جو اُنھوںنےگذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کررکھی تھیں اور وہ حسرت سےاُن کتابوں کو ردّی والےکےتھیلوں میں گم ہوتےدیکھ رہےتھے۔
ردّی والا جب بھی کوئی کتاب اپنےترازو میں رکھتا ‘اُس کتاب کےسر ورق پر نظر پڑتےہی اُس سےوابستہ ایک کہانی ذہن میں اُبھر آتی۔
یہ کتاب اُنھوں نےدہلی سےمنگوائی تھی ۔
اِس کتاب کوانھوں نے کلکتہ سےخریدا تھا ۔
یہ کتاب مصنف نےخود اُنھیں تحفہ کےطور پر دی تھی۔
یہ کتاب اُنھیں انعام میں ملی تھی ۔
یہ کتاب اُنھوںنےایک لائبریری سےچرائی تھی ۔ کیونکہ یہ نایاب تھی لیکن اِس کتاب سےاُن کےعلاوہ کوئی بھی فیض حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ لائبریری میں پڑی دھول کھارہی تھی ۔ اُنھیں لگا وہی اِس کتاب کو اپنےپاس رکھ کر اس کا بہتر استعمال کرسکتےہیں ۔ اس لئےاِس کتاب کو چرانا بھی کوئی گناہ محسوس نہیں ہوا تھا ۔ ان کتابوں میں اُن کی اپنی لکھی ہوئی کتابیں بھی تھیں ‘کچھ اچھی حالت میں کچھ خراب حالت میں ۔ شاید وہ آخری جلدیں تھیں لیکن پھر بھی اِنہیں ردّی میں فروخت کرتےہوئےاُنھیں کوئی دُکھ محسوس نہیں ہورہا تھا ۔
اُنھوں نےاپنےدِل پہ جیسےایک پتھر رکھ دیا تھا ۔
گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نےجتنا پیار ، محبت اُن کتابوں کو دیا تھا ، ایک لحظہ میں سب ختم کرلی تھیں ۔
کبھی گھر کا کوئی فرد کسی کتاب کو غلط جگہ پر رکھ دیتا تھا تو وہ بھڑک اُٹھتےتھی۔
اگر کسی سےکتاب کا کوئی ورق پھٹ جاتا تو اُس کی تو شامت ہی آجاتی تھی ۔
گھر میں اکثر اُن کی کتابوں اور کاغذات کو اِدھر اُدھر رکھنےپر تنازعہ پیدا ہوتا رہتا تھا ۔
لیکن آج اُنھیں اُن ساری کتابوں کو گھر سےوداع کرنا پڑ رہا تھا ۔
کتابوں کےساتھ کاغذات کا ایک ڈھیر بھی ردّی والےکےتھیلوں میں جارہا تھا ۔ وہ کاغذات اُن کی ادھوری کہانیاں ، نوٹس وغیرہ تھے۔ کسی کتاب کو پڑھ کر اُنھوں نےجو نوٹس لکھےتھےیا پھر کسی افسانےکو لکھنےسےپہلےجو خاکےتیّار کئےتھے۔
اس کےعلاوہ اخبارات اور رسائل کی کٹنگ کاایک ڈھیر تھا ۔
اِس ڈھیر میں اُن کےمضامین بھی تھےاور کچھ یادگار اور کارآمد مضامین بھی جن کےتراشےاُنھوں نےبرسوں سےسنبھال کر رکھےتھے۔
اُن کی نظر میں اِن تراشوںکی حیثیت بہت کارآمد تھی ۔ لیکن شاید دُنیا کی نظر میں بیکار ردّی کےٹکڑے۔
کچھ مشہور ادبی رسائل کےگذشتہ دس پندرہ سالوں کےتمام شمارےجو شاید اہلِ ذوق کےلئےقیمتی ہوں ، لیکن اب وہ ردّی کےمول بک رہےتھے۔
وہ کُرسی پر بیٹھےردّی والےکو اُن چیزوںکو تولتا دیکھ رہےتھے۔ وقفہ وقفہ سےبہو اور بیٹا آکر ایک اُچٹتی سی نظر اِس کاروائی پر ڈال جاتےتھے۔
وہ بار بار یہ دیکھنےکےلئےآتےتھےکہ کون سی چیزیں فروخت ہورہی ہیں اور کون کون سی باقی ہیں ۔
بڑی سی کتابوں کی الماری کی کتنی جگہ خالی ہورہی ہے۔
اُنھوں نےبھی دِل پر پتھر رکھ لیا تھا اور طےکرلیا تھا کہ آج وہ اپنا کاغذ کا آخری پرزہ بھی بیچ دیں گےاور روزانہ کےذہنی تناو

¿ اور اُٹھ کھڑےہونےوالےتنازعات سےہمیشہ کےلئےنجات پالیں گے۔
اُنھیں پورا یقین تھا ۔
گھر کا کوئی بھی فرد آکر اُنھیں ایسا کرنےسےنہیں روکےگا ۔
ابا ،یہ ساری چیزیں آپ نےگذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کی تھیں ۔ اِتنےسالوں سےانہیں سنبھال کر رکھا ۔ اپنی جان سےزیادہ اِن کی حفاظت کی ‘ پھر آج یہ سب کیوں فروخت کررہےہیں ؟
یا پھر کسی چیز کو فروخت کرنےسےروکے۔
آپ اِسےکیوں فروخت کررہےہیں ؟ اِسےتو آپ اپنی زندگی کا انمول سرمایہ مانتےتھے۔
اُنھیں یقین تھا کہ گھر کےافراد تو اِس سےخوش ہورہےہوں گے‘ گھر میں بہت بڑی جگہ خالی ہورہی ہے۔ اب اِس جگہ وہ اپنی پسند کی کوئی آرائش کی چیز رکھ سکیں گے۔
اُنھوں نےخطوط کا بڑا سا بکس بھی نکال رکھا تھا ۔ ان خطوط کےبارےمیں بھی اُنھوں نےردّی والےسےپوچھا تھا ۔
نہیں صاحب ! یہ تو میرےکسی کام کےنہیں ہیں ۔ اِس بوجھ کو میں یہاں سےلےجاکر کیا کروں گا ؟
ردّی والےکا جواب سُن کر اُنھوں نےاُسےبھی ٹھکانےلگانےکا راستہ سوچ لیا تھا ۔
آج وہ اُن تمام خطوط کو جلادیں گے۔
وہ ملک کےمشہور عالم اور مشاہیر کےخطوط تھے۔ گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نےملک کےجن ادیب ، دانش وروں سےخط و کتابت کی تھیں اور جو خطوط اُن کی نظر میں تاریخی اہمیت کےحامل تھے‘ اُنھوں نےاُنھیں بڑےجتن سےسنبھال کررکھا تھا ۔
لیکن جب اُن کےبعد اِن چیزوں کا کوئی قدر دان اور اُنھیں سنبھال کر رکھنےوالا ہی نہیں ہوگا تو پھر اِنہیں گھر میں رکھ کر کیا فائدہ ‘ گھر والوں کی نظر میں تو وہ کوڑا کرکٹ ہی ہے۔
اِس لئےوہ اُن تمام خطوط کو جلا کر اہلِ خانہ کو کوڑےکرکٹ سےنجات دلا دیں گے۔
اُنھوں نےیہ بھی طےکرلیا تھا کہ اب وہ اپنےپسند کا کوئی بھی اخبار ، رسالہ یا کتاب گھر نہیں لائیں گے۔
وہ جانتےتھےکہ اُن کےاِن اقدامات سےگھر والوں کو بےحد خوشی ہوگی ۔
آج جو وہ قدم اُٹھا رہےتھے‘ اُس سےوہ گھر والوں کےچہروں پر خوشی کےتاثرات بھی دیکھ رہےتھے۔
گھر والوں کی خوشی میں ہی اُن کی خوشی تھی ۔
آخر وہ زندگی بھر گھر والوں کی خوشیوں کےلئےہی تو سب کچھ کرتےرہےتھے۔
زندگی بھر اُنھوں نےاِن سب کا خیال رکھا تھا۔
ہمیشہ یہ کوشش کی کہ انہیں کسی بات کی کمی نہ ہو ۔ اِس کمی کو پورا کرنےکےلئےوہ بارش، دھوپ ، سردی ، گرمی میں جدوجہد کرتےرہے۔
اب جب آخری عمر میں اُنھوں نےساری خوشیاں اپنےگھر والوں کےدامن میں ڈال دی ہیں تو اِن کی آخری چھوٹی سی خوشی کیوں نہ پوری کریں ؟
ڈرائنگ روم میں رکھی ان کی بڑی سی کتابوں کی الماری اور اُس الماری میں آویزاں پرانی بوسیدہ کتابوں سےاتنےاچھےسجےسجائےڈرائنگ روم کا شو خراب ہوتا ہے۔
گھر والوںکےجو بھی ملنےوالےگھر آتےہیں ‘ ناگواری سےاُس الماری کی طرف دیکھتےہیں ‘ اُس الماری کا مذاق اُڑاتےہیں اور اُنھیں اُن کی وجہ سےخفّت اُٹھانی پڑتی ہے۔
مجبوری یہ ہےکہ اتنےبڑےگھر میں ان کتابوں کو رکھنےکےلئےکوئی اور جگہ نہیں ہےاور ان کا خیال ہےکہ کتابیں ڈرائنگ روم کی زینت ہوتی ہیں ۔ اُنھیں دیکھ کر ہی آنےوالا صاحبِ خانہ کی علم دانی ، اُس کےرُتبےکا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اِس لئےکتابیں ڈرائنگ روم میں ہی رکھی ہونی چاہیئے۔
انہی سوچوں کا ٹکراو

¿ آئےدِن گھر کا سکون غارت کئےرہتا تھا ۔
اپنی کوئی کتاب یا رسالہ نہ ملنےپر وہ چراغ پا ہوتےتھے۔ پہلےاُن کےغصےسےہر کوئی ڈر جاتا تھا ۔
لیکن اب اُن کےغصےسےکوئی بھی نہیں ڈرتا ، اُن سےاُلجھ جاتا ہےاور اُنھیں باتیں سنانےلگتا ہے۔
اپنےکوڑےکرکٹ کی خود ہی حفاظت کیا کریں ۔ ہمیں اِن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سارا کوڑا کرکٹ جمع کرکےاِتنےاچھےڈرائنگ روم کےشو کو خراب کررکھا ہے۔
یہ سُن کر اُن کےدِل کو ایک ٹھیس لگتی تھی ۔
گویا اُن کا خواب اب گھر والوں کی نظر میں کوڑا کرکٹ ہے۔
برسوں تک اُنھوں نےایک خواب دیکھا تھا ۔
اُن کا ایک بڑا اچھا سا گھر ہو ۔ جس میں ایک بڑا سا سجاسجایا ڈرائنگ روم ہو ۔ اُس ڈرائنگ روم میں اُن کی ایک بڑی سی الماری ہو ۔ جس میں اُن کی ساری کتابیں اور سارا علمی سرمایہ سجا ہو ۔
تاکہ ہر آنےوالےپر آشکار ہو ‘ اُنھوں نےکیا کیا سرمایہ اور خزینہ جمع کررکھا ہےاور اسےاُن کےخزینےپر رشک ہو ۔
ساری زندگی ایک چال کےایک چھوٹےسےکمرےمیں کٹی تھی جس کےایک کونےمیں اُن کی کتابوں کا ڈھیر بےترتیبی سےپڑا رہتا تھا ۔ وہ ڈھیر بڑھتا بھی تو کسی کو محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اپنی ضرورت کی چیز اِس ڈھیر سےبخوبی ڈھونڈ کر نکال لیتےتھے۔ اور غیر ضروری چیز کو اُس ڈھیر میں شامل کردیتےتھے۔
اُن کےچھوٹےسےٹیبل پر صرف تازہ کتابیں ، رسائل اور لکھنےکا سامان ہوا کرتا تھا ، تب وہ خواب دیکھا کرتےتھے۔
کبھی نہ کبھی تو اُن کی زندگی میں ایسا وقت آئےگا جب اِن کتابوں کا یہ ڈھیر اُن کےڈرائنگ روم میں سلیقےاور قرینےسےسجا ہوگا ۔
وہ وقت بھی آیا تو ریٹائرمنٹ کےبعد ۔
مضافات میں ایک اچھےفلیٹ کا سودا ہوگیا۔ ریٹائرمنٹ کےبعد جو گریجویٹی ، پی ایف ملنےوالا تھا اور پرانےکمرےکی جو قیمت آرہی تھی ‘ اُن روپیوں سےایک اچھا فلیٹ مل گیا ۔
تب اُنھیں لگا ‘ اُن کےبرسوں کےخواب کی تعبیر کا وقت آگیا ۔
اُس گھر کو ہر کسی نےاپنی پسند کےمطابق سنوارا تھا ۔
بیٹےبہو نےاپنےانداز میں اپنا کمرہ سجایا تھا ۔ بیٹی اور چھوٹےبیٹےنےبھی اس گھر میں خوب صورت رنگ بھرےتھے۔
اُنھوں نےڈرائنگ روم میں اپنےاوراپنی کتابوں کےلئےایک بڑی سی الماری بنائی تھی ۔
اُن کا تو اور بھی ایک خواب تھا ، اُن کا اپنا ایک کمرہ ہو ‘ جہاں بیٹھ کر وہ لکھنےپڑھنےکا کام کرسکیں ۔ لیکن جتنا پیسہ اُن کےپاس تھا ، اُس میں یہ ممکن نہیں تھا ۔ اِس لئےاُنھوں نےاپنےلئےڈرائنگ روم کو ہی پسند کیا ۔
جب اس فلیٹ کا کام چل رہا تھا تو انھیں فاطمہ کی بہت یاد آتی تھی ۔اس طرح کےخوب صورت گھر کا خواب اُن کےساتھ فاطمہ نےبھی دیکھا تھا اور پھر زندگی بھر اُس نےاس خواب کی تعبیر کی جدوجہد میں ہاتھ بٹایا تھا ۔
لیکن اُن کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا ۔
آخر اُن کےریٹائرمنٹ سےایک سال قبل اُس نےاُن کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ وہ بیماری اُس کےلئےجان لیوا ثابت ہوئی تھی جو اُس نےاُن سےزندگی بھر چھپائےرکھی تھی ۔
فاطمہ کی موت کےبعد وہ بہت اکیلےہوگئےتھے۔
اِس اکیلےپن کو اُنھوں نےادب کےذریعہ دُور کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اِس دوران اُنھوں نےاِتنا لکھا اور اِتنا اچھا لکھا جووہ برسوں میں نہیں لکھ پائےتھے۔
ویسےبھی ادب اُن کےلئےاُن کی زندگی اور رُوح تھی ۔
اُنھوں نےزندگی میں صرف تین باتوں پر توجہ دی تھی ۔ اپنی نوکری ، گھر اور ادب ۔ اُن کی زندگی اُنہی کےگرد گردش کرتی تھی ۔ ڈیوٹی پر جاتے، ڈیوٹی سےآکر گھر ، بیوی بچوں پر توجہ دیتے، پھر مطالعہ یا لکھنےمیں غرق ہوجاتے۔
وہ آخری عمر تک اپنےبیوی بچوں کو ایک اچھا گھر تو نہیں دےسکےلیکن اُنھوں نےاپنےبچوں کو اچھی تعلیم دی تھی اور اُنھیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونےدی تھی ۔
دونوں لڑکےبرسرِ روزگار ہوگئےتھے۔ بڑےکی شادی بھی ہوگئی تھی ، بہو بھی گھر آگئی تھی ، چھوٹےکی ایک اچھےخاندان میں بات پکی ہوئی تھی ۔ لڑکی کالج کےآخری سال میں تھی ، بس ایک ہی فکر باقی تھی ، اُس کےرشتےکی ۔

اُس گھر کو لینےمیں اُنھوں نےاپنی زندگی کی ساری کمائی صرف کردی تھی ‘ لیکن پھر بھی اُنھیں اعتماد تھا ۔ اگر لڑکی کےلئےکوئی اچھا سا رشتہ آجائےتو وہ اُس کی شادی فوراً کرسکتےہیں ۔ فاطمہ نےبچپن سےلڑکی کےلئےجہیز جمع کر رکھا تھا ۔
لیکن نیا گھر جیسےاُن کو راس نہیں آسکا ۔
وہاں آنےکےبعد وہ اپنےتمام ادبی غیر ادبی دوستوں سےٹوٹ گئےتھے۔ شاید ہی کوئی دوست اُن سےملنےکےلئےاُن کےگھر آپاتا تھا ۔ بھلا اُن سےملنےکےلئےاِتنی دُور مضافات کےاِس علاقےمیں کون جاتا ؟
اُنھیں ہی اپنےدوستوں سےملنےاور اپنےذوق کی آبیاری کرنےکےلئےپرانی جگہ جانا پڑتا تھا ۔
ورنہ اکیلےہی گھر میں رہنا پڑتا تھا ۔
دونوں لڑکےتو سویرےہی اپنےآفس چلےجاتےتھے۔ لڑکی کالج چلی جاتی تھی ۔ گھر میں اکیلی بہو اور وہ رہتےتھے۔ بہو بھی کبھی سامان لینےجب بازارجاتی تھی تو دو دو ‘ تین تین گھنٹہ واپس نہیں آتی تھی۔
ایسےمیں اُنھیں اکیلےگھر میں کوفت ہوتی تھی ۔ اُن کی دیرینہ رفیق کتابیں بھی اُن کا دِل نہیں بہلا پاتی تھیں اور کوشش کرنےکےباجود وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پاتےتھے۔ اپنی حالت کو دیکھ کر اُنھیں محسوس ہونےلگا کہ جیسےاُنھوں نےجو کچھ سوچ رکھا تھا یا جو خواب دیکھےتھےوہ خواب ہی تھے۔
ابھی وہ اِس سےاُبھر بھی نہیں پائےتھےکہ نئےتنازعات اُٹھ کھڑےہوئے،
گھر کےہر فرد کو ڈرائنگ روم میں رکھی اُن کی کتابوں کی الماری پر اعتراض تھا ۔ اُن کا کہنا تھا یہ ڈرائنگ روم کا شو خراب کررہی ہیں ۔ پہلےاگر وہ بیٹوں سےتھوڑی اونچی آواز میں بات کرتےتھےتو ڈر سےبچےکانپنےلگتےتھےاور اُن کی ہر بات پر سر تسلیم خم کردیتےتھے۔
لیکن جب سےوہ کمانےلگےتھے‘ اُنھیں یہ محسوس ہوا بچےبھی نہ صرف اونچی آواز میں بولنےلگےہیں بلکہ اُن کی آواز کو دبانےکی کوشش کرکےاُن پر اپنی مرضی لادنےلگےہیں ۔
سب کا یہی کہنا تھا یہ کتابیں وغیرہ بےکار ہیں ۔ اِنھیں ڈرائنگ روم سےہٹا دیا جائے۔ پرانےگھر میں ایک کونےمیں پڑی رہتی تھیں تو کسی کا اُس پر دھیان نہیں جاتا تھا لیکن اب یہ آنکھوں میں جیسےچبھنےلگی ہیں ۔ روز روز کےتنازعات اور جھگڑوں سےتنگ آکر ایک دِن اُنھوں نےسنجیدگی سےسوچا ۔
زندگی بھر اُنھوں نےبچوں کو خوشیاں دیں اور اِس کےلئےبرسرِ پیکار رہے۔ اب زندگی کےآخری پڑاو
¿
پر اُنھیں دُکھ کیوں دیا جائے؟ اُن پر اپنی مرضی لادنےکےبجائےاُن کی مرضی مان لینا چاہیئی۔ اگر اُنھیں ان کی کتابوں پر اعتراض ہےتو گھر سےساری کتابیں ہٹا لینی چاہیئے۔
اِس فیصلےپر پہنچنےکےبعد اُنھوں نےسوچا ساری کتابیں کسی لائبریری کو دےدی جائیں تاکہ لوگ اُن کےخزانےسےفیض یاب ہوں ۔
لیکن سارا شہر ڈھونڈنےکےبعد بھی اُنھیں کوئی ایسی لائبریری نظر نہیں آئی جسےوہ اپنی ساری کتابیں دےسکیں ۔
ایک دو لائبریری والوں سےجب اُنھوں نےاِس سلسلےمیں بات کی تو اُنھیں جواب ملا ۔
ہمارےپاس جگہ کی بہت تنگی ہے، پھر آپ جس طرح کی کتابیں دینا چاہ رہےہیں اُس طرح کی کتابیں پڑھنےوالےلوگ تو ہمارےیہاں ہیں ہی نہیں ‘ اِس لئےہم آپ کی وہ بےکار سی کتابیں لےکر اپنی جگہ کیوں پھنسائیں ؟
اِس کےبعد ہی اُنھوں نےاپنی ساری کتابیں ردّی میں فروخت کردینےکا فیصلہ کردیا ۔
اور اس وقت جب اُن کی کتابیں بک رہی تھیں تو بھی اُنھیں کوئی افسوس یا ملال نہیں ہورہا تھا ۔ کیونکہ اُنھوں نےاپنےدِل پر پتھر جو رکھ لیا تھا ۔
ڈرائنگ روم کاوہ حصہ خالی ہوگیا تھا تو بہو بیٹوں اور بیٹیوں نےاسےاپنےڈھنگ سےسجالیا ۔ اور جب وہ اپنی سجاوٹ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہےتھےتو اُنھیں اطمینان محسوس ہورہا تھا کہ چلو شکر ہے۔ اُنھوں نےبچوں کی ایک بات مان کر اُنھیں ایک خوشی تو دی ۔
ایک ہفتےکےبعد اُنھیں ایک دوست کا فون آیا ۔
کیا بات ہےیار ! میں نےسنا تم نےاپنی ساری کتابیں ردّی میں دےڈالیں ؟
ہاں ! “
مگر کیوں ؟
اِس لئےکہ ہماری اولاد اور نئی نسلوں کےدِل میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ان کےلئےوہ بیکار سی چیز ہی۔ ہم نےاپنی وراثت میں اپنی آنےوالی نسلوں کو ہر طرح کی خوشیاں ، آسودگی ، تعلیم تو دی لیکن نہ تو اُنھیں کتاب آشنا بنایا نہ اُنھیں کتابوں کی عظمت ، اہمیت ، افادیت اور ضرورت کےبارےمیں بتاکر اُنھیں کتابوں کی قدر کرنا سکھایا ۔ جب ہم نےاُنھیں اپنی یہ عظیم وراثت دی ہی نہیں تو وہ کتابوں کی اہمیت کس طرح سمجھیں گے۔ اُن کےلئےتو وہ بےکار کاغذ کےبوسیدہ پُرزےہیں ۔ ان کا گھر میں رکھنا ، گھر میں کوڑا کرکٹ رکھنےجیسا ہے۔
اِس لئےاُن کتابوں کو ردّی میں فروخت کرنےکےعلاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔

٭٭٭

پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com






افسانہ

بلندی

از:۔ایم مبین

کال بیل بجی ۔
دروازہ کھولنےپر سامنےکچھ ایسی صورتیں نظر آئیں جو دیکھنےسےہی ناگوار سی لگیں ۔ ” کیا بات ہے؟ “ میں نےاستفہامیہ نظروں سےان کی طرف دیکھا ۔
بھاو
¿
کا ہفتہ دو ؟
بھاو
¿
کا ہفتہ …….. ؟ میں سمجھا نہیں ۔ “ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔
نیا نیا یہاں رہنےکےلئےآیا ہےناں اس لئےادھر کےطور طریقےمعلوم نہیں ہیں ۔ ایک دو مہینےمیں سب معلوم ہوجائےگا ۔ چپ چاپ دو سو روپیہ دےدو ۔ “ ایک نےکہا ۔
دو سو روپے…. ! مگر کس بات کےدو سو روپے؟ “ میں نےپوچھا ۔
اےاکبر ! اِدھر آ اور یہ جو تیرا نیا پڑوسی آیا ہےناں اسےبتا کہ ہم کس بات کےدوسو روپےمانگ رہےہیں ۔ تُو اسےبتا دے۔ اگر تجھ سےہماری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تو ہم اپنی زبان میں اپنےانداز میں اسےسمجھائیں گےکہ ہم کس ئےدو سو روپےمانگ رہےہیں ۔ “ ایک نےاکبر بھائی کو آواز دی ۔
ارےنہیں دامو بھائی ! میں انہیں سمجھا دوں گا ۔ آپ کو اسےسمجھانےکی ضرورت نہیں پڑےگی ۔ “ کہتےہوئےاکبر بھائی آگےآئےاور مجھ سےبولے۔
سلیم صاحب ! انہیں دو سو روپےدےدیجئے۔
مگر دو سو روپےکس بات کے؟
وہ میں آپ کو بعد میں سمجھا دوں گا پہلےآپ انہیں دو سو روپےدےدیجئی۔“ اکبر بھائی نےاصرار کیا تو میں سوچ میں ڈوب گیا ۔ جو لوگ دو سو روپےمانگ رہےتھے۔ صورت و شکل سےایسےتھےکہ اگر ان کی مانگ پوری نہیں کی گئی تو وہ مجھ سےالجھ سکتےتھے۔ الجھنےکی صورت میں مجھےہی گزند پہنچ سکتی تھی ۔ لیکن دو سو روپےمفت میں انہیں دینا میرےحلق سےنیچےنہیں اتر رہا تھا ۔
کچھ سوچ کر میں نےانہیں دو سو روپےدےدئے۔ جاتےوقت وہ اکبر بھائی سےکہہ گئے۔ ” اکبر ! ہم کس لئےپیسہ مانگتےہیں اسےاچھی طرح سمجھا دینا ۔ اگلی بار اس نےکوئی حجت نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اگلی بار ہفتہ کےلئےیہ ہم سےالجھا تو ہم اس کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔
نہیں نہیں دامو بھائی ! اگلی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ میں انہیں سب سمجھا دوں گا ۔ “ اکبر بھائی نےکہا اور ان کےجانےکےبعد گھر میں آگئے۔
سلیم بھائی ! آپ یہاں نئےنئےرہنےکےلئےآئےہیں اس لئےیہاں کےطور طریقےنہیں معلوم ۔ یہاں کا ایک دادا ہےجو یہاں کی شاکھا کا پرمکھ بھی ہے۔ وسنت‘ہر مہینےاس کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ اس کو ہفتہ دینےسےایک فائدہ یہ ہوتا ہےکہ اس کالونی میں کبھی کچھ نہیںہوتا ۔ کوئی غنڈہ آنکھ اٹھا کر بھی اس کالونی کی طرف نہیں دیکھتا ہےنہ اس کالونی کی کسی لڑکی کو چھیڑنےکی ہمت کرتا ہے۔ اور تو اور اگر کسی دوسری کالونی کا کوئی آدمی بھی اس کالونی کےکسی فرد سےالجھتا ہےتو وسنت کےآدمی اسےایسا سبق سکھاتےہیں کہ وہ دوبارہ اس کالونی کےپاس سےگذرنےسےبھی خوف کھاتا ہےاور پھر ہم تو مسلمان ہیں ۔ پتہ نہیں کب کہیں چھوٹی سی چنگاری بھڑک اٹھےاور وہ چنگاری شعلہ بن کر ہماری چھوٹی سی دنیا ہماری ساری زندگی کی خون پسینےکی کمائی جلا کر خاک کردیں ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ بھی ہوا تو ہم پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے۔ وسنت کےآدمی ہماری حفاظت کرتےہیں سمجھ لیجئےکہ ایک طرح سےہم اپنی حفاظت کی قیمت ادا کر رہےہیں ۔ “ اکبر بھائی نےتفصیل سےبتایا ۔
کیا کالونی کےدوسرےافراد بھی ہفتہ دیتےہیں ۔
ہاں سبھی دیتےہیں ۔ ہم اپنی اپنےگھروں کی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ تو وہ بھی اپنی حفاظت کےلئےہفتہ دیتےہیں ۔ جو ہفتہ نہیں دیتا اس کا کالونی میں رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وسنت کےآدمی اسےاتنا تنگ کرتےہیں کہ اس کا یہاں رہنا دوبھر ہوجاتاہے۔ کوئی بھی اسےان سےنہیں بچا سکتا ۔ یہاں تک کہ پولس بھی وسنت کےآدمیوں کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی ۔ مجبوراً یا تو اسےوسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہےیا پھر یہ کالونی چھوڑ دینی پرتی ہے۔
اچھا یہ وسنت پوار ہےناں ؟ جو اس بار اس علاقےسےمیونسپل الیکشن میں کھڑا ہونےوالا ہے۔ “ مجھےکچھ یاد آیا ۔
ہاں وہی ۔ کھڑا کیا ہوگا میں تو کہتا ہوں وہ اس علاقےسےمنتخب بھی ہوجائےگا ۔کیونکہ پورےعلاقےمیں اس کا رعب اور دبدبہ ہےاس علاقےکا شاکھا پرمکھ ہے۔ اس لئےاس کی جیت یقینی ہے۔ “ اکبر بھائی بولے۔
وسنت پوار …….. ! “ میں نےدہرایا ۔ ” نام کچھ شناسا سا لگ رہا ہےیا میں سمجھتا ہوں کہ اس آدمی کو میں بہت قریب سےجانتا ہوں ۔ اس کےبارےمیں کچھ اور تفصیل سےبتائیی۔
میں بھی نیا نیا اس علاقےمیں آیا ہوں ۔ “ اکبر بھائی بولے۔ ” اس لئےمیں بھی وسنت کےبارےمیں زیادہ تفصیل سےنہیں بتاسکتا ۔ سنا ہےوہ اس علاقےکا لیڈر ہے‘ بلڈر ہے‘ دادا ہے‘ شاکھا پرمکھ ہےاور سب کچھ ہے۔
یہ وسنت کےآدمی تھے۔وسنت ایسا بھی کرتا ہےیا یہ سب بھی کرسکتا ہےمجھےیقین نہیں آرہا تھا لیکن یقین نہ کرنےکی کوئی وجہ بھی نہیں تھی ۔جو کچھ میں نےوسنت کےبارےمیں سن رکھا تھا ‘ جو کچھ اس کےبارےمیں اخبارات میں پڑھا تھا اس کےبعد وہ یہ کرسکتا ہےاس پر یقین نہ کرنےکا کائی جواز بھی نہیں تھا ۔
دراصل پانچ سال قبل تک وسنت میرا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا ۔ اس کی زندگی کےہر پہلو ہر دکھ سکھ کو میں جانتا تھا دراصل اسےاس شہر میں لانےوالا بھی میں ہی تھا ۔ لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں ایک بار بھی اس کا سامنا نہیں ہوسکا ۔ صرف اس کےبارےمیں ‘ میں سنتا رہا کہ وہ آج کل کہاں ہےاور کیا کر رہا ہےیا پھر اس کےبارےمیں اخباروں میں پڑھتا رہا ۔ یا کسی سیاسی جلسےمیں اسٹیج پر اسےدیکھ لیتا ۔ لیکن اس وقت وہ اسٹیج پر ہوتا اور میں تماشائیوں میں ۔
سات سال قبل میں وسنت کو اپنےساتھ اپنےآبائی گاو
¿
ں سےاس شہر میں لایا تھا ۔ وسنت سےبہت پرانی جان پہچان تھی ۔ گاو
¿
ں میں چھوٹےموٹےکام کاج کرکےوہ اپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ بھرتا تھا ۔ سال دو سال میں جب کبھی میں گاو
¿
ں جاتا وسنت سےملاقات ہوتی تو ادھر ادھر کی باتیں کرنےکےبعد وہ مجھ سےایک ہی استدعا کرتا تھا۔ ” سلیم بھائی ! گاو
¿
ں میں چھوٹےموٹےکام کرکےبڑی مشکل سےاپنا اور اپنےخاندان کا پیٹ پالتا ہوں ۔ بچت کےنام پر ایک پیسہ بھی پاس میں نہیں ہےجو آڑےوقت میں کام آئے۔ آپ تو شہر میں بہت بڑی کمپنی میں کام کرتےہیں ۔ آپ کی فیکٹری میں کام کرنےکےلئےمزدوروں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہوگی ۔ مجھےبھی فیکٹری میں کوئی کام دلا دیجئے۔
اسےفیکٹری میں لیبر کا کام دلانا میرےلئےکوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ لیکن میں اس بات سےڈرتا تھا کہ وہ گاو
¿
ں کا بھولا بھالا آدمی شہر کےمسائل اور مصائب کا سامنا نہیں کرسکےگا ۔ اس لئےاسےسمجھاتا تھا کہ گاو
¿
ں میں اسےجو آدھی روٹی مل رہی ہے۔ وہیٹھیک ہے۔ لیکن اس کےبہت زور دینےپر ایک دن میں اسےاپنےساتھ شہر لےآیا۔ اس وقت میں شہر کی ایک چال میں رہتا تھا ۔ دو دنوں تک وہ میرےگھر میں ہی رہا ۔ ہم جو کھاتےہمارےساتھ کھاتا اور دروازےکےپاس بستر لگا کر ٹھٹھر کر پڑا رہتا ۔
دو دنوں کےبعد میں اسےاپنی فیکٹری کےمنیجر کےپاس لےگیا اور اس کا تعارف کراتےہوئےکہا ۔ ” منیجر صاحب ! میرےگاو
¿
ں کا آدمی ہےبہت محنتی اور ایماندار ہےاسےکوئی کام دےدیجئے۔
منیجر نےمیرےکہنےپر اسےفوراً کام پر لگا دیا ۔ اس دن سےوہ میرےساتھ ہی کام پر جانےلگا ۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلتے۔ وہ نیچےفیکٹری میں جاکر مشینوں پر کام کرتا اور میں اوپر آفس میں کاغذات میں سر کھپاتا ۔
ایک مہینےتک وہ میرےگھر میں رہا ۔ وہ سویرےپانچ بجےہی اٹھ جاتا تھا ۔ نہا دھوکر مندر جاتا اور آتےوقت گھر کا ضروری سامان لےآتا ۔ پھر ہم ساتھ ناشتہ کرتےاور ساتھ میں ٹفن لےکر آفس جاتے۔ واپسی میں ہمارےراستےالگ الگ ہوتےتھے۔ وسنت کےلئےشہر نیا تھا اس لئےوہ گھومنےپھرنےکےلئےنکل جاتا تھا ۔ آٹھ بجےوہ گھر واپس آتا ۔ ہم ساتھ رات کا کھانا کھاتےاس کےبعد وہ اس محلےکی ایک بھجن کیرتن منڈلی میں بھجن گانےچلا جاتا تھا ۔ رات بارہ بجےکےقریب وہ وہاں سےآتا تھا ۔ ہفتےمیں دو تین اپواس ( روزے) ضرور کرتا تھا ۔ وہ سات مختلف دیوتاو
¿
ں کو مانتا تھا ۔ یہ دن اس نےطےکر رکھا تھا کہ اس دن کس دیوتا کےمندر جایا جائے۔
جب پہلی تنخواہ اس کےہاتھ میں آئی تو ان پیسوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ” سلیم بھائی ! میں نےزندگی میں خود کےاتنےپیسےنہیں دیکھے۔ “ اس نےکھانےکےپیسےدینےچاہےمگر میں نےانکار کر دیا ۔
اس کےبعد اپنےگھر والوں کو شہر لانےکی اس میں دھن سمائی لیکن شہر میں رہنےکےلئےکوئی ٹھکانہ حاصل کرلینا اتنا آسان نہیں تھا ۔ وہ دو تین مہینوں تک اس ٹھکانےکےلئےدردر بھٹکتا رہا۔
ایک دن آیا تو بہت خوش تھا ۔ ”ایک جگہ کسی کی زمین پر غیر قانونی جھونپڑےبن رہےہیں میں نےبھی ایک جھونپڑا بنا لیا ہے۔ اب میں وہیں رہوں گا ۔ کل ہی جاکر اپنےگھر والوں کو لےآتا ہوں ۔ “ دوسرےدن جاکر وہ اپنےبیوی بچوں کو لےآیا اور اس جھونپڑی میں رہنےلگا ۔ فیکٹری میں وہ محنت اور لگن سےکام کرتا تھا ۔ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا تھا ۔ اس کےبعد وہ کچھ بدمعاش قسم کےلوگوں کےہتھےچڑھ گیا ۔
فیکٹری میں ان لوگوں کی ایک یونین تھی ۔ وہ لوگ کام وغیرہ تو نہیں کرتےتھےاپنی یونین اور یونین کےلیڈروں اور اس یونین کی مدد کرنےوالی سیاسی پارٹی اور اس کےآقا کا نام لےکر ڈراتےدھمکاتےتھے۔ ان کےساتھ رہنےسےوسنت بھی ان کےجیسا ہوگیا ۔ کام میں اس کا دل نہیں لگتا ۔ بات بات پر وہ آفیسروں اور مالکوں سےالجھتا اور ہڑتال کرنےکی دھمکی دیتا اور کام بند کرادیتا تھا ۔ اس کی ان حرکتوں سےمنیجر اور مالک عاجز آگئےتھے۔ منیجر کےکہنےپر ایک دوبار میں نےبھی اسےسمجھایا تھا کہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سےاسےکام پر سےنکالا جاسکتا ہے۔ لیکن اس نےصاف جواب دےدیا تھا ۔
وہ لوگ مجھےکام سےنہیں نکال سکتے۔یونین ہمارےساتھ ہےہم فیکٹری کو جلا کر راکھ کردیں گے۔ اگر مالکوں نےہمارےخلاف کوئی قدم اٹھایا ۔
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ وسنت کو کام پر سےنکال دیا گیا ۔ وسنت نےاپنی یونین کی مدد سےہڑتال کی فیکٹری میں توڑ پھوڑ مچائی ۔ مجبوراً مالکوں نےوہ فیکٹری بند ہی کردی ۔ اس وقت تک میرا تبادلہ دوسرےآفس میں ہوچکا تھا ۔ اس کےبعد وسنت کی مجھ سےملاقات نہیں ہوسکی ۔ اس کےبارےمیں صرف خبریں ملتی رہیں ۔ اس کےبعد سنا کہ وہ شہر کی ایک سڑک کےنکڑ پر وڑا پاو
¿
کی گاڑی لگاتا ہے۔ اس میں اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ اور اس کےخاندان کا پیٹ پل جاتا ہے۔
پھر سنا کہ اس نےوہ گاڑی کسی کو کرائےپر دےدی کیونکہ اسےاس گاڑی کا اچھا خاصہ کرایہ مل رہا تھا ۔ جب اتنا زیادہ کرایہ مل رہا ہو تو پھر محنت کرنےکی کیا ضرورت ۔ وہ اس کرایےمیں اپنا گذر بسر کرنےلگا ۔
ایک دن خبر ملی جس جگہ پر وسنت جھونپڑا بنا کر رہتا ہےاس جگہ کا مالک اس جگہ پر تعمیر غیر قانونی جھونپڑےخالی کرا رہا ہے۔ اس کوشش میں ان جھونپڑےوالوں اور مالک کا ٹکراو
¿
ہوگیا ہے۔ اس ٹکراو
¿
میں جھونپڑےوالوں کی طرف سےوسنت پیش پیش ہے۔
ایک دن سنا کہ اس زمین پر تعمیر تمام جھونپڑےتڑوانےمیں اس زمین کا مالک کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کی اس کامیابی میں وسنت نےنمایاں رول ادا کیا ہے۔
مالک نےوسنت کو اپنی طرف سےملا لیا اور اسےاچھی خاصی رقم اس بات کےلئےدی کہ وہ ان لوگوں کو کسی طرح جگہ خالی کرنےکےلئےراضی کرلے۔ وسنت نےیہ کام کردیا ۔
اس نےایک مخصوص رقم ہر جھونپڑےوالےکو دی اور اسےجھونپڑا خالی کرنےکےلئےراضی کیا اور بدلےمیں ایک دوسری جگہ بتائی جہاں وہ جھونپڑا بنا کر رہ سکتےہیں ۔ ان لوگوں کو اور کیا چاہیئےتھا ۔ وہاں سےہٹنےکےلئےاچھی خاصی رقم مل رہی تھی اور رہنےکےلئےدوسری جگہ بھی مل رہی تھی ۔
وسنت نےایک دوسری زمین پر قبضہ کرکےان لوگوں کو ناجائز جھونپڑےبنانےمیں مدد کی ۔ اور ایک نئی جھونپڑا بستی تعمیر ہوگئی ۔ اس بستی کا مالک وسنت تھا ۔ وہ تمام جھونپڑےوالوں سےکرایہ وصول کرتا تھا اور وہ خوشی خوشی اسےکرایہ دیتےتھےکیونکہ اب وہی ان کا محافظ تھا ۔ اس درمیان وہ ایک سیاسی پارٹی کا رکن بن گیا تھا ۔ اس کےبعد وہ اس سیاسی پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینےلگا تھا جس کی وجہ سےاس کا اس سیاسی پارٹی میں مقام بن گیا تھا اور اس سیاسی پارٹی کی پشت پناہی مل جانےکےبعد اس کی طاقت بھی بڑھ گئی تھی اسےاس سیاسی پارٹی کی ایک شاخ کا پرمکھ بھی بنا دیا ۔ وہ اس سیاسی پارٹی کےپروگراموں ‘ مذہبی جلوسوں اور حکمراں کےجشن ولادت کےجلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔ اس دوران شہر میں ایک دو فرقہ ورانہ فسادات بھی ہوئے۔ ان فسادوں میں بھی وسنت نےبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
اس نےان فسادات میں سینکڑوں گھر جلائے۔ لاکھوں روپوں کا قیمتی سامان لوٹا کئی لوگوں کو زخمی کیا اور جان سےبھی مارا ۔ فسادات کےبعد بےشمار شکایتوں پر پولس نےاسےفساد کرنےکےالزام میں گرفتار بھی کیا لیکن دباو
¿
سےدو تین دنوں میں چھوڑ دیا ۔
اس کےپاس بےشمار دولت جمع ہوگئی تھی ۔ سیاست کےساتھ ساتھ وہ سماج سیوا کےنام پر بھی پیسہ جمع کرتا تھا ۔ اس کےبعد اس نےاپنا بزنس شروع کردیا ۔ وہ بلڈر بن گیا ۔ وہ شہر کی خالی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکےان زمینوں کےمالکوں سےاونی پونی قیمتوں پر وہ زمینیں حاصل کرلیتا اور ان پر عمارتیں بنا کر اونچی قیمتوں میں فروخت کرکےلاکھوں روپےکماتا ۔
جس پارٹی سےاس کا تعلق تھا اس کی ریاست میں حکومت قائم ہوجانےکے بعد وسنت کا رسوخ بڑھتا ہی گیا ۔ اس کےلئےکوئی بھی کام نا ممکن نہیں رہا ۔ وہ جائز نا جائز طریقوں سےزمینیں حاصل کرکےقانونی ‘ غیر قانونی طریقوں پر عمارتیں بنا کر فروخت کرتا اور پیسہ کماتا ۔ اس پورےعلاقےمیں اس کا دبدبہ سا چھایا ہوا تھا ۔ چھوٹےبڑےہر طرح کےجھگڑےنپٹانےکےلئےلوگ اس کےپاس جاتےتھےاور وہ اپنا مناسب حق محنت لےکر ان تمام تنازعات کو حل کردیتا تھا ۔
وہ اگر غلط بھی کرتا تھا تو اسےٹوکنےکی کسی میں ہمت ہی نہیں ہوتی تھی ۔ وہ کئی قتل کےکیسوں میں ملوث تھا لیکن پولس اس پر ہاتھ ڈالنےکی ہمت نہیں کرتی تھی نہ کوئی اس کےخلاف زبان کھولتا تھا ۔
اس چھوٹی سی چال کےچھوٹےسےکمرےرہتےرہتےمیں تنگ آگیا تھا ۔ اتنےدنوں میں میں نےاتنےپیسےجمع کرلئےتھےکہ میں کسی اچھی جگہ اچھا سا فلیٹ لےسکوں۔ اگر پیسےکم بھی پڑیں تو سرکاری ، غیر سرکاری قرضہ جات کا سہارا تھا ۔ اس درمیان ایک اسٹیٹ ایجنٹ نےاس کالونی میں بکنےوالےایک فلیٹ کےبارےمیں مجھےبتایا ۔ پہلی نظر میں مجھےفلیٹ اور کالونی پسند آگئی ۔ فلیٹ خرید لیا گیا اور ہم وہاں رہنےکےلئےآگئے۔ وہاں آنےکےبعد پتہ چلا کہ یہ وسنت کا علاقہ ہےاور وہاں رہنےکےلئےبھی وسنت کو ہفتہ دینا پڑتا ہے۔ ان باتوں کےبعد وسنت سےملنےکی خواہش دل میں جاگی ۔ لیکن پتہ نہیں تھا کہ وسنت سےملنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وسنت جن لوگوں سےملنا ضروری سمجھتا ہے۔ انہی سےملتا ہےجن سےاسےکوئی فائدہ ہو ۔
وسنت سےملنا تو بہت ضروری تھا ۔ لیکن اس سےملنےکا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ آخر اس سےملنےکا میں نےراستہ سوچ لیا ۔ اگلی بار دامو جب وسنت کا ہفتہ مانگنےآیا تو میں نےہفتہ دینےسےانکار کردیا اور کہا کہ میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔
اےکاہےکو اپنی موت کو دعوت دےرہا ہے۔ بھاو
¿
سنےگا کہ تیرےکو اس لئےاس کےپاس لایا کہ تُونےہفتہ دینےسےانکار کیا ہےتو کچھ سننےسےپہلےتجھ پر چاقو کےدوچار وار مار کر تجھےادھ مرا کردےگا ۔
کچھ بھی ہو میں وسنت سےملنا چاہتا ہوں ۔ “ جب میں نےاصرار کیا تو وہ مجھےوسنت کےقلعہ میں لےگئے۔ وہ قلعہ وسنت کا آفس تھا جہاں بیٹھ کر وہ ہر کسی کا انصاف کرتا تھا ۔ عالیشان ڈرائنگ روم جس میں ساری دنیا کےعیش و آرام کی لاکھوں کروڑوں روپوں کی چیزیں سجی تھیں ۔ وسنت کی دولت اور اس کی بلندی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ۔ میں نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرےساتھ اس شہر میں آنےوالا وسنت اتنی جلدی اس بلندی پر پہنچ جائےگا اور میں اسےنیچےسےتاک کر اس کےسامنےبونا بن جاو
¿
ں گا ۔
بھاو
¿ …. !
یہ شخص نیا نیا کالونی میں رہنےآیا ہےاور ہفتہ دینےسےانکار کر رہا ہے۔ اور آپ سےملنا چاہتا ہے۔
کون ہےوہ حرامزادہ جو مجھےہفتہ دینےسےانکار کرر ہا ہے۔ “ دامو کی بات سنتےہی وسنت غصےمیں بھرا مڑا ۔ مجھ پر نظر پڑتےہی وہ ٹھٹھک کر رہ گیا اور کچھ سوچنےلگا ۔
سلیم بھائی آپ ! “ وہ مجھےحیرت سےدیکھتا ہوا بولا ۔
ہاں وسنت …. ! میں ۔ “ میں نےجواب دیا ۔
ارےآئیےسلیم بھائی ! میں نےتو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کبھی آپ سےاس طرح ملاقات ہوگی ۔ سلیم بھائی ! اتنےدنوں بعد آپ کو دیکھ کر میں کہہ نہیں سکتا مجھےکتنی خوشی ہورہی ہی۔ “ ہم دونوں پاس بیٹھ گئےاور باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ وہ مجھےبتانےلگا کہ وہ کس طرح اس مقام پر پہنچاہے۔ اور میں چپ چاپ دیکھتا رہا ۔
سلیم بھائی ! آپ مجھےاس طرح کیوں دیکھ رہےہیں ؟ “ وہ آخر پوچھ بیٹھا ۔
دیکھ رہا ہوں۔ میرےساتھ آیا ہوا گاو
¿
ں کا بھولا بھالا وسنت پوار کتنی جلدی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔
سلیم بھائی ! وسنت پوار بہت جلد بہت بلندی پر پہنچا ضرور ہے۔ “ وسنت درد بھرےلہجےمیں بولا ۔ ” لیکن اس بلندی تک پہنچنےکےلئےاس نےاپنےاندر کی تمام اچھائیوں ، اخلاقیات ، اوصاف کو قتل کرکےان کی لاشوں کی سیڑھی بنا کر اس بلندی کو حاصل کیا ہے۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Paras By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Paras, Short Story, Urdu

افسانہ

پارس

از:۔ایم مبین

کشن گرام پنچایت کےباہر ہی مل گیا ۔
کیا ہوا ‘ کیا کام ہوگیا ۔
نہیں سیٹھ “ کشن نےمایوسی سےکہا ۔ ” سیکریٹری بہت حرامی ہے۔ وہ اس طرح کا سرٹیفکیٹ دینےکےلئےدو ہزار روپےمانگ رہا ہے۔ ہزاروں قانون بتا رہا ہے۔ جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپ بےکار ہی ان باتوں کےلئےپریشان ہورہےہیں ۔ اپنےکھیت میں کنواں کھودنےکےلئےگرام پنچایت یا کہیں سےبھی کسی اجازت نامےکی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ میری زندگی گذر گئی میری آنکھوں کےسامنےہزاروں کنویں اس گاو

¿ں میں اور دوسرےگاو

¿پنچایت سےاجازت نامہ نہیں لیا ۔ آپ کام شروع کردیجئے۔ اگر کسی نےٹانگ اڑانےکی کوشش کی تو اس کی ٹانگ توڑ دوں گا ۔
آخر میں کشن کا چہرہ غصےسےلال ہوگیا ۔
کشن یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ اپنی زمین میں کنواں کھودنےکےلئےکسی سےبھی کسی قسم کےاجازت نامےکی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ “ میں نےاسےسمجھاتےہوئےکہا ۔ ” لیکن میں اس کنویں کو کھودنےکےلئےبینک سےقرض لےرہا ہوں ۔ اور اس قرض کو حاصل کرنےکےلئےبینک کو گرام پنچایت کی طرف سےاس طرح کا تحریر نامہ دینا بہت ضروری ہےکہ اس کنویں کی کھدائی پر گرام پنچایت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس اسی لئےوہ داخلہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
وہ حرامی جانتا ہوگا کہ اس قسم کا سرٹیفکیٹ بینک لون کےلئےلگتا ہے۔ اسی لئےدو ہزار مانگ رہا ہے۔ “ کشن دانت پیس کر بولا ۔ ” نیچ ذات کا جو ہے۔ “ ” کیا مطلب ؟ “ میں کشن کا چہرہ تاکنےلگا ۔
ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔ کیونکہ آپ کےیہاں ذات پات کا کوئی رواج نہیں ہے۔ “ کشن بولا ۔ ” سرکار نےان لوگوں کو ذات کےنام پر سینکڑوں سہولتیں دےرکھی ہیں ۔ اب دیکھئےنہ پتہ نہیں کس طرح یہ طےہےکہ اس گاو

¿اور اسےیہ نوکری مل گئی قابلیت کےنام پر وہ صرف میٹرک پاس ہے۔ میں اس کےسارےخاندان سےواقف ہوں اس کا باپ در درکی بھیک مانگتا تھا ۔ آج ریزرویشن کی وجہ سےان کو بڑےبڑےعہدےمل گئےہیں تو اپنی اوقات بھول گئےہیں ۔ ارےبڑا عہدہ مل جانےسےکوئی ذات تھوڑی بدل جاتی ہے۔
اب کشن ! چھوڑو ان باتوں کو ۔ “ میں نےموضوع بدلنےکےلئےکہا ۔ ” اس کےلئےکوئی دوسرا راستہ نکالتےہیں ۔ آو

¿
ہم دونوں کھیت کی طرف چل دئے۔
اچانک راستےمیں پوپٹ مل گیا ۔
مجھےدیکھتےہی پوپٹ حیرت میں پڑ گیا ۔ او رمیں اپنےسر پر ہاتھ پھیرنےلگا کہ یہ مصیبت کہاں مل گئی ۔
ارےاقبال سیٹھ ! آپ یہاں کہاں ؟
اس گاو

¿نےبیزاری سےجواب دیا ۔
ارےاقبال سیٹھ ! یہ گاو

¿

¿! اقبال سیٹھ جیسا ہیرا آدمی اس دنیا میں ڈھونڈنےسےنہیں ملےگا ارےیہ دل کےراجہ ہیں ۔ آج تک کوئی ان کےدر سےخالی ہاتھ نہیں گیا ۔
اس نےاپنےروایتی انداز میں کہنا شروع کیا ۔
میں سمجھ نہیں سکا کہ وہ اس وقت شراب کےنشےمیں ہےیا پھر پورےہوش و حواس میں ہے۔ کبھی کبھی میرےلئےاسےپہچاننا بہت مشکل ہوجاتا تھا ۔ کہ اس نےشراب پی رکھی ہےیا نہیں ۔
کیونکہ وہ شراب کےنشےمیں بھی اسی طرح کی باتیں کرتا تھا جس طرح کی باتیں ہوش میں کیا کرتا تھا ۔
سیٹھ ! آپ کیا اسےپہچانتےہیں ۔ “ کشن آکر میرےکانوں میں بدبدایا ۔ ” میں اسےبرسوں سےجانتا ہوں ۔ “ میں نےجواب دیا ۔ ” کیوں کیا بات ہے؟ “ ” اس کا بیٹا گرام پنچایت کا سیکریٹری ہےجو اس معمولی سرٹیفکیٹ کےلئےہم سےدو ہزار روپےمانگ رہا ہے۔ “ کشن بولا
کیا کہتےہو ؟ “ میں حیرت میں پڑ گیا ۔ ” کیا پوپٹ کا لڑکا گرام پنچایت کا سیکریٹری ہے؟
ہاں ! “ کشن نےجواب دیا ۔
کیا بات ہےاقبال سیٹھ ! آپ کیا باتیں کررہےہیں ؟ “ پوپٹ نےپوچھا ۔
پوپٹ تمہارا بیٹا کیا اس گاو

¿! آپ کی دعاو

¿

¿لڑکی بینک میں کام کرتی ہےاور ایک لڑکا نائب تحصیلدار ہے۔
پوپٹ کیا کہہ رہےہو تم ؟ “ میں حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔
ہاں سیٹھ ! اب میں پرانا والا پوپٹ نہیں ہوں ۔ جو ایک ایک دو دو روپیوں کےلئےآپ کو گھنٹوں تنگ کیا کرتا تھا ۔ بھگوان کےدئےسےاب میرےپاس اتنا ہےکہ آج میرےجیسےکئی لوگوں کی روزانہ آپ کی طرح مدد کرتا ہوں ۔ “ پوپٹ کہنےلگا ۔ ”ابھی گذشتہ سال پچاس ایکڑ کھیت لیا ہے۔ اس کھیت میں رہنےکےلئےایک بنگلہ بنایا ہے۔ کھیت جوتنےکےلئےخود کا ٹریکٹر ہے۔ دونوں لڑکوں کےپاس موٹر سائیکل ہے۔ گھر میں رنگین ٹی وی اور خود کا ڈش انٹینا ہے۔ آج کیا نہیں ہےمیرےپاس ۔ “ وہ بتانےلگا تو میں حیرت سےاس کا منہ تکنےلگا ۔
کل تک ایک ایک پیسےکےلئےمحتاج رہنےوالا یہ پوپٹ آج اتنا صاحب حیثیت بن گیا ہےمجھےیقین نہیں آرہا تھا ۔
میری آنکھوں کےسامنےوہ پوپٹ گھوم رہا تھا جو ایک ایک روپیہ کےلئےمجھےگھنٹوں تنگ کیا کرتا تھا ۔
کالج کا زمانہ تھا ۔
پڑھائی کےلئےمیں نےگھر سےقریب ایک کمرہ لےرکھا تھا ۔ اس کمرےمیں کالج سےآنےکےبعد میں پڑھائی کرتا تھا ۔ اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرتا اور لکھتا رہتا تھا ۔ وہ کمرہ میرےدوستوں کا اڈا بھی تھا ۔
کالج سےآنےکےبعد تمام دوست اس جگہ جمع ہوجاتےتھےاور گپ شپ چلتی تھی ۔ کبھی تاش کھیل رہےہیں تو کبھی شطرنج کی بازی لگی ہے۔ کبھی ریڈیو سےفلمی گیت سنےجارہےہیں ۔ کہیں اگر ٹسٹ میچ یا ون ڈےانٹرنیشنل ہورہا ہےتو میرےاس کمرےمیں میلہ لگا رہتا تھا۔ ریڈیو سےنشر ہونےوالی کامینٹری سننےکےلئےاور کبھی کبھی صرف اسکور جاننےکےلئےدور دور سےلوگ وہاں آتےتھے۔ آدھی رات تک اس جگہ میلہ لگا رہتا تھا ۔
میں تو وہیں سوتا تھا ۔ میرےکئی دوست ایسےتھےجو مستقلاً میرےساتھ اسی کمرےمیں سوتےتھے۔ کبھی کبھی کسی کےگھر مہمان آجاتےتھےتو مہمان بھی اسی کمرےمیں آکر سوتےتھے۔ مٹی کی دیواروں والا کمرہ تھا جس کی دیواریں بڑی پیچ و خم والی تھیں ۔ کہیں سےابھری ہوئی تو کہیں سےاند ر گئی ۔ فرش بھی مٹی کا تھا ۔ وہاں اتنےلوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی کہ وہ بار بار اکھڑ جاتا تھا اور پورےکمرےمیں مٹی ہی مٹی رہتی تھی ۔ ہر سال بارش میں بھیگنےکےکےبعد کمرےکی دیوار کا کوئی نہ کوئی کونا ضرور گرجاتا تھا ۔ سال بھر اس کمرےکی مرمت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اور مرمت ہوتی رہتی تھی ۔ بارش میں گیلا ہونےکےبعد دروازےکےپاس والی دیوار کا ایک حصہ گرگیا تھا اور اس کی مرمت کی ضرورت تھی ۔ اس کی مرمت کےلئےپہلی بار میرےبڑےبھائی نےپویٹ کو میرےپاس لایا تھا ۔ بھائی کی اس طرح کےلوگوں سےکافی جان پہچان تھی ۔ پوپٹ سےبھی شاید کافی پہلےسےجان پہچان تھی ۔ جس کام کےلئےپوپٹ کو میرےپاس لایا گیا تھا اس کام کو انجام دینےکےلئےپوپٹ کافی مناسب داموں میں تیار ہوگیا تھا۔
مٹی کی اینٹیں بنانی تھیں ۔ انہیں سوکھنےکےبعد ان ہی اینٹوں سےدیوار بنانی تھی اور پھر اسی دیوار کا پلاسٹر بھی کرنا تھا ۔ کام دو تین دنوں کا تھا ۔ مجھےاس کام کےلئےگھر سےکوئی اعانت ملنےوالی نہیں تھی اسےاپنی جیب خرچ سےانجام دینا تھا ۔ بیس روپےمیں پوپٹ وہ کام کرنےکےلئےتیار ہوا تھا ۔
پہلےدن اس نےاینٹیں بنائیں ۔ ان اینٹوں کو بنانےکےلئےاس نےگٹر کا پانی استعمال کیا ۔ گٹر کا پانی استعمال کرنےپر میں نےسخت اعتراض کیا لیکن ان دنوں پینےکےلئےپانی ملنا مشکل تھا تو بھلا اینٹیں بنانےکےلئےپانی کہاں سےمل سکتا تھا ؟
شام کو کام پورا کرنےکےبعد اس نےاپنی مزدوری کےسات روپےمانگےجو میں نےخوشی خوشی دےدئے۔ اس کےبعد وہ مجھ سےایک روپیہ خوشی سےدینےکی ضد کرنےلگا ۔ میں نےانکار کیا تو وہ میری منت سماجت کرنےلگا ۔
اقبال سیٹھ ! بہت تھک گیا ہوں ۔ ایک روپیہ کی پی لوں گا تو تھکن اتر جائےگی۔
آخر پیچھا چھڑانےکےلئےمجھےایک روپیہ دینا پڑا ۔
بقیہ دودنوں میں اس نےدیوار بنا ڈالی اور ہر دن انعام کےطور پر منت سماجت کرکےمجھ سےایک روپیہ لےجاتا ۔ اس کےبعد میرےپاس آنا اس کا معمول بن گیا ۔ جس دن اسےکام نہیں ہوتا وہ میرےپاس آتا ۔
سیٹھ ! چائےپلائیے۔
وہ جب بار بار ضد کرنےلگتا تو میں اسےچائےلانےکےلئےکہتا وہ ہوٹل جاکر خود اپنےلئےاور میرےلئےچائےلاتا اور چائےپی کر کہیں چلا جاتا ۔ لیکن شام کو پھر نازل ہوجاتا ۔ اور اس کا ایک روپیہ یا دو روپیہ کا سوال ہوتا تھا ۔
سیٹھ ! آج کوئی کام نہیں ملا ۔ واپس گاو

¿
سیٹھ ! دو روپیہ دےدیجئے۔ دال سبزی تیل وغیرہ لےکر جاو

¿
سیٹھ ! بہت تھک گیا ہوں شراب پینےکےلئےایک روپیہ دےدیجئے۔
پیسوں کےلئےوہ مجھےاتنا تنگ کرتا تھا اور ایسی ایسی منت سماجت اور حرکتیں کرتا تھا کہ مجھےاسےپیسےدےکر پیچھا چھڑانےمیں ہی عافیت نظر آتی تھی ۔
میری اماں سےبھی اس نےخاصی جان پہچان بنا لی تھی ۔ جس دن وہ کھانےکےلئےکچھ نہیں لاتا تھا سیدھا اماں کےپاس پہنچ جاتا تھا ۔ ” ماں ! آج کھانےکےلئےکچھ نہیں لایا ہوں کچھ کھانےکےلئےہو تو دےدیں ۔ “ اماں اسےکھانےکےلئےدےدیتی تھیں ۔ بدلےمیں وہ اماں کےچھوٹےموٹےکام کردیا کرتا تھا ۔
میری اماں کو جتنا اس سےانسیت تھی میرےابا کو اس سےاتنی ہی سخت چِڑھ تھی کہ اسےدیکھتےہی وہ چراغ پا ہوجاتےتھے۔ ” تُو یہاں کیوں آیا ہے‘ چل باہر نکل ۔
اور وہ ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔ کبھی کبھی تو عضےمیں ابا اسےگالیاں بھی دےدیتےتھے۔ لیکن وہ ان کا کبھی برا

نہیں مانتا تھا ۔ اکثر ایسا ہوا کہ ابا نےاس سےکو ئی کام کرنےکےلئےکہا اور اس نےکام بگاڑ دیا تو اس کےبعد وہ کئی دنوں تک ابا کےعتاب کا شکار رہتا تھا ۔ اسےدیکھتےہی ابا اس پر برس پڑتےتھےاور وہ ہنستا رہتا تھا ۔
اقبال سیٹھ ! ابا کو سمجھائیے۔ ایک بار غلطی ہوگئی بار بار نہیں ہوگی ۔
اس کی بیوی کھیتوں میں کام کرتی تھی ۔ اس کےتین بیٹےاور دو بیٹیاں تھیں سب بچےاسکول جاتےتھے۔ وہ ان کو باقاعدگی سےاسکول بھیجتا تھا ۔
سیٹھ ! بچےپڑھنےمیں سب تمہاری طرح ہی ہیں ۔ بہت پڑھتےہیں اور اچھا پڑھتےہیں ۔ “ وہ بچوں کی تعلیم کےمعاملےمیں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا ۔ اکثر آکر مجھےبتاتا رہتا تھا ۔
سیٹھ ! لڑکےنےایک کتاب مانگی تھی آج کام کرنےسےجو بھی مزدوری ملی اسی سےکتاب لےلی ۔ “ بچوں نےکاپیاں مانگی ہیں آج کوئی کام ملا تو ان کےلئےکاپیاں خریدوں گا ۔ “ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن وہ شراب نہیں پیتا تھا ۔ جہاں اسےکوئی اچھا کام ملتا تھا وہ شراب پی کر میرےپاس آتا تھا ۔ اور سائیکل کےکرایےکےلئےمجھ سےایک روپیہ مانگتا تھا ۔
کبھی کبھی وہ میرےدوستوں کےلئےنشےکی حالت میں کافی دلچسپی کا سامان بن جاتا تھا ۔ وہ اس سےطرح طرح کی حرکتیں کرواتےتھےاور جب وہ ایسا کرتا تو سب لطف اندوز ہوتےتھے۔
ایک دوبار وہ گھر کےتانبےپیتل کےبرتن فروخت کرنےکےلئےلایا ۔ یہ دیکھ کر میں اس پر غصہ ہوگیا ۔
گھر کےان برتنوں کو بیچ کر کیا شراب پیئےگا ؟
نہیں سیٹھ ! “ وہ عاجزی سےبولا ۔ بچوں کےامتحان کی فیس بھرنی ہے۔ میرےپاس تو پیسےنہیں ہیں اس لئےسوچا ان برتنوں کےفروخت کرنےسےاتنےپیسےتو مل ہی جائیں گےجن سےان کی فیس ادا ہوجائےگی ۔
میرےپاس بھی اتنےپیسےنہیں تھےکہ میں اسےادھار دےکر برتن بیچنےسےباز رکھتا ویسےبھی اس نےمجھ سےادھار لئےروپےکبھی واپس نہیں کئے۔
پھر اس کےبعد تعلیم مکمل کرنےکےبعد میں نوکری کےسلسلےمیں دوسرےشہر چلا گیا اور اپنےشہر سےرابطہ ٹوٹ سا گیا ۔ سال چھ مہینےمیں کبھی ایک دو دنوں کےلئےجانا ہوتا تو وہ مل جاتا اور ملتےہی دعائیں دینےلگتا ۔
اقبال سیٹھ ! تم تھےتو بچوں کی تعلیم کےسلسلےمیں بہت سےمفید مشورےملتےتھے۔ بچےتو اب بھی پڑھ رہےہیں ۔ مگر ان کی تعلیم میں تمہارےمشوروں کی کمی ہے۔ “ اس کےبعد وہ مجھ سےپیسہ لینا نہیں بھولتا تھا ۔
اب اس کی مانگ ایک دو روپیہ سےبڑھ کر دس روپےہوگئی تھی ۔ اور دس روپےدینا بھی میرےلئےکوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ میں اسےپیسہ دیتا تھا لیکن پہلےہی کی طرح پریشان کرنےکےبعد ۔
اس کےبعد کئی سالوں تک میرا اپنےشہر جانانہیں ہوا ۔ ملازمت اور گھر کےجھمیلوں میں بری طرح پھنسا رہا ۔ کچھ پیسہ جمع ہوا تو سوچا اس سےکچھ زمین خرید لوں گا ۔
ایک چھوٹا سا کھیت اچھےداموں پر مل گیا ۔ کھیتی کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایک سال میں اس کھیت میں کاشت کرنی پرتی ہے۔ اس کےبعد ہی کھیت نام پر ہوتا ہےوہ کام بھی ہوگیا کھیت کی دیکھ بھال کےلئےایک آدمی کشن کو میں نےرکھ لیا ۔
وہ بڑی محنت سےکھیت کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔ ویسےبھی اس کھیت سےمجھےکسی آمدنی کی توقع تو نہیں تھی اس کھیت کی آمدنی اسی کھیت میں لگتی رہےمیں یہی چاہتا تھا ۔
کنواں کھودنےکےلئےسرکار سےقرض لینےکی سوچی ۔ سرکار اس طرح کےکاموں پر کافی رقم رعایتوں کےساتھ قرض دیتی ہے۔ مجھےعلم تھا ۔ دوسرےتمام کاغذات موجود تھے۔ قرض پاس کرانےکےلئےصرف ایک کاغذ کی کمی تھی ۔ جسےلانےکےلئےکشن کو گرام پنچایت بھیجا تھا ۔ مجھےمعلوم ہی نہیں تھا کہ اس گرام پنچایت کا سیکریٹری پوپٹ کا لڑکا ہے۔ ورنہ یہ کام بہت آسانی سےہوجاتا تھا کیونکہ وہ مجھےاچھی طرح پہچانتا تھا ۔
اس کام کےنا ہونےسےہم مایوس ہوکر لوٹ رہےتھےکہ راستےمیں پوپٹ مل گیا ۔ اور میں اس کےبارےمیں سوچنےلگا ۔ یہی سوچتےسوچتےہم کھیت تک آگئے۔
سیٹھ ! کیا سوچ رہےہیں ۔ “ پوپٹ نےمجھےٹوکا ۔
پوپٹ پنجابا گھیور ! “ میں نےاس کا نام دوہراتےہوئےکہا ۔ ” تُو تو بہت بڑا آدمی بن گیا رے۔
کیا بڑا آدمی سیٹھ ؟ “ وہ بولا ۔ ” میں تو آج بھی آپ کےلئےوہی پرانا پوپٹ ہوں ۔ بڑےآدمی کا جہاں تک سوال ہےسب اوپر والےکا کرم اور سرکاری سہولتوں کی عنایت ہے۔ جو میرا خاندان اس مقام تک پہنچا ہے۔ آپ تو جانتےہیں ہمارا تعلق نچلےطبقہ سےہےاور پس ماندہ ذاتوں کو سرکار نےریزرویشن کی سہولت دےرکھی ہے۔ اس کا فائدہ میری اولاد کو ملا ہے۔ ریزرو سیٹ پر میرےدو لڑکےپولس سب انسپکٹر اور نائب تحصیلدار بن گئےاسی سہولت کی وجہ سےلڑکی کو بینک میں نوکری مل گئی ہےاور اسی سہولت کا فائدہ اٹھاتےہوئےایک لڑکا اس گرام پنچایت کا سیکریٹری بن گیا ہےاور تو اور سیٹھ ! مجھےایک پارٹی الیکش ٹکٹ بھی دےرہی ہےمیں جس گاو

¿لڑنےکےلئےایک اعلیٰ ذات کاامیدوار پارٹی کےپاس نہیں ہے۔ میں اس پارٹی کا ممبر ہوں اس لئےاس بار انہوں نےمجھےٹکٹ دینےکا فیصلہ کیا ہےمیں الیکشن جیت جاو

¿پارٹی تن من دھن کی بازی لگادےگی ۔
وہ بتانےلگا اور میں حیرت سےاسےدیکھنےلگا ۔
ایک معمولی آدمی اتنا بڑا اور اہم آدمی بن جائےگا اور اتنی ترقی کرجائےگا میں نےتو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ آج اس کی ذات کو ملنےوالی سہولتوں کی وجہ سےاس کےتمام بچےاچھےعہدوں پر فائز ہیں ۔ اب یہ دیگر بات ہےکہ وہ ان عہدوں کےقابل ہیں یا نہیں یا ان سےزیادہ قابل لوگ ان عہدوں اور ان سےچھوٹی چھوٹی نوکریوں کےلئےدر در بھٹک رہےہیں ۔
پوپٹ ! میرا ایک چھوٹا سا کام کردو ۔
بولو سیٹھ ! “ وہ سعادت مندی سےبولا ۔ تو میں نےاسےکام بتایا ۔
ابھی لو سیٹھ ! ابھی جاکر وہ سرٹیفکیٹ لےکر آتا ہوں ۔ اس کمینےنےآپ کےاتنےسےکام کےلئےآپ سےاتنےپیسےمانگے؟ ابھی اسےمزہ چکھاتا ہوں ۔ لیکن سیٹھ ! اس کی غلطی نہیں ہی۔ اسےمعلوم نہیں ہوگا کہ یہ اقبال سیٹھ کا کام ہے۔ “ آدھےگھنٹےکےاندر وہ سرٹیفکیٹ لےآیا ۔
اس کی لڑکی اسی بینک میں کام کرتی تھی جہاں مجھےکنواں کھودنےکےلئےقرض پاس کروانا تھا ۔ اس کی وجہ سےایک دن میں میرا وہ کام بھی ہوکر پیسہ بھی مل گیا ۔ اس کےعلاوہ اس کا ایک بیٹا جو تحصیلدار تھا ۔ اس نےمیری زمین کےلئےکئی سرکاری سہولتیں بھی دےدیں ۔
میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ کبھی پوپٹ میرےاتنےکام آئےگا ۔ سارےکام ہوجانےکےبعد وہ اس دن بھی شراب پینےکےلئےمجھ سےدس روپےلینا نہیں بھولا ۔
جسےہر کوئی پتھر سمجھتا تھا ۔ کبھی اس طرح سےپارس بن جائےگا کسی نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Sail By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Sail, Short Story, Urdu

افسانہ

سائل

از:۔ ایم مبین

امام نےسلام پھیرا اور اسی وقت عقب سےابھرنےوالی آواز کو سن کر تمام نمازی پیچھےمڑ کر دیکھنےلگے۔ ایک شخص کھڑا تھا ۔
برادران ! میرا تعلق ریاست بہار سےہے۔ میری لڑکی کےدل کا آپریشن ہونےوالا ہےاس سلسلہ میں ‘ میں یہاں آیا ہوں ۔ آپریشن کےلئےلاکھوں روپیہ درکار ہے۔ آپ کی اعانت کا قطرہ قطرہ مل کر میرےلئےسمندر بن جائےگا ۔ میری بیٹی کی جان بچ جائےگی ۔ میری بیٹی کی جان بچا کر ثواب دارین حاصل کریں ۔ “اس شخص کی آواز سن کر کچھ نمازیوں کےچہروں پر ناگواری کےتاثرات ابھرےکچھ غیض و غضب بھری نظروں سےاسےدیکھنےلگے۔ کچھ بڑبڑانےلگے۔
لوگوں نےدھندا بنا لیا ہے۔ خدا کےگھر میں بیٹھ کر بھی جھوٹ بولتےہیں ۔
خدا کےگھر ‘ نماز کا بھی کوئی احترام نہیں ۔ نماز ختم بھی نہیں ہوئی اور حضرت شروع ہوگئے۔
نماز کےدوران اس قسم کےاعلانات پر پابندی لگادینی چاہیئے۔ “ باتوں کا سلسلہ درمیان میں ہی منقطع ہوگیا ۔ کیونکہ امام نےدعا کےلئےہاتھ اٹھالئےتھے۔
پتہ نہیں کیوں اس شخص کی بات سن کر ان کےدل میں ایک ہوک سی اٹھی ۔ اس شخص کےبیٹھ جانےکےبعد بھی وہ بار بار اسےمڑ کر دیکھتےرہے۔ انہیں اس شخص کا چہرہ بڑا مسکین محسوس ہوا ۔ انہیں ایسا لگا جیسے یہ شخص سچ مچ مدد کا طالب ہےاور یہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ اسےایسا سچ مچ اپنی بیٹی کی جان بچانےکےلئےمدد درکار ہے۔ دعا ختم ہوگئی اور وہ اسی بارےمیں سوچتےرہے۔ وہ مسجد سےباہر نکلےتو انہیں وہ شخص مسجد کےدروازےکےپاس ایک رومال پھیلائےبیٹھا دکھائی دیا ۔ رومال میں کچھ سکےاور ایک دو ‘ ایک دو روپیہ کی نوٹیں پھیلی تھیں ۔ ایک لمحہ کےلئےوہ رک گئےجیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسوں کا اندازہ لگانےلگےاور آگےبڑھ گئے۔
گھر آئےتو بہو اور بیٹا ایک آدمی کےساتھ باتیں کررہےتھے۔
اگر آپ سیلنگ لگاتےہیں ؟“ وہ آدمی کہہ رہا تھا ۔ ” تو میں آپ کو بالکل نئےطرز کی سیلنگ لگا کر دوں گا ۔ اس طرح کی سیلنگ میں نےایک فلم اسٹار کےبیڈروم میں لگائی ہے۔ ایک بڑی کمپنی کےآفس میں بھی اسی طرح کی سیلنگ ہے۔ اگر آپ صرف سیلنگ لگائیں گےتو پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکا خرچ پچیس ہزار روپےکےقریب آئےگا ۔ اگر آپ سیلنگ صرف بیڈروم میں لگانا چاہتےہیں تو دس ہزار روپےکےقریب خرچ آئےگا ۔
پورےفلیٹ میں سیلنگ لگانےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ صرف بیڈ روم میں ہی سیلنگ لگائیں گے۔ “ بہو بیٹےکی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھ رہی تھی ۔ ابھی گذشتہ سال ہی تو بیس ہزار روپےخرچ کرکےسیلنگ لگوائی تھی ۔ ” اتنی جلدی سیلنگ بدلنےکی کوئی صرورت نہیں ہےہاں بیڈروم میںسیلنگ بدلنےکی سخت ضرورت ہےکیونکہ بیڈروم میں نیا پن تو ہونا چاہیئے۔
ٹھیک ہے! “ بیٹا اس آدمی سےکہنےلگا کہ تم کل آفس آکر پانچ ہزار روپےاڈوانس لےلینا اور پرسوں سےکام شروع کردینا ۔ کام دو تین دنوں میں ختم ہوجانا چاہیئی۔
صاحب ! دو تین دنوں میں کام ختم ہونا تو مشکل ہےکم سےکم آٹھ دن تو لگیں گےہی ۔ “ وہ آدمی کہنےلگا ۔
ٹھیک ہے! لیکن کم سےکم وقت میں کام ختم کرنا اگلےماہ میم صاحب کی برتھ ڈےہے۔ اس برتھ ڈےکی پارٹی میں میں اپنےاور میم صاحب کےدوستوں کو سرپرائز گفٹ دیناچاہتا ہوں ۔ “ بیٹا کہہ رہا تھا ۔
آپ فکر نہ کریں کام وقت پر ہوجائےگا ۔ “ وہ آدمی اٹھ کر جانےلگا ۔
ارےہاں ! مجھےاپنی اس برتھ ڈےپر کوئی قیمتی گفٹ چاہیئےجو کم سےکم بیس ہزار روپےکا ہو اور پھر پارٹی پر بھی تو دس بارہ ہزار روپےخرچ تو ہوں گےہی ۔ پھر یہ سیلنگ کا کام ۔ اتنےپیسےہیں بھی یا نہیں ؟
تم فکر کیوں کرتی ہو ۔ سارا انتظام ہوجائےگا ۔ “ بیٹا بولا ۔ اچانک اس کی نظر ان پر پڑی ۔ ” ارےابا جان ! آئیے۔ ہم لوگ آپ ہی کا انتظار کررہےتھے۔
چلئےجلدی سےہاتھ منہ دھولیجئے۔ نرگس ذرا کھانا لگانا ۔
ابھی لگاتی ہوں ۔ “ کہتی ہوئی بہو اٹھ گئی ۔ کھانا لگا گیا اور وہ ساتھ میں کھانا کھانےلگے۔ کھانا کھاتےوقت بھی ان کا ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا ۔ بیٹا فلیٹ کی چھت بدلنےپر دس بیس ہزارروپےخرچ کرنےپر تیار ہے۔ بیوی کی سالگرہ پر دس بیس ہزار روپےکا تحفہ دینےکےلئےتیار ہےسالگرہ کی پارٹی پر دس بارہ ہزار روپےخرچ کرےگا۔ خدا نےاسےوہ آسودگی عطا کی ہے۔جس کےلئےمیں زندگی بھر ترستا رہا ۔
مریم ! لگتا ہےہمارےبرےدن دور ہوگئےہیں تمہاری بھی ساری دکھ تکلیفیں دور ہونےوالی ہیں ۔ تمہیں بہت جلد اس موذی مرض سےنجات ملنےوالی ہےرات کو سونےکےلئےلیٹےبھی تو ذہن میں بیٹا ہی چھایا ہوا تھا ۔
بیٹےعامر !ایسا لگتا ہےتم میرےسارےخوابوں کو پورا کردوگے۔ تمہارےبارےمیں میں نےجو جو خواب دیکھےتھےوہ سارےخواب پورےکردوگے۔ خدا تمہیں زندگی کےہر امتحان میں کامیاب کرے۔ اور ساری دنیا کی مسرّتیں ‘ خوشیاں آکر تمہاری جھولی میں جمع ہوجائیں ۔ ان کی آنکھوں کےسامنےپانچ چھ سال کےعامر کی تصویر گھوم گئی ۔ جب وہ کھیتوں میں کام کررہےہوتےتو عامر اپنےننھےننھےہاتھوں میں تختی تھامےدوڑتا ہوا آتا تھا اور دور سےان سےچیخ کر کہتا تھا کہ ابا ! آج ماسٹر جی نےہمیں الف سےلےکر ت تک الفاظ سکھائےہیں ۔ مجھےاب پ ‘ ت سب لکھنا آتا ہےدیکھئےمیں نےلکھا ہے۔ وہ آکر ان سےلپٹ جاتا تھا ۔ اور اپنی تختی ان کی طرف بڑھا دیتا تھا ۔ تختی پر لکھےننھےننھےحروف پر نظر پڑتےہی ان کا دل خوشی سےجھوم اٹھتا تھا ۔
بیٹےمیرا دل کہتا ہےتو میرا نام ساری دنیا میں روشن کرےگا ۔ تُو ایک دن پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بنےگا۔ “ اور سچ مچ عامر نےنچلی جماعتوں سےہی ان کا نام روشن کرنا شروع کردیا تھا ۔
گاو

¿دسویں کےامتحان میں تو وہ پورےبورڈ میں تیسرا آیا تھا اور اس کی اس کامیابی سےنہ صرف ان کا بلکہ سارےگاو

¿

¿عامر کوا علیٰ تعلیم کےلئےشہر جانا تھا ۔ یہ تو بہت پہلےہی طےہوچکا تھا کہ وہ عامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر بھیجیں گے۔
مریم نےاپنےکلیجےپر پتھر رکھ لیا تھا اور پتھر رکھ کر اس نےعامر کو اعلیٰ تعلیم کےلئےشہر روانہ کیا تھا ۔ جس کو وہ ایک لمحہ اپنی آنکھوں سےجدا نہیں ہونےدینا چاہتی تھی ۔ آخر اس کی ایک ہی تو اولاد تھی ۔ دو تین بچےتو نہیں تھےجن سےدل بہلا سکے۔ پتہ نہیں کیوں قدرت نےانہیں عامر کےبعد اولاد نہیں دی ۔
عامر کا داخلہ ایک اچھےکالج میں ہوا ۔ اچھےنمبروں کی وجہ سےیہ داخلہ ممکن ہوسکا تھا ۔ لیکن کالج کی فیس تو ادا کرنی ہی تھی ۔ فیس اتنی زیادہ تھی کہ ان کی ساری بچت بھی کم پڑ رہی تھی اور مریم کےگہنےفروخت کرنےکےبعد بھی فیس کےپیسےجمع نہیں ہورہےتھے۔
یہ طےکیا گیا کہ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کردیا جائے۔ بچےکےمستقبل اور اس کی پڑھائی سےبڑھ کر کھیت نہیں ہے۔ آخر یہ سب تو اسی کا ہے۔ اگر یہ اس کےکام نہیں آئےتو اس کی کیا وقعت ۔ کھیت کا ایک ٹکڑا فروخت کرکےعامر کی فیس ادا کردی گئی اور اس کی پڑھائی کےاخراجات کا انتظام بھی کرلیا گیا ۔ بڑھتی عمر کےساتھ ان سےکھیتوں میں کام نہیں ہوتا تھا ۔ کھیت میں مزدور لگوا کر ان سےکام لیتےتھے۔ کبھی کبھی جب وہ کسی کام سےگاو

¿بڑھتا ہی جارہا تھا ۔
رات میں جب ٹھنڈی ہوائیں چلتیں تو دمیّ کا زور کچھ اتنا بڑھ جاتا تھا کہ انہیں مریم کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا تھا ۔ موسم کےبدلنےسےدمّہ سےکچھ راحت ملتی تو گردےکی پتھری زور کرتی تھی اور انہی دو بیماریوں کی وجہ سےانہیں مریم کو بار بار شہر لےجانا پڑتا تھا ۔ گاو

¿کےایک اچھےڈاکٹر کےعلاج سےتھوڑا ا

©

¿آتےہی وہ سب سےپہلےدونوں کےخرچ کےپیسےالگ اٹھا کر رکھ دیتےتھے۔ لیکن نہ تو عامر کی پڑھائی کےخرچ کی کوئی حد تھی اور نہ مریم کی بیماری کےخرچ کی ۔ دونوں بار بار اپنی حدود کو پار کرجاتےتھےاور ان کا سارا بجٹ گڑبڑا جاتا تھا ۔ ایسےمیں مریم ایثار کی مورتی بن جاتی تھی۔ وہ لاکھ تکلیفوں کو برداشت کرلیتی تھی اور ان سےکہتی تھی کہ میری طبیعت ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر کےپاس جانےکی ضرورت نہیں ہے۔ پیسےعامر کو بھیج دو ۔ وہ بیوی کےایثار کو سمجھتےتھےلیکن اس معاملےمیں بیوی سےبحث نہیں کرپاتےتھے۔ کیونکہ بیٹےکی پڑھائی سامنےسوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوجاتی تھی اور عامر ہر بار اچھےنمبروں سےپاس ہوتا تھا ۔ اور اس کی کامیابی سےوہ خوشی سےجھوم اٹھتےتھے۔ کہ عامر کےلئےوہ جو عبادت کررہےہیں ۔ قدرت انہیں ان کی اس عبادت کا پھل دےرہا ہے۔ آخر وہ دن آپہونچا جب عامر نےاپنی تعلیم اچھےدرجےسےپوری کرلی ۔
ابا ! اب آپ کو دن بھر دھوپ آگ میں کھیتوں میں کام کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب ہمیں کھیتی کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نےچاہا تو مجھےبہت جلد کوئی اچھی نوکری مل جائےگی اور مجھےاتنی آمدنی ہوگی کہ اس آمدنی سےآسانی سےمیں آپ لوگوں کی دیکھ بھال کرسکوں گا ۔ امی کا کسی اچھےڈاکٹر سےعلاج کرسکوں تاکہ امی کی بیماری جڑ سےہمیشہ کےلئےختم ہوجائے۔
عامر کی بات سچ بھی تھی ۔ عامر نےجو تعلیم حاصل کی تھی اس تعلیم کی وجہ سےاسےایسی نوکری تو آسانی سےمل سکتی تھی کہ اس میں ان تینوں کا گذر بسر ہوجائی۔ کھیتوں میں کام نہ کرنےکےعامر کےفیصلےسےوہ بھی مسرور تھےاب ان سےبھی دھوپ میں کھیتوں میں کام کرنےوالےمزدوروں کی نگرانی کا کام نہیں ہوتا تھا ۔ وہ کھیت میں ہوتےتھے۔ لیکن ان کا سارا دل گھر میں لگا ہوتا تھا ۔ مریم کیسی ہوگی پھر کہیں درد کا دورہ تو نہیں پڑگیا ؟ کئی بار ایسا ہوا جب وہ کھیت سےواپس آئےتوانہوں نےمریم کو کبھی پتھری کےدرد سےیا کبھی دمےکےدورےکےدرد سےتڑپتا ہوا پایا ۔ بس اسی وجہ سےمریم کو چھوڑ کر جانےکو ان کا دل نہیں چاہتا تھا ۔
تعلیم ختم کرنےکےبعد عامر ایک دو ہفتہ ان کےپاس آکر رہا تھا ۔ پھر نوکری کی تلاش میں واپس شہر چلا گیا ۔ ایک ہفتےکےاندر اس کا خط آیا کہ اسےایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔ دو مہنےبعد آیا تو کہنےلگا ۔ پہلےسےبھی اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے۔ اس لئےاس نےپہلی نوکری چھوڑ دی ہے۔
تین چار مہینےکےبعد اس کا خط آیا کہ اس نےایک چھوٹا سا کمرہ لےلیا ہی۔ وہ لوگ چاہیں تو آکر اس کےساتھ رہ سکتےہیں ۔ عامر کےپاس جاکر رہنا ایک تضاد کا معاملہ تھا ۔ دونوں اس کےلئےراضی نہیں تھے۔ اپنا گاو

¿نہ پہچان ۔ پھر وہاں کےہزاروں مسائل ۔عامر کےبہت زور دینےپر وہ کچھ دن اس کےپاس رہنےآئے۔ لیکن آنےکےبعد دونوں کا یہی خیال تھا کہ وہ اس کےپاس شہر میں نہیں رہ سکتے۔ انہیں وہاں کا ماحول راس نہیں آیا تھا نہ ان میں وہاں کےمسائل کا سامنا کرنےکی تاب تھی ۔ اس درمیان میں عامر نےانہیں لکھا اس نےایک لڑکی پسند کرلی ہےاور لڑکی کےگھر والےاس کی شادی عامر سےکرنےکےلئےتیار ہیں ۔ آپ لوگ آکر اس معاملےکو طےکرجائیں ۔ اس بات کو پڑھ کر وہ خوشی سےجھوم اٹھی

تھے۔ عامر نےان کےسرکا ایک بوجھ ہلکا کردیا تھا ۔ انہیں عامر کےلئےلڑکی ڈھونڈنی نہیں پڑی تھی ۔ اس نےخود ڈھونڈ لی تھی ۔ شادی بیاہ کےبارےمیں وہ اتنےدقیانوسی نہیں تھےکہ عامر کی اس بات کا برا مان جائیں ۔ ان کا خیال تھا کہ عامر کو اس لڑکی کےساتھ زندگی گذارنی ہے۔ اس نےخود لڑکی پسند کی ہےتو لڑکی اچھی ہی ہوگی ۔
وہ ایک دن جاکر نرگس کو دیکھ آئےاور شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئی۔ اس کےبعد انہوں نےبڑی دھوم سےعامر کی شادی کی ۔ گاو

¿گاو

¿
اس شادی میں ان کی ساری جمع پونجی اور مریم کےسارےزیورات کےساتھ زمین کا ایک ٹکڑا بھی بک گیا لیکن پھر بھی انہیں کوئی غم نہیں تھا ۔ وہ ایک اور فرض سےسبک دوش ہوگئےتھےجیسےان کی قسمت میں قدرت نےآرام لکھ دیا تھا ۔ عامر ہر ماہ اتنی رقم بھیجتا تھا کہ انہیں کھیتوں میں فصل اگوانےکی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اور اس رقم میں ان کا آرام سےگذر بسر ہورہا تھا ۔
معاملہ اس وقت گڑبڑا جاتا جب عامر رقم روانہ نہیں کرتا اور روانہ نہیں کرنےکی وجہ لکھ دیتا ۔ نرگس اسپتال میں تھی اس کی بیماری پر کافی خرچ ہوگیا ۔ نیا فلیٹ بک گیا اس کےپیسےبھرنےہیں۔ رنگین ٹی وی لیا ہےاس کی قسطیں ادا کرنی ہیں ۔ پھر مریم کی بیماریاں بھی زور پکڑنےلگیں ۔ کبھی کبھی ان کو بھی چھوٹی موٹی بیماریاں آگھیرتیں تب انہیں محسوس ہوتا کہ عامر پر تکیہ کرنا بےوقوفی ہی۔ چاہےکچھ بھی ہوجائےانہیں آرام کرنےکی بجائےکھیتوں میں کام کرنا چاہیئے۔ اور وہ پھر سےکھیتوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس وجہ سےان کی بیماریاں بھی بڑھنےلگیں اور مریم کی بھی ۔ مریم کو کبھی کبھی درد کےاتنےشدید دورےپڑتےتھےکہ محسوس ہوتا کہ ابھی اس کی جان نکل جائےگی۔ ڈاکٹر نےبھی صاف جواب دےدیا تھا ۔ اب تک میں دواو

¿کوشش بھی کرتا رہا ہوں ۔ لیکن نہ تو پتھری ختم ہوسکی ہےاور نہ درد اور اس وقت جو صورتِ حال ہےاس کےپیشِ نظر آپریشن بےحد ضروری ہے۔ ورنہ کسی دن درد کا یہ دورہ جان لیوا ثابت ہوگا ۔
مریم کی زندگی کےلئےآپریشن بےحد ضروری تھا اور اس پر دس پندرہ ہزار روپوں کےخرچ کی امید تھی ۔ اتنی رقم ان کےپاس نہیں تھی ۔ ڈاکٹر نےجلد آپریشن کرنےپر زور دیا تھا ۔ اس لئےانہوں نےسوچا ساری صورتِ حال سےعامر کو مطلع کردیا جائے۔ وہ مریم کےآپریشن کا انتظام کردےگا ۔ اس کےلئےوہ عامر کےپاس آئےآتےہی ادھر ادھر کی باتوں کےبعد اور پھر رات کا کھانا کھا کر سونےکےلئےآلیٹے۔ سوچا سویرےاطمینان سےباتیں کریں گے۔
دوسرےدن ناشتےکی میز پر انہوں نےساری صورتِ حال بیٹےکےسامنےرکھ دی ۔ ” ابا میں نےآپ کو بار بار لکھا تھا کہ آپ امی کےعلاج سےکوتاہی نہ برتیں ان کی بیماری بہت خطرناک ہے۔
ڈاکٹر کہتا ہےاب آپریشن بےحد ضروری ہے۔ “وہ بتانےلگے۔ ” ورنہ کسی دن بھی تمہاری امی کی جان جاسکتی ہے۔ آپریشن میں دس پندرہ ہزار روپےخرچ آئےگا۔ اس لئےمیں تمہارےپاس آیا ہوں ۔ اگر تم پیسوں کا انتظام کردو تو آپریشن کروا لوں۔ ڈاکٹر نےساری تیاریاں کرلی ہیں ۔
آپریشن ؟ “ ان کی بات سوچ کر عامر کچھ سوچ میں ڈوب گیا ۔ ” دس پندرہ روپوں کا انتظام ؟ “ بہو بیٹےکا منہ دیکھنےلگی ۔
ابا ! اب آپ سےکیا کہوں میں بھلا اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسےکرسکتا ہوں ۔ آپ جانتےہیں میرےپیچھےکتنےخرچ ہیں ۔ آپ کو باقاعدگی سےپیسہ روانہ کرنا ہوتا ہے۔ اس فلیٹ کو خریدنےکےلئےجو قرض لیا تھا اس کی قسطیں کٹ رہی ہیں ۔ فرنیچر اور ٹی وی والوں کی ادھاری دینی ہے۔ سمجھ لیجئےاس وقت میں کاندھےتک قرض میں دھنسا ہوں اور آپ امی کےآپریشن کےلئےدس پندرہ ہزارروپےمانگ رہےہیں ؟
بیٹےکی بات سن کر حیرت سےوہ اس کا منہ تاکنےلگے۔ بیٹےنےنظریں چرالیں تو وہ فلیٹ کی چھت کو گھورنےلگےجہاں نئی طرز کی سیلنگ آویزاں تھی ۔ اچانک ان کی آنکھوں کےسامنےمسجد میں اپنی بیٹی کےدل کےآپریشن کےلئےلوگوں سےمدد مانگنےوالےاس آدمی کا چہرہ گھوم گیا اور وہ لرز اٹھے۔ انہیں لگا جیسےوہ بیٹےکےفلیٹ کےدروازےپر رومال بچھا کر اس سےماں کےآپریشن کےلئےمدد مانگ رہےہیں ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی۔٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Naqab By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Naqab, Short Story, Urdu

e� p0 t �\u p�w ily:"Trebuchet MS"; color:black;font-weight:normal'>Urdu Short Story Tariki By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Short Story, Tariki, Urdu

�po p �\u p�w span>
¿
اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔
ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔
ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔
فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔
شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟
انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔
صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟
جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔
زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔
اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔
نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔
اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
تم ؟
صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔
تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو
¿
نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنےبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی،
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
M.Mubin
Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI_ 421302
Dist.Thane Maharashtra India)
Mob:- 09322338918) )
mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 20-11-2010

0 comments:

Post a Comment


About this blog

Followers